Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, October 28, 2018

اب غبارے بھی نہ بیچنا۔ہندوستان کے موجودہ حالات کی عکاسی کرتی ایک تحریر۔۔۔پورا ضرور پڑھیں۔

تحریر/ ایم ودود ساجد۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اتر پردیش کے شہر متھرا میں چلنے والے "بھارت ملاپ میلہ" میں LIU یعنی مقامی انٹلی جنس کی یونٹ اُن غباروں کو تلاش کرتی پھر رہی ہے جن پر انگریزی میں "آئی لو پاکستان" لکھا ہوا ہے۔۔۔

انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس کی ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق کسی نے میلہ کے میدان سے ہی پولس کو فون کرکے اطلاع دی کہ ایک شخص "آئی لو پاکستان" لکھے ہوئے غبارے بیچ رہا ہے۔۔۔

پولس اور انٹلی جنس کے اہلکار اس شخص(عبدالستار) کو پکڑلائے اور اس کے 99 غباروں والے پیکٹ میں بند ایک ایک غبارے کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔۔۔مگر ایسا غبارہ نہیں ملا۔۔ایک اہلکار نے Made in China لکھا دیکھ کر اپنے سینئر افسر سے کہا کہ سر چین تو مختلف ملکوں کے لئے ایسی چیزیں بناتا ہے۔۔۔ہوسکتا ہے کہ غلطی سے پاکستان کے لئے بنایا گیا کوئی غبارہ ہندوستان کے غباروں کی لاٹ میں آگیا ہو۔۔۔مگر سینئر افسر یہ ماننے کو تیار نہ ہوا اور کسی بڑی سازش کی بو سونگھتا رہا۔۔۔پولس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ تقریباَ تمام غباروں پر۔۔۔۔۔۔۔

                       "Happy birth day to you"

لکھا ہوا تھا۔۔یہ اہلکار حیرت میں ہے کہ عبدالستار کو انہوں نے کیوں گھیرا۔۔۔وہ غبارہ کہاں گیا کسی کو کچھ معلوم نہیں ۔۔۔کس نے دیکھا۔۔۔نہیں معلوم۔۔۔۔

پتہ چلا کہ عبدالستار متھرا میں کوتوالی روڈ پر واقع بھگوان داس کی دوکان سے غبارے خریدتا ہے۔۔۔بھگوان داس کی دوکان کی انٹلیجنس اہلکاروں نے سرسری سی تلاشی لی اور بس۔۔۔بھگوان داس نے کہہ دیا کہ عبدالستار اس کے یہاں سے غبارے ضرور خریدتا ہے مگر یہ والے غبارے اس نے ضرور کہیں اور سے خریدے ہوں گے۔۔۔خود بھگوان داس دہلی کے صدر بازار سے خریدتا ہے۔۔۔اور دہلی کے صدر بازار تک یہ غبارے ممبئی کے ایک تاجر کے یہاں سے آتے ہیں ۔۔۔

متھرا کے ایس پی ببلو کمار صاحب فرماتے ہیں کہ اس سازش کی تحقیقات کی جارہی ہیں ۔۔۔تازہ اطلاع یہ ہے کہ عبدالستار کے پاس سے ایسا ایک بھی غبارہ نہ ملنے کے باوجود اسے اور اس کی 22 سالہ بیوی کو پولس لے گئی ہے۔۔۔دونوں کی شادی 2016 میں ہوئی تھی۔۔۔عبدالستار غبارے بیچ کر 200 روپیہ یومیہ کمالیتا تھا۔۔۔اس کی بیوی نے پولس سے کہا کہ وہ نہ لکھ سکتا ہے اور نہ پڑھ سکتا ہے۔۔۔وہ صرف غباروں میں ہوا بھرتا ہے اور انہیں بیچ دیتا ہے۔۔۔لیکن پولس تو پولس ہے۔۔۔

کیا کسی نے 26 مئی 2014  کے بعد سے رونما ہونے والے مختلف النوع واقعات کی ایسی کوئی فہرست مرتب کی ہے جن میں مختلف بہانوں سے مسلمانوں کو ہراساں کیا گیا ہو۔۔۔؟ شاید ہمارے قائدین نے اب ایسی فہرستیں بنانے کا کام ترک کردیا ہے۔۔۔یا فہرستیں ضرور بن رہی ہوں گی مگر اب انہیں ہندوستان میں عام نہیں کیا جارہا ہے۔۔۔یا شاید ایسی فہرستیں اب کسی نہیں کام آرہی ہیں ۔۔۔۔معلوم نہیں میرے کانوں میں یہ کون گنگنا رہا ہے کہ چونکہ دہشت گردی کے الزام میں اب کوئی ماخوذ نہیں ہورہا ہے لہذا اُن کی دوکانیں بند ہوگئی ہیں ۔۔۔اب جس قسم کی سرکاری دہشت گردی جاری ہے اس پر کوئی آمدنی ہونے کا امکان نہیں ہے۔۔۔۔اس میں تو بس رفتہ رفتہ' گھٹ گھٹ کر مسلمانوں کے اجڑنے کا سامان ہے۔۔۔

دہلی میں قتل ہونے والے معصوم طالب علم محمد عظیم کی لاش سے بہنے والا خون دہلی کی سوگوار فضا میں ابھی خشک نہیں ہوا ہے۔۔۔لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے قائدین کا خون خشک ہوگیا ہے۔۔۔دل پتھر ہوگیا ہے ۔۔۔۔آنکھیں بینائی سے محروم ہوگئی ہیں اور زبانیں گنگ ہوگئی ہیں ۔۔۔۔صم بکم عمی فہم لایرجعون۔۔۔۔۔

جب اللہ کی کتاب کا علم حاصل کرنے والے عظیم کے لرزہ خیز قتل پر اُن کی جان اور روح پر کوئی لرزہ طاری نہیں ہوا تو متھرا کے جاہل عبدالستار پر آنے والی افتاد انہیں کیونکر بیدار کرے گی۔۔۔۔آخر یہ جاہل غبارے ہی کیوں بیچ رہا تھا۔۔۔۔؟ خبردار اب غبارے مت بیچنا۔۔۔۔یہاں غبارے بیچنا منع ہے۔۔۔بھگوان داس کے لئے نہیں ۔۔۔دہلی کے صدر بازار والوں کے بھی نہیں ۔۔۔ممبئی کے تاجر کے لئے بھی نہیں ۔۔۔صرف عبدالستار کے لئے ۔۔۔۔اور ہاں اب غبارے خریدنا بھی مت۔۔۔اپنے چھوٹے بچوں کو کسی اور طرح بہلا لینا۔۔۔غبارہ خرید کر مت دینا۔۔معلوم نہیں آپ کے بچہ کے غبارہ کیا لکھا ہوا نکل آئے۔۔۔۔