Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, September 4, 2018

سناتن سنستھا (ہندو تنظیم) کی ہٹ لسٹ۔

مہاراشٹر کے نالا سوپارہ میں دھماکہ خیز مادہ کے ساتھ گرفتار ہندو دہشت گرد تنظیم کے ارکان کے خطرناک منصوبے پر پیش ہے ایک حقیقت پر مبنی تجزیاتی رپورٹ۔۔۔۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .   بمبئی مہاراشٹر۔ صدائے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گزشتہ ماہ ممبئی کے  قریب نالا سوپارہ علاقہ سے سناتن سنستھا کے مبینہ ہندو دہشت گردوں کی گرفتاری عمل میں آئی، جن کے پاس سے دھماکہ خیز مواد کا بڑا ذخیرہ مہاراشٹر اے ٹی ایس نے برآمد کیا ہے۔ موقع یوم آزادی اور عیدالاضحٰی سے قبل کا تھا جس سے اندازہ لگایا گیا تھا کہ قومی و مذہبی تہواروں کے مابین یا موقع پر ملک میں دہشت گردی کے مکروہ کھیل کی تیاریاں چل رہی تھیں۔ اس معاملے میں گرفتار کئے گئے ہندو دہشت گردی کے تار اندھی اعتقاد پرستی کے شدید مخالف نریندر دابھولکر اور بے باک خاتون صحافی گوری لنکیش کے قتل سے جڑتے نظر آئے اور کرناٹک اے ٹی ایس نے مہاراشٹر اے ٹی ایس سے رابطہ کرکے سناتن سنستھا اور ہندوجاگرن سمیتی کے مبینہ دہشت گردوں سے تفتیش کی جس میں کئی اہم سراغ سامنے آئے ہیں۔  اس سارے معاملے میں مہاراشٹر اے ٹی سربراہ اتل چند کلکرنی کا کردار ہر لحاظ سے قابل تعریف ہے کہ انہوں نے پرآشوب دور میں خدشات سے قطع نظر اپنی منصب کی ذمہ داری کو بخوبی انجام دیا ہے جبکہ وہ خود بھی اس بات سے واقف تھے کہ ہندو دہشت گردوں پر ہاتھ ڈالنے کا شاخسانہ کے طور پر سابق اے ٹی ایس چیف ہیمنت کرکرے کو اپنی جان گنوانی پڑی تھی۔ کہانیاں سیکڑوں تھیں لیکن حقیقت یہی تھی۔
نالا سوپارہ معاملہ میں گرفتار کئے گئے مبینہ ہندو دہشت گردوں سے پوچھ تاچھ میں دابھولکر اور گوری لنکیش کے قتل کا سراغ ملا۔ اس کے چند ہی دنوں بعد مہاراشٹر پولیس نے اس فکر پر ایک بڑا کریک ڈاؤن کیا جو ہندو جاگرن سیمتی اور سناتن سنستھا کیلئے معتوب ٹھہری تھی اور واجب القتل سمجھی گئی تھی۔ مہاراشٹر کے طول و عرض سے درجنوں انسانی حقوق کے کارکنان گرفتار کئے گئے جو نظریاتی اور فکری طور پر بڑی حد تک نریندر دابھولکر اور گوری لنکیش کے ہم خیال تھے۔ البتہ ریاستی حکومت اور پولیس نے ان گرفتاریوں کو امسال کے آغاز میں یکم جنوری کو بھیما کوریگاؤں فساد اور نکسل واد سے منسوب کیا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنان کی گرفتاریوں کی ملک بھر میں مخالفت کی گئی اور بعض حلقوں میں یہ تسلیم کیا گیا کہ یہ گرفتاریاں نالاسوپارہ کے اصل واقعے سے عوامی توجہ منشر کرنے کی کوشش ہے۔ جو قتل ہونے سے بچ گئے وہ جیلوں میں ٹھونس دئے گئے اور سناتن سنستھا و ہندو جاگرن سمیتی پر پابندی کے مطالبات پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ ایمرجنسی کی اس سے واضح مثال اور کیا ہوسکتی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنان کی گرفتاری کی مخالفت عوام بالخصوص مسلم عوام کا اخلاقی فریضہ ہے کہ جب کبھی بھی ملک کے مسلم طبقہ پر ناگزیر حالات آئے ہیں، انہیں گئو رکشا کے نام پر ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا ہے، دہشت گردانہ معاملات میں انہیں مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے، ایسے ہر موقع پر انسانی حقوق کے کارکنان مسلمانوں کے دفاع میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آئے ہیں۔ انہوں نے انسانی حقوق کو ہر موقع پر مذہب، ذات اور نسل پر فوقیت دی ہے۔
اس دوران یہ اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ سناتن سنستھا کے دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر ممبرا کے رکن اسمبلی جیتیندر اوہاڈ بھی تھے۔ راشٹر وادی کانگریس پارٹی کے جیتیندر اوہاڈ بھی ان لیڈران میں سے ہیں جنہوں نے ہر موقع پر انصاف کی آواز بلند کی ہے اور بے قصور مسلمانوں کی حمایت کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سناتن سنستھا کی ہٹ لسٹ میں شامل تھے۔ اس سارے معاملے سے قبل ریاستی حکومت کی جانب سے جیتیندر اوہاڈ کی سیکیورٹی یہ کہہ کر ختم کردی گئی تھی کہ ان کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اب سناتن کے مبینہ دہشت گردوں کی جانب سے اوہاڈ کو ٹارگیٹ کرنے کے پلان کا خلاصہ مہاراشٹر کی بی جے پی حکومت کی نیت پر بھی شبہات کھڑے کرتا ہے کہ آیا سناتن دہشت گردوں کو مواقع فراہم کرنے کیلئے ہی تو اوہاڈ کی سیکورٹی کم نہیں کی گئی تھی۔
نالا سوپارہ کے بم برآمدگی معاملہ ہو، انسانی حقوق کے کارکنان کی گرفتاری کا معاملہ ہو جییتندر اوہاڈ کو نشانہ بنانے کا معاملہ،، ان سارے معاملات سے مسلمانوں کا بظاہر تو کوئی تعلق نہیں ہے لیکن ان تمام معاملات کے بین السطور میں مسلمان موجود ہیں، دہشت گردی کے الزامات مسلمانوں پر عائد کئے جاتے ہیں، انسانی حقوق کے کارکنان مسلمانوں کے حق میں صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں، جییتیندر اوہاڈ ان دہشت گردوں کو اسمبلی ہو کہ پبلک اسٹیج، ہر جگہ بے نقاب کرتے نظر آئے ہیں، دھمکیوں سے ڈرنے کے بجائے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے دکھائی دیئے ہیں، ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی اسی خیر خواہی کے نتیجے میں وہ سناتن سنستھا کے دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر آئے ہیں۔ اب ان کے اس جرأتمندانہ عمل کو لوگ ووٹ کی راج نیتی یا سیاسی حکمت عملی بھی کہہ سکتے ہیں، لیکن ایسی سیاسی حکمت عملی یا ’سیاسی مفادپرستی‘ میں کیا مضائقہ کہ جس سے فرقہ پرستوں اور ہندتو دہشت گردوں کا حقیقی چہرہ بے نقاب ہو نیز ان کی نقل و حرکت پر قدغن لگے۔ ایسی صورتحال میں سب سے بڑی ذمہ داری مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اجتماعی طور انسانی حقوق کے کارکنان اور جیتیندر اوہاڈ جیسے لیڈروں کے دست وبازو بنیں، ان کے عزائم کو استحکام بخشیں کہ مبادا کل کوئی برا وقت آئے تو انہیں مسلمانوں کیلئے کھڑے ہونے اور انصاف کی آواز بلند کرنے میں کوئی عار نہ محسوس ہو۔