Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, September 18, 2018

ماہراقبالیات پروفیسر عبد الحق ۔ایک ادبی تحریر

ایک ماہرِاقبالیات کوسننےکا تجربہ!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از نایاب حسن۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروفیسرعبدالحق صاحب ہندوستان بھرمیں اورباہربھی متفق علیہ ماہرِ اقبالیات سمجھے جاتے ہیں اوربجاطورپروہ ماہرِ اقبالیات ہیں بھی، گزشتہ کم ازکم پچاس سال سے وہ مسلسل اقبالیات پرلکھ اوربول رہے ہیں،دہلی یونیورسٹی کے شعبۂ اردوسے وابستہ رہتے ہوئے انھوں نے اقبالیات پربیس پی ایچ ڈیاں کروائی ہیں،اقبال، فکرِ اقبال اورسوانحِ اقبال کے مختلف پہلووں پرخودان کی معتدبہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں، اب بھی وہ رسمی ملازمتِ تدریس سے سبک دوشی کے بعداقبال اکیڈمی کے سرپرست کے طورپرفکرِ اقبال کی اشاعت وترویج میں مصروف ہیں اور ایک مجلہ ’’اقبال کاپیغام ‘‘کے نام سے نکال رہے ہیں ، میری بدقسمتی کہ گزشتہ چارسالوں سے دہلی میں قیام کے باوجوداب تک ان سے ملاقات؛ بلکہ دیدسے بھی محروم تھا،اتنے عرصے بعدکل انھیں دیکھنے اورسننے کی تقریب یوں ہوئی کہ اسلامک فقہ اکیڈمی، انڈیانے ’’علامہ محمداقبال کی تجدیدِفکرِ اسلامی کی جانب دعوت ‘‘کے موضوع پران کامحاضرہ رکھاتھا،موضوع کی اہمیت اورمحاضِرکے قدوقامت کی بلندی کو دیکھتے ہوئے اس محاضرے میں شرکت کاشوق ہوا،مجلس میں حاضری ہوئی، پروفیسرموصوف کامحاضرہ سنا،جواصل موضوع سے قطعی غیرمتعلق تھااوراس پرانھوں نے محض چند جملے کہے، البتہ موضوع سے ہٹ کربھی جوباتیں انھوں نے کہیں، ان میں نیاکچھ خاص نہیں تھا،فکروشعرِ اقبال کے حوالے سے انھوں نے وہی باتیں دہرائیں، جوعام طورپراس موضوع کی کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں،البتہ کچھ ایسی باتیں بھی انھوں نے کہیں، جن کی کم ازکم اقبالیات کے ماہر سے توقع نہیں کی جاسکتی،اقبال کو وہ عرصے سے اپنے فکر و مطالعہ اور تصنیف و تالیف کا موضوع بنائے ہوئے ہیں،سویقیناً اقبال اور اقبالیات کے تعلق سے ان کے اندر ایک قسم کے والہانہ پن کاپایاجانا کوئی عجیب بات نہیں ہے،مگریہ والہانہ پن اگر آج کی رائج ہندوستانی اصطلاح میں’’بھکتی‘‘کی شکل اختیار کرلے ،تویقیناً یہ فکر کی بات ہے اور اقبال،جو معقولیت پسندی کا بہت بڑا داعی تھا،اس کے افکار کا محقق انتہاپسندانہ عقیدت کا شکار ہو،یہ ایک المیہ ہی کہاجاسکتاہے۔
اس مجلس میں عبدالحق صاحب نے کئی ایسی باتیں کہیں،جن سے صریحا اختلاف کیاجاسکتاہے ،مثلاً یہ کہ کوئی شخص اقبال کے بغیر نہ تودین کا ماہر ہوسکتاہے اور نہ دنیاکا،نہ وہ عالم ہی ہوسکتا ہے اور نہ ہی دانشور،حتی کہ ان کا خیال یہ ہے کہ سماجی زندگی میں بھی اگر کوئی شخص واقعتاً کوئی مقام حاصل کرناچاہتایاسماج کی فلاح و بہبود کاکام کرنا چاہتاہے،تواسے بھی اقبال سے مفرنہیں ہے۔یہ بات توسچ ہے کہ اقبال فکری و ذہنی سطح پر ہماری جو رہنمائی کرتے ہیں،وہ ہر طبقے کے انسان کے لیے کارآمدہے اور انقلابِ ذہنی و عملی پیدا کرنے میں اقبال یقیناً مؤثرثابت ہوسکتے ہیں؛لیکن کیاحقیقتاً ایساہی ہے کہ اقبال کے بغیرعلم و دانش کاکوئی مرحلہ طے نہیں ہوتایا سماجی زندگی کی حرکیات کا اس کے بغیر تصورہی نہیں کیاجاسکتا؟کوئی ایراغیراانسان اس طرح کا دعویٰ کرے ،توبات دوسری ہوگی ؛لیکن ایک ماہر اقبالیات کایہ دعویٰ کرنا اور محض دعویٰ کرنا کیاکسی کو واقعی اقبالیات کی طرف متوجہ کر سکتاہے؟عبدالحق صاحب کایہ بھی دعویٰ ہے کہ ادھر دس صدیوں میں عالمِ اسلام میں اقبال جیساعظیم دانشور،مفکراور مسلمانوں کی ہمہ گیر رہنمائی کرنے والا پیدانہیں ہوا،اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اقبال اپنے دور کے عظیم مفکراور اسلامی امت کے مسائل سے آشنادانشور تھے؛لیکن کیاواقعی گزشتہ دس سو سال میں برصغیرہی نہیں،پوری اسلامی دنیامیں اقبال جیسا کوئی دوسراپیداہی نہیں ہوا؟
مجھے یہ سن کر حیرت ہوئی کہ عبدالحق صاحب کے علم کے مطابق اقبال سے علماکو وحشت ہے،حالاں کہ دوسری زمینی حقیقت یہ ہے کہ مدرسوں کے طلبہ تواقبال کے اشعارسن سن کر اور رٹ رٹ کر پلتے بڑھتے ہیں،مدرسے کے اساتذہ ہر مجلس میں اقبال کو سنتے سناتے ،جلسوں کی تقریروں میں اقبال کے جلوے ہوتے ،مدرسوں کی ہفتہ وارانجمنوں میں جو تقریریں کی جاتی ہیں،ان میں اپنی یاد داشت اور مطالعے کی روشنی میں ہر طالب علم اقبال کے اشعار پڑھتاہے۔اس سلسلے میں انھوں نے ایک دوواقعات بھی سنائے،مثلاً ایک مفتی صاحب کا واقعہ سنایاکہ انھوں نے ایک مجلس میں ان سے کہاکہ اِس وقت جو مسلمانوں پر مصیبت آئی ہوئی ہے،یہ سب اقبال کاکیادھراہے،اس واقعے کے ذکرکے بعد عبدالحق صاحب نے فرمایا’’میرا توجی چاہاکہ اس شخص کی گردن ماردوں‘‘۔اعظم گڑھ کے علاقے کے دودیگر مولاناؤں کاواقعہ سنایاکہ انھوں نے ان سے کہاکہ وہ اشعار، جواقبال نے مولانا حسین احمدمدنی کے بارے میں کہے تھے،کیاانھیں کلیاتِ اقبال سے حذف نہیں کیاجاسکتا؟اس پر ان کا ردِ عمل یہ تھاکہ ’’پھرآپ پورے کلامِ اقبال کوہی حذف کردیجیے،کیاضرورت ہے اقبال کو پڑھنے کی‘‘۔ان دونوں واقعات سے انھوں نے یہ توثابت کیاکہ علمااقبال سے کس قدر متوحش ہیں؛لیکن خود ان کا جو ردِعمل ہے،کیاایک ماہرِ اقبالیات سے اسی قسم کے ردِ عمل کی توقع کی جاسکتی ہے؟برصغیر کے موجودہ منظرنامے پر اقبال کے اثرات کس حد تک ہیں(مثبت یامنفی)یہ ایک خالص تحقیق کا موضوع ہے،ایک ماہرِ اقبالیات کی ذمے داری یہ ہے کہ اگر کسی کو یہ لگتاہے کہ اقبال اور کلامِ اقبال نے بر صغیر کے مسلمانوں کی حیاتیات و اجتماعیات پر منفی اثرڈالاہے،تووہ اپنے فہم و مطالعے کی روشنی میں اس سے متعلقہ پوائنٹس پر گفتگوکرے اور بتائے کہ کیوں کہ اس کی یہ بات درست نہیں ہے،گردن مارناتواندھ بھکتوں کاکام ہے،جہاں تک ارمغانِ حجاز کے اخیر میں مولانامدنی سے متعلق تین اشعار کے حذف کیے جانے کی بات ہے،تویہ بات تو پروفیسریوسف سلیم چشتی جیسے عظیم شارحِ اقبال کہہ چکے ہیں،انھوں نے ماہنامہ ،،میثاق‘‘لاہورکے فروری ۱۹۷۲ء کے شمارے میں شائع شدہ اپنے ایک مضمون میں مولانامدنی و علامہ اقبال کے مابین مسئلۂ قومیت پر ہونے والے مناقشے کی پوری روداد کا تذکرہ کیاہے،پھرلکھاہے کہ جب مولانامدنی نے اپنی بات کی وضاحت کی،توعلامہ مرحوم نے فرمایاکہ ’’اب مجھے مولاناحسین احمد صاحب پر اعتراض کا کوئی حق نہیں باقی نہیں رہتا‘‘،ان کا یہ رجوع نامہ روزنامہ’’احسان‘‘لاہورمیں ۲۸؍مارچ کوشائع ہوااور اس کے کچھ دنوں بعد ۲۱؍اپریل کوان کا انتقال ہوگیا،جبکہ ان کا آخری مجموعۂ کلام ارمغانِ حجاز کے نام سے نومبر۱۹۳۸ء کو شائع ہوا۔چشتی صاحب نے اپنے مضمون میں لکھاہے کہ’’اگر یہ مجموعہ ان کی زندگی میں شائع ہوتا،تومجھے یقین ہے کہ وہ ان تین اشعار کو حذف کردیتے یاحاشیے میں اس حقیقتِ حال کو واضح کردیتے کہ میں نے یہ اشعار غلط اخباری اطلاع کی بناپر لکھے تھے‘‘۔بہر کیف مذکورہ دونوں واقعات میں عبدالحق صاحب کا ردِ عمل ایک’’ماہرِ اقبالیات‘‘کا ردِ عمل ہرگزنہیں کہاجاسکتا۔
علماکے ذکر سے فوراً ان کا ذہن علماکے ایک مخصوص طبقے کی طرف منتقل ہوگیااور فرمایاکہ ’’قاسمی حضرات‘‘خاص طورپر اقبال سے بدظن ہیں یا انھیں نظر انداز کرتے ہیں،میرے خیال میں عبدالحق صاحب جیسے  "جید"اور "جلیل القدر"ماہرِ اقبالیات کا یہ کہنایاتوان کا بھولاپن ہے یا وہ اس حوالے سے قطعاً جہالت کا شکارہیں،اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا حسین احمد مدنی اور اقبال کے بیچ قومیت کے مسئلے پر جو مناقشہ یا مناظرہ ہوا،اس نے وقتی طورپر حامیانِ اقبال اور وابستگانِ مولانا مدنی دونوں طبقوں پر اثر کیا،مگر دوسری حقیقت یہ بھی ہے کہ عموماً بہ طورایک اسلامی شاعر اور مفکر کے عام مسلمان،علما اور دانش وران کی طرح دیوبند والوں نے بھی اقبال کوOwnکیا،مجھے اقبال کے تئیں قاسمیوں کی تنگ نظری کی بات عبدالحق صاحب سے سن کر بڑی حیرت ہوئی،ان کے بارے میں یہ بات پہلے بھی بعض احباب کی زبانی سن چکاتھا،مگر اب چوں کہ براہِ راست ان کی زبان سے سنی اور وہ بھی اُس پروگرام میں ،جسے قاسمیوں ہی کے ایک ادارے نے خالص اقبال سے مختص کیا تھا،توکچھ زیادہ ہی حیرت ہوئی۔ پروفیسر صاحب کواس کا علم ہی نہیں ہے کہ قاسمی برادری بھی دیگر طبقات کے مانند اقبال شناسی کے معاملے میں پیچھے نہیں ہے؛چنانچہ ایک واقعہ توخود انھوں نے سنایاکہ کہ مرکز جماعت اسلامی میں جب انھوں نے یہ بات کہی،تواسی مجلس میں ایک صاحب کھڑے ہوئے اور کہاکہ میں نے اقبال پر کام کیاہے اور میں قاسمی ہوں،اسی طرح کل والی مجلس میں بھی معہدالتخصص فی اللغۃ العربیہ کے استاذاور عربی زبان وادب کے رمزآشناعالم مولانا عبدالقادرخان صاحب نے ڈاکٹر خلیل الرحمن راز فاضل دیوبند کاذکرکیا،جنھوں نے اقبال پر عربی میں پی ایچ ڈی کی ہے،پھرانھوں نے اپنے بارے میں بتایاکہ وہ کس طرح درس گاہ میں طلبہ کے اندر جذبۂ عمل پیدا کرنے کے لیے کلامِ اقبال کا استعمال کرتے ہیں اور برجستہ ان کے کئی اشعار سنائے،ہم جب دیوبندمیں پڑھتے تھے، تو مولانانورعالم خلیل امینی خاص طورپر اقبال اوراقبالیات پرگفتگوفرماتے رہتے تھے ـ عبدالحق صاحب نے اقبال کے خطبات پر گفتگوکی اور اخیر میں فلسفۂ زمان و مکان کا بھی ذکر چھیڑا،مگر وہ اس تاریخی حقیقت کو گول کرگئے کہ اقبال نے اس سلسلے میں علامہ انور شاہ کشمیری سے استفادہ کیاتھا،اس کے علاوہ ختم نبوت اور قتل مرتدکے مسئلوں میں بھی انھوں نے علامہ کشمیری سے استفادہ کیاتھا،اس سلسلے میں قاضی افضل حق قرشی کی کتاب ’’اقبال کے ممدوح علما‘‘یقیناپروفیسرصاحب کی نظر سے گزری ہوگی۔اسی طرح مولاناسعید احمد اکبرآبادی،جو اپنے وقت کے ایک دانشور عالمِ دین تھے،انھوں نے ۱۹۲۸ء میں دیوبند سے تعلیم کی تکمیل کرنے کے بعد لاہوراوریئنٹل کالج سے بھی تعلیم حاصل کی،ان دنوں ان کا قیام لاہور میں ہی تھااور وہ موقع بہ موقع اقبال کی خدمت میں حاضری دیتے رہتے،اس دوران اقبال اپنے خطبات پر کام کررہے تھے،اکبرآبادی صاحب نے اپنے قیام لاہور کے زمانے میں متعددعربی مراجع تک رسائی اور ان کی تشریح میں اقبال کی مدد کی تھی۔اقبال کو عالم عربی میں متعارف کروانے کا سہرا ایک عالم دین مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی کے سرہے اور ان کی اس تصنیف کو اردوکے قالب میں ڈھالنے والے شمس تبریز خان صاحب فاضلِ دیوبند تھے۔اس کے علاوہ آج بھی متعددقومی و بین الاقوامی یونیورسٹیز سے دیوبند ہی نہیں،دیگر دینی اداروں کے فضلاوعلمااقبال پر خاصا کام کررہے ہیں ،خاص’’اقبالیات اور دیوبند‘‘پرایک صاحب تحقیق کررہے ہیں،جوایک ہزارسے زائد صفحات میں عنقریب شائع ہونے والی ہے۔
انھیں اس پر بڑی حیرت ہے کہ بہت سے علماجب اقبال کا ذکرآتاہے،تووہ ان کی ذاتی زندگی اور شخصیت کا ذکر چھیڑدیتے ہیں،حالاں کہ ذاتی طورپر ہم بھی ان کے پیغام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے پر زور دینازیادہ اہم سمجھتےہیں،مگر دوسری طرف یہ بھی ایک فطری بات ہے کہ جب جب کسی عظیم انسان پر بات ہوتی ہے،تواس کے افکار کے ساتھ اس کی شخصیت بھی لازماًزیر بحث آتی ہے اور آئے گی،یہی وجہ ہے کہ اسلام قول و عمل کی ہم آہنگی پر بے پناہ زور دیتاہے اور ان لوگوں کو پھٹکارتاہے،جو کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں،اللہ تبارک و تعالیٰ نے کتابوں کے ساتھ نبیوں کو بھی سلسلہ وار اس لیے مبعوث کیاکہ لوگوں تک صرف خداکا فرمان نہ پہنچے ؛بلکہ اس فرمان پر پورا اترنے والاایک انسانی ماڈل بھی ان کے سامنے موجود ہو؛تاکہ جوبات ان سے کہی جائے ،وہ ان کے دل دماغ میں بہ آسانی اتر سکے۔ پس اگر اقبال کے پیغام پر بحث و گفتگو کرتے ہوئے ان کی شخصیت اور ذاتی زندگی زیر بحث آتی ہے اوراس میں کچھ خامیاں پائی جاتی ہیں،تواس سے چراغ پا ہونے کی بجاے انھیں کھلے دل سے تسلیم کیجیے اورکہیے کہ ہم اقبال کی ان خامیوں سے براء ت کا اظہار کرتے ہیں اور صرف ان کے افکار و پیغام کی اشاعت چاہتے ہیں۔مجلس کے اختتام پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے استاذ مولانا اسامہ صدیقی نانوتوی یہی سوال کرنے کے لیے کھڑے ہوئے تھے کہ اقبال کے یہاں جوقول و عمل کابے پناہ تضاد پایاجاتاہے،اس کے ہوتے ہوئے یہ کہنا کہاں تک درست ہے کہ انھیں مرجعیتِ مطلقہ حاصل ہے اورہر شعبے سے وابستہ انسان کو کمال و سربلندی اور کامیابی تک پہنچنے کے لیے اقبال کو نمونہ بناناہوگا ،جامعہ ہی کے ایک دوسرے استاذکوثرمظہری صاحب نے اس کایہ جواب دیاکہ ہماراتواقبال سے کام چل رہاہے،آپ کاچلے توچلائیے ،ورنہ نظرانداز کیجیے ،جبکہ مجموعی طورپر نانوتوی صاحب کے اشکال کو سنجیدگی سے نہیں لیاگیا،وہ خود بھی اپنی بات اچھی طرح پیش نہیں کرسکے اور بعض مولویوں نے انھیں ہنگاموں میں اڑادیا۔اس سے جوبات سمجھ میں آتی ہے ،وہ یہ کہ آپ یہ تو چاہتے ہیں کہ اقبال کوانسانی زندگی کے ہر شعبے میں لائقِ تقلید ثابت کریں،مگرجب بات ان کی شخصیت اور زندگی کے بعض ان کمزورپہلووں کی آتی ہے،جوناقابلِ انکار ہیں،توپھربغلیں جھانکتے یا انہی لوگوں کو نکّوبنانے لگتے ہیں،جو ایسا سوال اٹھانے کی جرأت کرتے ہیں۔
بہر کیف پروفیسر عبدالحق صاحب کی پون گھنٹے سے زائد کی تقریر انہی غیر متعلق باتوں میں الجھی رہی،بہ طور ماہراقبالیات قطعی غیرمتاثرکن ،محض بلند بانگ دعووں سے مملوتقریر!
ان کے بعد ڈاکٹرتوقیر احمدخان صاحب سابق صدرشعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی کو دعوت دی گئی ،انھوں نے اپنے استاذپروفیسرعبدالحق صاحب کی عظمت کو تسلیم کرتے ہوئے اس پر حیرت اور دکھ کا اظہار کیاکہ پوری تقریرموضوع سے بھٹکی ہوئی تھی،پھر انھوں نے اپناصدارتی خطبہ پیش کیا،جومجلس کے موضوع سے متعلق تھا،انھوں نے اپنے خطاب میں فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید کے سلسلے میں اقبال کے غیر معمولی اہتمام اور فکر مندی کی طرف اشارہ کیا اور انھوں نے اپنے کلام میں مسلمانوں کو جن اہم اوصاف سے متصف ہونے کی دعوت دی ہے مثلاً یقین،خود شناسی،صبر و ضبط،جہدِ پیہم اور قرآن و سنت کو مضبوطی سے تھامنا،ان کی مختصرتشریح فرمائی۔ان کا یہ خطاب بہت مختصر،مگر پہلے خطاب کے مقابلے میں موضوع سے متعلق،مربوط،نتیجہ خیز،مدلل،معقول و شستہ تھا۔۔