Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, October 18, 2018

ترنم خان اور ڈاکٹر نوہیرا شیخ۔

ترنم خان اورڈاکٹرنوہیرہ شیخ! 
تحریر/عمر فراہی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .  
مجھےیاد نہیں  آرہا ہے کہ وہ  یاسمین تھی ، فرح تھی  یا ترنم یا کچھ اور لیکن اتنا یاد ہے کہ  وہ ایک کانونٹ کی تعلیم یافتہ خوبصورت بارگرل مسلمان لڑکی تھی۔ یہاں پر ہمارے لیئے شرم کی بات یہ ہے  کہ  وہ مسلمان تھی اور ہائی پروفائل   کلاس کی طوائف تھی۔اس  کیلئے  اپنے گراہکوں کو خوش کرنے سے پہلے لاکھ سوا لاکھ کی خریداری کروانا اس کے معاہدے میں  شامل تھا  ۔کچھ  دس سال پہلے پولیس نے جب کچھ بار مالکوں اور بلڈر مافیاؤں کے ساتھ اسے بھی کسی  فراڈ کیس میں  ورسوا ممبئی کے مہاڈا سوسائیٹی کے بنگلے سے  گرفتار کیا تو وہ پوری طرح نقاب میں تھی ۔عدالت میں پیش ہونے  سے لیکر  آرتھر روڈ جیل تک میڈیا کے کیمرہ مین اس کی  ایک بھی کھلی تصویر نہیں لے  سکے  ۔ہمیں ترنم خاں سے کوئی شکایت نہیں, یہ اس کا ذاتی فعل تھا ۔ہمیں دعوت  و تبلیغ میں مصروف بھائی بہنوں سے بھی شکایت نہیں کہ انہوں نے ترنم کو اس گندگی سے باہر نکالنے کی کوشش کیوں نہیں کی  ۔س۔ سواسو کروڑ کی آبادی  والے ملک  میں جہاں غربت اور جہالت عام  ہو صرف  دعوت و تبلیغ اور  تعلیم سے بھی اصلاح ممکن نہیں۔شاید  اسی  لیے  ہمارے ملک میں بے شمار مسلم لڑکیاں اور لڑکے آج بھی نہ  صرف بیئر باروں حقہ پارلروں اور  کارپوریٹ  سیکٹر میں اسلام اور مسلمانوں کی نمائندگی کررہے ہیں بقول ہمارے کچھ غیر مسلم دوست ,یہ  ملک کیلئے اچھا شگون ہے کہ  اب مسلمانوں کی نئی نسل تیزی کے ساتھ قومی دھارے میں شامل ہورہی ہے!
۔جناح کے دو قومی نظریے کی مخالفت, قومی یکجہتی  اور  سیکولرزم کا اس سے خوبصورت اور بہترین  مظاہرہ اور  کیا ہوسکتا ہے کہ فحاشی اور  بدعنوانی  میں جہاں ایم  جے اکبر, ساجد خان اور  نوہیرہ شیخ جیسے مسلمان  چہرے بھی کثرت  کے ساتھ سامنے آرہے ہیں مسلم لڑکیاں غیر مسلم  لڑکوں کے ساتھ اور مسلم لڑکے بھی غیر  مسلم لڑکیوں کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہورہے ہیں !؟
کچھ مسلمانوں کو تشویش ہے کہ  مسلم لڑکیاں غیر  مسلم لڑکوں سے  شادی کر  کے ارتداد کی طرف مائل ہیں ۔انہیں شک  ہے کہ  ایسا ہندو تنظیموں کی طرف سے سازش کے تحت  ہورہاہے۔ایسا ہوبھی سکتا ہے لیکن انہیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ مرحوم ڈاکٹر رفیق سے  لیکر سلمان خورشید, نواب خان علی  پٹودی, ایم جے اکبر ,شاہنواز  حسین اور مختار عباس  نقوی کی بیویاں غیر مسلم ہیں۔اگر واقعی ہندو تنظیمیں اپنی سازش میں سنجیدہ اور مخلص ہوتیں تو اشوک  سنگھل ,مرلی منوہر جوشی ,ِسبرامنیم  کی بیٹی ,پروین توگڑیا کی بہن  اور پھر اڈوانی جی اور بالا صاحب ٹھاکرے کی بھتیجی مسلم  خاندان میں بیاہ  کر نہ آتیں ۔اس کے بعد  فلم انڈسٹری  میں سلیم  خان, شاہ رخ خان ,سیف علی خان ,عامرخان, اربازخان اور اگر سلمان خان کا  پیار ایشوریہ رائے سے کامیاب ہوجاتا  تو خان صاحبان کے اس" لوجہاد"  کو کیا نام دیا جائے ؟
خیر ہم  بات کررہے  تھے کہ  ترنم خان کون تھی اور کیوں گرفتار ہوئی ,آجکل ایک دوسری تاجر پیشہ خاتون  ڈاکٹر  نوہیرہ شیخ کی گرفتاری کا چرچا  ہے ,ترنم خان بھی تعلیم یافتہ  تھی نوہیرہ شیخ بھی تعلیم یافتہ ہیں ۔ دونوں دوشیزاؤں نے اپنی فحاشی اور بدعنوانی کیلئے مسلمانوں کے شعار حجاب کا استعمال کیا۔ویسے فحاشی  کی  صنعت میں اکثر لڑکیاں میڈیا کے سامنے  اپنی شناخت کو چھپانے کیلئے پردے کا استعمال کرہی لیتی ہیں ۔ترنم خان کیلئے پردہ صرف اپنے گناہ کو چھپانے کا ایک ہتھیار تھا لیکن نوہیرہ شیخ کی تعلیم تو مدرسے سے ہوئی ہے۔انھوں  نے شروع میں جب ہیرا گولڈ کا افتتاح  کیا تو ان کا چہرہ پوری طرح  ڈھکا  تھا۔چہرے  پر سے پردہ ہٹانے کی اس وقت ضرورت  محسوس ہوئی جب وہ بےشمار دولت کی مالک بنیں اور ان کے  دل میں بے ایمانی کی نیت  پیدا ہوئی۔اپنی اس دولت اور شہرت کو بچانے کیلئے محترمہ کو  سیاست کے سہارے کی ضرورت ہوئی۔یہاں لوگوں سے خطاب کرنے اور  مختلف  سیاستدانوں  سے اثرو رسوخ بڑھانے کیلئے انہیں اپنے خوبصورت  چہرے کی نمائش بھی  لازمی تھی۔   ہمیں  ترنم خان اور نوہیرہ شیخ کے پردے اور پیشےسے کوئی مطلب نہیں ۔دونوں کا جرم کراہیت اور غیر اخلاقی  دائرے میں بھی  آتا ہے  لیکن اب تو فحاشی اور  بدعنوانی بھی ہماری سیکولر اور لبرل  سیاست  کا  ایک فیش بن چکا  ہے ۔ممکن ہے جس طرح فحاشی کو قانونی تحفظ حاصل ہوچکا ہے بدعنوانی کو بھی قانونی اختیار  حاصل ہوجائے  ۔راجیو گاندھی نے ایک بار کہا بھی تھا کہ 
Cruption is the phenomena of our society and it can never  be eliminated ..

موجودہ فحش  لبرل  طرز سیاست  میں ایسا یقیناً ہونا ہے اس  کا  انکشاف بیسویں صدی کے ابن تیمیہ  نے بھی اپنی کتاب " تحریک آزادی ہند اور مسلمان " میں آزادی سے پہلے ہی کردیا تھا ۔اب جب کہ بے شمار غیر  مسلم چہرے اس بدعنوانی اور فحاشی کے کاروبار سے ترقی کرسکتے ہیں تو مسلمان کیوں نہیں ؟
شکایت ہے تو اس حجاب سے جو مومنہ عورت کیلئے خاص ہے ۔ترنم خان کا گناہ اتنا شدید نہیں ہے جتنا بڑا جرم نوہیرہ شیخ نے نہ صرف حجاب کا استعمال کرکے کیا ہے۔ اس کی شناخت ایک مدرسے کی طالبہ اور عالمہ سے ہوتی ہے ۔ترنم خان نے اپنی عزت کو بیچا اس گناہ کی جوابدہ وہ خود ہے لیکن نوہیرہ شیخ  نے اسلام کے دینی شعار یعنی حجاب ,حلال  ,عالمانہ  شناخت اور مولیوں کی حمایت سے ایک ایسے گناہ عظیم کا ارتکاب  کیا ہے جس کی وجہ سے مسلمان تاجروں پر سے  نہ صرف پوری مسلمان قوم کا ,بلکہ غیر مسلموں کا اعتبار بھی مجروح  ہوا ہے ۔ایک ایسی کمزور اور مظلوم قوم جو پہلے ہی اپنا اعتبار کھو چکی ہے نوہیرہ کے کردار نے پوری مسلم قوم پر داغ لگایا ہے  ۔مسلمانوں کے ساتھ اتنا بڑا دھوکہ کرنے سے پہلے اس  نے یہ بھی نہیں سوچا کہ کتنے غریب بے  روزگار لڑکیوں کے والدین ,بیوہ عورتیں  اور  گھروں میں کام کرنے والی مزدور عورتوں نے بھی یہ پیسہ اس کے کاروبار  میں لگا دیا تھا تاکہ اس رقم کے منافع سے وہ  اپنی بچیوں کے جہیز کا انتظام کرسکیں ۔اس میں کچھ سرمایہ دار  بھی ہیں  لیکن میں کچھ ایسے لوگوں کو  جانتا ہوں جنھوں نے زیادہ منافع کی لالچ   میں اپنے  مکان بیچ کر بھی اس کمپنی میں پیسہ لگایا ہے ۔نوہیرہ شیخ ممکن  ہےکہ تم کو مہنگے وکیلوں کی وکالت کے خرچ سے ضمانت بھی مل جائے لیکن  یاد رہے کہ بے شمار غریب  بچیوں کی آہ کے ساتھ تم  زیادہ دنوں تک خوش نہیں رہ سکتی  ۔اف تم نے یہ بھی نہیں سوچا کہ تمہیں  بھی کسی  ماں نے جنا ہے اور تم   بھی ایک عورت اور کسی کی بیٹی ہو ۔تمکو ہوسکتا ہے کچھ فرق نہ پڑتا ہو لیکن دنیا یہی کہہ رہی کہ  تمہاری تربیت کس اچھی ماں کی گود میں نہیں  ہوئی تھی !
اگر  تم سمجھو تو یہ بھی تمہیں  ماں کی  گالی  دینے کے مترادف ہے !
اب ہم  یہ بھی سوچنے پر مجبور ہیں  کہ ڈاکٹر نوہیرہ شیخ کا  کردار زیادہ گھناؤنا ہے یا ترنم خان کا۔۔۔۔!!؟
ہم یہ بھی سوچ رہےہیں کہ کیا یہی سرسید کا خواب تھا کہ مسلمان تعلیم یافتہ ہوکر بدعنوانی اور لو جہاد تحریک
کا حصہ بنیں ؟
یا پھر  ابولکلام آزاد نے  جس قومی یکجہتی کا تصور پیش کیا تھا یہی اس کی تصویر ہے ؟؟؟؟
بشکریہ۔
عمر  فراہی۔