Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, September 23, 2018

علی گڑھ میں انکاونٹر یا ڈرامائی قتل۔


انکاﺅنٹر پولیس ٹیم اور یوگی آدتیہ ناتھ سرکار سے کچھ سوالات:
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
بے حِسوں کے رستے لہو میں نوشاد اور مستقیم کا اضافہ:
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
تحریر/ سمیع اللہ خاں۔جنرل سکریٹری کاروان امن و انصاف۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
اترپردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کا راج چل رہاہے، یوگی آدتیہ ناتھ کی شبیہ وزیراعلیٰ بننے سے پہلے اور بعد میں کیسی تھی؟ اور ہے؟ اس میں صرف سواریوں اور لباس کا فرق آیاہے البتہ ان کے مذہبی جنون نے طاقت کا نشہ ضرور پالیا ہے، وہ ہندوستان کی بڑی جمہوری ریاست کی دستوری کرسی سے کبھی اعلان کرتے ہیں کہ عید کی مبارکباد نہیں دونگا، کبھی وارننگ دیتےہیں ہیں کہ عیدالاضحیٰ کو چھپ چھپا کر مناؤ، تو کبھی بچوں کی اموات پر سفاک سی مسکراہٹ بکھیرتے ہیں، ان کے دور اقتدار میں اترپردیش کا پورا سسٹم ہی زبردست آزادی کا شکار ہوا ہے، اس کے نظارے کبھی آپ یوپی کی راجدھانی لکھنؤ میں دیکھ سکتےہیں، سسٹم کے دفاتر اور ٹریفک و کنٹرولنگ کے محکموں کا بھی جائزہ لے سکتےہیں، بتدریج یہ ریاست لا قانونیت اور ایک بےلگام بھیڑ کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے، رفتہ رفتہ عوام یہاں جنگل راج میں جانوروں کی طرح عادی ہوتی جارہی ہے، یہ سب ایک خاص ٹارگٹ کے لیے یہاں جاری ہے ۔
*اترپردیش میں یوگی راج آنے کے بعد سے سب سے زیادہ آزاد اور باہوبلی دبنگ اسٹائل میں سامنے آئی ہے یہاں کی پولیس، نو کرائم زون کے غیر فطری اور اب تک چھپن جیسے غنڈئی نعروں کے ساتھ اترپردیش پولیس نے ۱ ہزار سے زائد انکاﺅنٹر کیے ہیں، ان انکاﺅنٹرز کی حقیقت کرائے کے پیشہ وارانہ قتل سے زیادہ کچھ نہیں اس کا خلاصہ بھی ہوچکاہے، انڈیا ٹی وی اور آج تک کی فائلیں اس کی گواہ ہیں، لیکن اس حقیقت کے آشکار ہونے کے باوجود اترپردیش پولیس کی خونیں کارروائیاں رکی نہیں ہیں بلکہ بڑھتی ہی جارہی ہیں، اور عام انسان آئے دن اس کے ہتھے چڑھ کر اپنا سب کچھ کھو رہےہیں، تازه ترین واردات علی گڑھ انکاﺅنٹر کی ہے، جہاں پولیس نے نوشاد اور مستقیم نامی دو نوجوانوں کو نہایت ہی ڈرامائی انداز میں موت کے گھاٹ اتار دیاہے، لیکن اس انکاﺅنٹر کی اسٹوری بھی پولیس کی خونی کارروائی پر کئی طرح کے سوال کھڑے کررہی ہے*
پولیس کا کہناہے کہ نوشاد اور مستقیم یہ دونوں سادھوؤں کو قتل کرنے کے مجرم ہيں اور یہ اچانک ایک جگہ راستے میں بائک پر نظر آئے اور پولیس نے انہیں دوڑا کر شہر سے دور ایک کھنڈر میں مار گرایا ۔
دوسری طرف نوشاد اور مستقیم جوکہ آپس میں قریبی رشتےدار تھے ان کے اہلخانہ کا کہنا ہیکہ پولیس نے انہیں باضابطہ ان کے گھر سے گرفتار کیا ہے ۔
پولیس کا کہنا ہیکہ:
یہ دونوں موٹرسائیکل پر فرار ہورہے تھے
لیکن ان کے اہلخانہ ہی نہیں گاؤں والوں کا بھی یہ کہناہے کہ:
یہ دونوں لڑکے، سلائی اور کڑھائی کا کام کر کے اپنا اور اپنے اہلخانہ کا پیٹ پالتے تھے
ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسے دو نوجوان جن کی ماہانہ آمدنی ۳ ہزار سے زائد نہیں اور جنہیں ہم لوگوں نے کبھی بائک چلاتے ہوئے دیکھا تک نہیں، اور ہمیشہ انہیں مزدوری وغیرہ کے لیے بھی صرف سائیکل چلاتے ہوئے دیکھا ہے، وہ بھلا کس طرح ایک بائک پر فرار ہوسکتےہیں؟
مستقیم کی دادی رفیقُن جو اس واقعے کی چشم دید گواہ ہیں انہوں نے بتایا کہ، " پولیس گھر سے نوشاد اور مستقیم کو ہمارے سامنے لے کر بھی گئی اور بری طرح مارا پیٹا بھی، پھر جبراً کچھ کاغذات پر ہمارے انگوٹھے کے نشان بھی لیے "
نوشاد کی ماں کے مطابق:
" قریب ڈھائی بجے وہ مزدوری کرکے گھر واپس آئیں تو دیکھا کہ بڑی بیٹی رو رہی تھی اور اس نے بتایاکہ پولیس والے گھر آئے اور نوشاد کو گھسیٹ کر لے گئے اور ساتھ میں مستقیم کو بھی مار پیٹ کر لے گئے " ۔
نوشاد اور مستقیم کے گھر والوں کا یہ بھی کہناہے کہ " آس پاس کے پڑوسیوں اور گاؤں والوں نے اس وقت ان کا حوصلہ بھی بندھایا کہ پولیس ان کے بچوں کو چھوڑ دے گی وہ فکر نہ کریں کیونکہ ان کے بچوں نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے " البتہ گھر والوں کی تشویش میں مزید اضافہ تب ہوا جبکہ پولیس نے دریافت احوال کے لیے تھانے جانے والے افراد کو ڈانٹ ڈپٹ کر بھگادیا ۔
اہلخانہ انتظار کرتے رہے لیکن ان کے بچے تو نہیں آئے البتہ ان کے مردہ جسم ادھوری تدفین و تجہیز کے ساتھ ان کے سامنے ضرور آئے، جس نے اس غریب گھرانے کو جیتے جی موت کی بینڈ سلا دیا ہے ۔
*آئیے پولیس کی اسٹوری کی طرف*
اس انکاﺅنٹر ٹیم کو نجانے کيا سوجھی تھی کہ اس نے ازخود میڈیا کو متوقع انکاﺅنٹر کی خبر دی اور کہا کہ لائیو انکاﺅنٹر کا کوریج چاہیے تو فلاں جگہ پہنچ جاؤ،
لوگ پولیس کے اس بیان کو سرسری لے رہےہیں لیکن درحقیقت پولیس کے اسی Statement میں انکاﺅنٹر کی پول کھولنے والا سوال چھپا ہوا ہے، پولیس میڈیا والوں کو فون کرکے کہتی ہیکہ، آجاؤ اگر انکاﺅنٹر کا لائیو کوریج چاہیے تو، مطلب کیا ہے؟ اب تک انکاﺅنٹر ہوا ہی نہیں تھا اور گھنٹوں پہلے میڈیا کو اطلاع دے دی گئی اور اس میں صاف طور پر یہ کہا گیا کہ انکاﺅنٹر کیا جائے گا، یعنی کہ پولیس کی نیت پہلے سے ہی ان دو نوجوانوں کو مار گرانے کی تھی نا کہ دھر دبوچنے کی ۔
جب میڈیا کے نمائندے وہاں پہنچے تو ان کے مطابق اس کھنڈر کے پاس صرف گولیاں چلنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں، تھوڑی دیر بعد دو گاڑیاں وہاں سے روانہ ہوئیں اور میڈیا والوں سے کہا گیا کہ لمبی مڈبھیڑ میں نوشاد اور مستقیم زخمی ہوئے ہیں اور ایک پولیس اہلکار بھی زخمی ہوا ہے ۔
دوسری طرف میڈیا والوں کا، کہنا ہیکہ کون پولیس والا زخمی ہوا؟ اور وہ دونوں کیسے زخمی ہوئے؟ گولیاں کہاں لگیں تھیں؟ انہیں کب اور کس طرح اس کھنڈر سے نکال کر لے جایاگیا یہ کسی کو نہیں پتا، تینوں میں سے کسی ایک کو بھی زخمی حالت میں باہر لے جاتے ہوئے کسی نے بھی نہیں دیکھا!
ایسے میں ایک فطری سوال اٹھتا ہیکہ پھر آخر یہ گولیوں کے تبادلے کیسے ہورہے تھے؟ کہیں یہ بھی بٹلہ ہاؤس اور لکھنؤ انکاﺅنٹر کی طرح تو نہیں تھے؟
ایکطرف پولیس جائے واردات سے ۳ زخمی لوگوں کو اسطرح لے جاتی ہے کہ ان میں سے کسی ایک کی بھی تصویر زخمی ہوتے ہوئے یا زخمی ہونے کے بعد کی فراہم نہیں کرپاتی ہے، اور تو اور انہیں وہاں سے اس طرح نکال لے جاتی ہیکہ میڈیا کے بے شمار کیمروں کی زد سے بھی بچا کر بڑی احتیاط سے نکال لاتی ہے، لیکن دوسری طرف پولیس کا دعویٰ ہیکہ مرنے سے قبل نوجوانوں نے اقبال جرم کر لیا تھا، کیا پولیس یہ بتا سکتی ہیکہ اگر ان لوگوں نے اعتراف جرم کر لیا تھا تو کیا اس وقت وہاں موجود پولیس اہلکاروں میں سے کسی ایک کے پاس کیمرہ تو چھوڑیے کوئی ایسا کیمرہ فون بھی نہیں تھا جس میں وہ انکاﺅنٹر مجرموں کی حرکات و سکنات کو ریکارڈ کرتے؟ جبکہ یہ سامنے کی اور اصولی ذمہ داری ہے جسے ضلعی لیول کے پولیس افسران نے نظرانداز کردیا، اگر ایسے حساس ترین معاملےمیں اس نزاکت کو یہ ٹیم ملحوظ نہیں رکھ سکتی تو اس کی کارکردگی کیونکر شفاف ہوسکتی ہے؟
ایکطرف پولیس کہتی ہیکہ شہر سے دور واقع کھنڈر میں یہ دونوں جا کر چھپ گئے اور پھر ۲ گھنٹے جاری مسلسل شوٹ آؤٹ کے بعد انہیں زخمی حالت میں وہاں سے لے جایاگیا،
اور دوسری طرف پولیس ٹیم جائے واردات سے صرف اور صرف خون کے تین دھبے فراہم کرتی ہے، ایک چھوٹا سا بچہ بھی پولیس کی اس حرکت پر ماتم کرےگا، بھئی اگر ہم جانور کو بھی ذبح کرتے ہیں یا مرغ کو چاقو تلے رکھتے ہیں تو خون کا فوارہ پھوٹ پڑتاہے، لیکن دو ہٹے کٹے توانا جوان ایسے نکل آئے کہ پولیس سے ان کی ایسی مڈبھیڑ ہوتی ہے کہ اس میں وہ زخمی ہوجاتے ہیں، ایسے زخمی کہ طبی امداد سے قبل ہی دم توڑ دیتےہیں، لیکن ایسے زخمیوں کا خون بمشکل تین چھوٹے چھوٹے دھبے!! سمجھ نہیں آرہاہے کہ پولیس کی اس ٹیم نے ایسی بے سر پیر کی منطق کیا سمجھ کر پیش کی ہے، جانے کیا کھا، پی کر نکلے تھے یہ لوگ انکاﺅنٹر کرنے ۔
چلیں، پولیس والوں سے ہماری گذارش ہیکہ، وہ خون کے ان تین دھبوں کو فورنسک لیب بھجوائیں لیکن اترپردیش سے باہر عدالتی نگرانی میں، اور فورنسک رپورٹ کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائےگا کہ یہ خون اس زمین پر کس طرح بہا ہے؟ آیا یہ خون راست جسم سے نکل زمین میں جذب ہوا ہے؟ یا کہیں سے لا کر وہاں بہایا گیاہے؟ فورنسک کی رپورٹ سے یہ بات بھی صاف ہوجائے گی کہ، یہ خون جسم سے کتنے گھنٹوں پہلے نکلا ہے!
دوسری طرف بی سی کی تحقیقاتی ٹیم کے ذریعے ایک اور اہم سراغ ہاتھ آیاہے، جائے واردات کے اطراف والوں سے جب پوچھ تاچھ کی گئی تو ان میں سے بعض افراد نے بتایا کہ انکاﺅنٹر سے ایک روز قبل کچھ لوگ ان کے یہاں آئے تھے اور انہوں نے ان سے کئی سوالات کیے تھے جن میں سے ایک سوال تھا کہ، کیا اس کھنڈر میں یا اس کے آس پاس کوئی چوکیدار رہتاہے؟ اترپردیش پولیس کیا اپنی چالاکی اور مہارت سے ان خفیہ لوگوں کے نام اور پتے فراہم کرسکتی ہے جو جائے واردات پر ایک روز قبل ہی پہنچ گئے تھے؟ ہوسکتا ہے انہوں نے خواب دیکھ لیا ہو کہ آنے والے کل میں یہاں کوئی انکاﺅنٹر ہونے والا ہو اور اسی کی تیاری میں کچھ لوگ وہاں پہنچ گئے ہو ۔
میڈیا کے بعض نمائندوں کا یہ بھی کہناہے کہ، جب وہ لوگ جائے واردات پر پہنچے تو گولیوں کی ٹھائیں شائیں جاری تھی، لیکن دلچسپ حقیقت یہ تھی کہ جن افسران نے کھنڈر میں اَن دیکھے ٹارگٹس کو سامنے سے کور کیا ہوا تھا انہوں نے کوئی بھی بلٹ پروف نہیں پہنی تھی، البتہ پیچھے کھڑے دیگر افسران نے بلٹ پروف جیکٹ پہنی ہوئی تھی ۔
اس انکاﺅنٹر کے تناظرمیں *اترپردیش گورمنٹ، یوگی آدتیہ ناتھ، اور انکاﺅنٹر پولیس کو اٹھنے والے سوالوں کے جواب دینے ہی ہوں گے، آج نہیں تو کل، آئندہ نسلوں کو ہی سہی ہر قطرۂ خون کا حساب دینا ہی ہوگا ۔  اگر واقعی یہ انکاﺅنٹر ہے تو بتائیں کہ،  انکاﺅنٹر سے ایک روز پہلے نوشاد اور مستقیم کی لوکیشن کہاں تھی؟ فورنسک ٹیم تشکیل دیجیے، عدالتی نگرانی میں خون کے دھبوں کی جانچ رپورٹ دی جائے ‌، گولیوں کی جانچ ہو اور ہتھیاروں کا بھی ڈاٹا نکالا جائے، ضبط شدہ موٹر سائیکل کی تفصیلات فراہم کیجیے، نوشاد اور مستقیم کے گھر پر دو روز پہلے جو جو فون ایکٹیو تھے ان کو عام کیا جائے، انکاﺅنٹر ٹیم میں موجود ہر پولیس اہلکار کی دو دن کی مکمل فون لوکیشن اور ریکارڈنگ عدالت میں پیش کی جائے کیا اترپردیش سرکار اور بہادر علی گڑھ پولیس اس کے لیے تیار ہے؟*
دراصل یہ پورا انکاﺅنٹر ایک معمہ ہے، یہی ایک انکاﺅنٹر نہیں تمام کے تمام انکاﺅنٹر معمہ ہیں، فسادات، ماب لنچنگ، لو جہاد، جیل ٹھنسائی، کے ساتھ ساتھ اب مسلم قوم کے لیے یہ ایک اور معمہ رہےگا، *انکاﺅنٹر ہوتے رہیں گے، نوجوان ہتھے چڑھتے رہیں گے، آج وہ گئے ہیں، کل میں جاؤنگا ۔ لکھنے کے لیے سچائی ہم نے لکھ دی ہے لیکن آج نہیں تو کل اپنا انجام بھی یقینی ہے کیونکہ بےحس اور قومی ضمیر کو دفنا دینی والی اقوام کا تاریخ میں ایسا ہی حشر ملتاہے، جب جرأت کی جگہ حکمت لے لے، جب للکار کی جگہ درخواست لے لے، جب احساس کی جگہ احتیاط لے لے، جب شجاعت پر مداہنت غالب آجاوے، جب اجتماعی وجود احساسِ خودداری سے عاری ہوجائے، جب قومی امراض کی تشخیص گستاخی ہوجائے، جب ملی امراض پر نشاندہی اچھوت قرار پائے، جب رستے اور بہتے قومی جسم کو سوالات سے بالاتر کردیا جائے، تب صرف اور صرف پستی اور رسوائی کا بول بالا ہوتاہے، تب اولوالعزمی اور عالی ہمتی غیرمحسوس طریقے پر ایک مردہ جسم پر فاتحہ خوانی کرتی ہے، بےلوث عزائم اسی کو کھینچتے رہ جاتےہیں اور تخریب سردھنتی ہے تعمیر پکارتی رہ جاتی ہے، آگے بھی ایسے ہی قوم کے بچے مرینگے یا مرتے رہیں، چوراہے پر گھیر کر مارے جائیں یا انصاف گاہوں میں قتل کیے جائیں کوئی فرق نہیں پڑتا، کیوں کہ کمان محفوظین کے ہاتھ میں ہے، یقین نہ ہو تو جائزہ لیجیے کتنی جیت آپکی ہوئی؟ فسادات کے سیاسی قاتلوں کو کتنی سزائیں ہوئیں؟ مسلم نوجوانوں کی زندگیاں جیلوں میں رگڑوانے والوں میں سے کتنوں کو سزا ہوئی؟ سینکڑوں ہجومی دہشتگردی ہوئی سینکڑوں انکاﺅنٹر ہوئے اب تک ان میں کسقدر انصاف ہوا؟ آپ بس، آگے آئیے بلی چڑھائیے، اس سسٹم کو صرف اور صرف ہمارا قومی خون چاہیے جس پر دستخط ہوچکی ہے، یقین نہ ہو تو اگلے انکاﺅنٹر کا انتظار کیجیے۔
بشکریہ صدائے وقت۔