Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, September 21, 2018

آہ مولانا قاری شاہ محمد مبین الہٰ آبادی

دبستانِ معرفت کےگوہرشب چراغ تھے
حضرت مولاناقاری شاہ محمد مبین الٰہ آبادی ؒ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔            
خصوصی نمائندہ صدائے وقت بشکریہ مفتی محمد ساجد۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔. 
آہ! دیکھئے ابھی اور کتنے حادثے اس پر یشان ملت کے نصیبہ میں لکھے ہیں۹؍ ستمبر ۲۰۱۸ء مطابق ۲۸؍ ذی الحجہ ۱۴۳۹ھ یکشنبہ کو برادرگرامی مولانا عبداللہ ندوی ابن شیخ طریقت حضرت مولانا شاہ محمد قمرالزماں الٰہ آبادی دامت برکاتہم کی طرف منسوب ایک مختصرسا اطلاع نامہ سوشل میڈیا میں نہایت غم کے ساتھ پڑھا گیا، جس میں موصوف نے اپنے خالو محترم حضرت مولانا قاری محمد مبین الٰہ آبادی کے سانحۂ رحلت کی خبر کلفت اثر دینے کے ساتھ ایصالِ ثواب کی بھی درخواست گذاری تھی۔
اس حادثہ کے علم میں آتے ہی حضرت مولانا قاری شاہ محمد مبین کی نادیدہ شخصیت کا رہ رہ کر خیال آتا رہا، آپ کے نام اور کام کی خوشبو سے چونکہ دل ودماغ تازہ رہتا تھا اس لئے مذکورہ حادثہ کی کسک شدت اختیار کرتی گئی، اب جبکہ ماہ نامہ ’’صدائے حق‘‘ گنگوہ کیلئے یہ بے ترتیب چند سطریں رقم کرنے بیٹھا ہوں تو حضرت قاری صاحب کے افادہ وفیضانِ معرفت کا ایقان تیز ہوتا جاتا ہے کہ کس طرح اس مستِ قلندر نے نہایت خاموشی اور ہٹو بچو والی مادی زندگی سے گریزاں رہ کر دوائے دل کے نسخے تجویز فرمائے، بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم بھیجا اور اپنے نفسِ گرم کی تاثیر سے تصفیۂ قلوب کے جوت جگائے، واقعی خلقِ خدا کی فیض رسانی کا جذبہ انہیں ہر دم ستاتا تھا اور مستیٔ توحید کے نغمے ا ن کا سازِ دل چھیڑتے رہتے ، یوں بھی عشقِ الٰہی کا روگ انہوں نے ارادی طورپر پالا تھا، جس کی حرارت انہیں بے چین کئے رکھتی تاآں کہ وہ اپنے شیخ کے فرمودہ وظائف واشغال سے قلبی تسکین نہ پالیتے۔
حضرت قاری صاحبؒ نے ۱۹۳۳ء کے ماہ وایام میں فتح پور ضلع اعظم گڈھ کے کسی مضافاتی گاؤں میں آنکھیں کھولی اور ابتدائی تعلیم مکمل کرکے بزم اشرف کے روشن چراغ مصلح الامت حضرت مولانا شاہ محمد وصی اللہ فتح پوری ثم الٰہ آبادی کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوگئے تھے، مخلص اور وفاشعار مرید جب قاری مبین جیسا نیک طینت وپاکباز ہو اور حضرت شاہ صاحب قدس سرہ جیسا شیخِ کامل اس پر اپنی کیمیا اثر نظر ڈالدے تو لوہا بھی کوہِ نور بن جاتا ہے، چنانچہ یہی ہوا کہ حضرت قاری صاحب نے اپنے کردار وعمل سے حضرت شاہ صاحب کا قربِ خاص پانے کے ساتھ ان کی احسانی نسبتوں کو جذب کیا اور بالآخر حضرت اقدس شاہ وصی اللہ قدس سرہ کے جانشین وبڑے داماد قرار پائے، وذالک فضل اللہ یؤ تیہ من یشاء۔
حضرت شاہ وصی اللہ فتح پوری علیہ الرحمہ کی راست جانشینی کسی چھوٹی موٹی درسگاہ کی نظامت یا کسی سرکاری خالی منصب کی بھرپائی نہ تھی کہ جہاں بسا اوقات گونا گوں مصالح آڑے آجاتے ہیں بلکہ ایسے زریں اور بافیض سلسلہ کی بقاکا مسئلہ پیشِ نظر تھا جس کی بنا وترسیل مجدد الملت حضرت مولانا شاہ محمد اشرف علی تھانوی نوراللہ مرقدہ کی پاکیزہ اصلاحات کی مرہون تھی، واقف کاروں کا بیان ہے کہ حضرت مولانا شاہ محمد وصی اللہ الٰہ آبادی اپنے شیخ ومرشد حضرت تھانویؒ کی نگاہوں میں بہت جلد چڑھ گئے تھے جس کا کسی قدر اندازہ ذیل کی اس روایت سے لگایا جاسکتا ہے جو حیاتِ مصلح الامت کے مرتب مولانا اعجاز احمد اعظمیؒ نے نقل فرمائی ہے ، لکھتے ہیں ’’حضرت مولانا محمد سعید کیرانوی مدراسی خلیفہ حضرت حکیم الامت قدس سرہ نے مجھ سے فرمایا کہ مولانا وصی اللہ صاحب حضرت کے بہت ہی عاشق تھے ، ایک وقت حضرت تھانوی نے کسی اصلاحی بات پر غصہ ہوکر ان سے فرمایاکہ یہاں سے چلے جاؤ ، مولانا وصی اللہ صاحب خانقاہ سے کہیں چلدئے پھر حضرت تھانویؒ رات بھر لالٹین ہاتھ میں لیکر تلاش فرماتے رہے ، تھانہ بھون کے ہر ہر کنویں پر بھی جاکر دیکھتے کیوں کہ ان پر ایک حال طاری تھا ، حضرت کو یہ اندیشہ ہواکہ کسی کنویں میں جاکر نہ گرگئے ہوں ، آخر تین دن کے بعد دہلی سے کسی حکیم صاحب کا سفارشی خط لیکر حضرت کے قدموں پر آکر گرگئے اور بے ہوش ہوگئے ، حضرت ان کے سر کو اپنی گودمیں رکھ کر خود ہی پنکھا جھل رہے تھے ، پھر ہوش آیا تو حضرت نے ان کو بیعت کی اجازت مرحمت فرمائی (حیات مصلح الامت اول ؍ص:۷۶)۔
اس روایت سے حضرت شاہ صاحب اور ان کے مرشد گرامی حضرت تھانویؒ کے دوطرفہ محبت وقلبی تعلق کا عرفان ہوتا ہے، حضرت شاہ صاحب کے مقامِ ولایت کی شہادت فخرالمحدثین حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے برادر نسبتی حضرت مولانا حکیم سید محفوظ علیؒ ان الفاظ میں دیتے ہیں۔
’’ہاں بھائی! مولوی وصی اللہ کا کیا کہنا وہ تو مادر زاد ولی تھا ، چنانچہ کبھی کبھی احاطۂ مولسری کے کنویں سے یونہی ہاتھ ڈال کر پانی نکال لیتا تھا ، ہم لوگ اس کو جانتے تھے (سوانح مصلح الامت ؍ص: ۵۶)۔
حضرت مجددالملت مولانا شاہ اشرف علی تھانویؒ نے اصلاح انقلاب امت اور مسلم سوسائٹی میں در آئے بیجا رسومات پر قدغن لگانے کے حوالہ سے جو تجدیدی کام کئے زمانہ اس کا گواہ ہے ، مصدرِ فیاض نے انہیں اپنے بندوں کی اصلاحِ ظاہر وباطن کا جو حکیمانہ اسلوب وطریقہ اور جذبہ عطا فرمایا تھا، اس کے بابرکت اثرات آج صرف برِ صغیر ہی نہیں دنیا کے دور دراز خطوں میں بھی محسوس کئے جاسکتے ہیں، چنانچہ تقریباً یہی روح اور فکر مزاج وطبائع کے اختلاف کے ساتھ آپ کے بافیض خلفاء کے کردار وعمل میں جھلملاتی ہے، حضرت تھانویؒ کی تحریکِ اصلاح کے مختلف عنوانات ہیں، جن پر آپ کے متوسلین نے بساط بھر کام کیا ہے، چنانچہ حضرت شاہ وصی اللہ صاحب نے لوگوں کے ظاہر وباطن کے تضادات اور فاسد ہوتے اخلاق کو محور بناکر کام کیا تھا، مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رقم طراز ہیں:
’’ حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب کے کام اور ان کی دعوت واصلاح کے نقطۂ مرکزی کو بیان کیا جائے جس کے گردان کی پوری دعوتی واصلاحی جد وجہد گردش کرتی رہی تو ہمارے نزدیک اس کا عنوان ہوگا ’’ازالۂ نفاق واصلاح اخلاق‘‘۔
حضرت مفکر اسلام کے اس بلیغ تجزیہ کے تناظر میں حضرت شاہ وصی اللہ صاحب کی خدمات آبِ زلال سے لکھے جانے کے قابل ہیں، کہ کس طرح انہوں نے مشرقی یوپی کو مرکز بناکر عوام وخواص کی اصلاح کا بیڑہ اٹھایا، جس کے خوش گوار اثرات دور دور تک متعدی ہوئے لوگوں میں عقیدہ وفکر کو درست کرنے اور اعمال واخلاق کو سنوارنے کی تحریک پیدا ہوئی، جس کی بدولت سجدے ذوق سے آشنا ہوئے، صفوں میں اتحاد اور دلوں میں اطمینان کی قندیلیں روشن ہوئی۔خاکسار کی اس دراز نفسی کا خلاصہ ومقصد دراصل یہ بتانا ہے کہ حضرت شاہ صاحب نے آخر کوئی تو اختصاص اور مابہ الامتیازاپنے اس مرید باصفا میں ضرور مشاہدہ کیا ہوگاکہ علم وعمل کے چمکتے آفتاب ومہتاب کے جھرمٹ میں اپنی جانشینی کیلئے نگاہ انتخاب حضرت قاری صاحب پر پڑی اور انہیں اپنی تمام تر نسبتوں کا امین قرار دیا۔
حضرت قاری صاحب نے بھی اپنے مرشد کی توقعات کا لحاظ رکھا اور تصوف وسلوک کے زمزمے بلند فرماتے رہے، سالکین وطالبین کے احوال وظروف اور ان کے حسبِ حال وظائف واوراد تجویز فرماتے۔ سلوک واحسان کے جواجزائے ترکیبی بیان کئے جاتے ہیں،یعنی قلتِ کلام، قلتِ طعام، قلت اختلاط مع الانام وغیرہ تقریباً یہی زاویے حضرت کی شخصیت سے عبارت تھے، بظاہر کم گو خاموش طبیعت اور عزلت نشین رہتے ،جس سے سمندر کی گہرائی اور صحراکا سکون ہویدا تھا، لیکن یہ خاموشی اپنے اندر بلاکی تاثیر سے مالامال تھی ، بقول شاعر ؎
نگاہ برق نہیں چہرہ آفتاب نہیں وہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں
بلکہ ان کی خاموشی ہی ان کی زبان تھی جو ان کے دل ودماغ کی ترجمانی کرتی تھی ، گویا یہ حال تھا    ؎
خموشی گفتگو ہے ،بے زبانی ہے زباں میری
ابھی چند روز پیشتر ہی دورانِ تدریس مشکوٰۃ شریف میں وہ روایت بھی نظر سے گذری جس میں کم گوئی اور بقدر ضرورت گفتگو کو ایمان کا حصہ قرار دیا ہے، چنانچہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ شرم وحیاء اور بہ ضرورت گفتگو ایمان کی دو شاخیں ہیں جبکہ فحش گوئی اور لا حاصل بکواس نفاق کی شاخیں ہیں ۔
حضرت کی مجالس کے حاضر باشوں کا بیان ہے کہ آپ بیان وتقریر کے آدمی نہ تھے بلکہ اپنے شیخ ومرشد کے ملفوظات ، ارشادات طیبات ، واقعات اور دلپذیر حکایات کے سننے سنانے پر ہی ارتکاز فرماتے تھے جس کے خوش گوار جھونکے طالب وسالک کے چمنِ روحانیت کو لہلہادیتے ، اسفار سے بھی متوحش ہی رہتے ، لیکن خانقاہ کے معمولات وکوائف کی پابندی بلا کی تھی جو بلاشبہ ہزار کرامتوں سے بڑھ کر ہے، بلا شبہ یقین ومعرفت کی روشنی پھیلانے والے اس گئے گذرے دور میںبے شمار لوگوں کا آسرا تھے ،اخفائے حال کے دستورِ مشائخ پر کاربند رہنے اور اپنی بے نفسی کے علی الرغم انہوں نے حضرت شاہ صاحب کے خمخانۂ معرفت کو اس طرح آباد رکھا کہ بہتوں کو تعجب بھی ہوا مگر انہوںنے تاڑلیا کہ ؎
ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں فقط یہ بات کہ پیرمغاں ہے مردِ خلیق
جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ میں آپ کے وصا ل پرملال کی اطلاع ملنے پر میرکارواں حضرت مفتی صاحب مدظلہم نے رنج وغم کا اظہار فرمایا اور زکریا مسجد میں ایصالِ ثواب کرکے دُعائے مغفرت بھی کرائی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفتی محمدساجدکھجناوری