(کارزار/ انور غازی)
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
”فرانس اور جرمنی یونین بناسکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں بناسکتے۔“یہ الفاظ وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب کے ہیں جو انہوں نے کرتارپور راہداری کا سنگ بنیاد رکھنے کے موقع پر کہے۔وزیر اعظم صاحب کی بات درست ہے۔یادش بخیر!1984ءمیںفرانس کے صدر ”فرانکوس متراں“ اور جرمن کے چانسلر ”ہلمٹ کوہل“ دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ایک میدان کی جانب رواں دواں تھے۔ دونوں صدر انتہائی خوشگوار موڈ میں تھے۔ وہ جس میدان کی طرف گامزن تھے اس کا نام ”وردن“ میدان تھا۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں پہلی جنگ عظیم کے دوران جرمن اور فرانسیسی افواج کے مابین تاریخ کی خوفناک خونیں جنگ ہوئی تھی۔ اس میں 10 لاکھ سے زائد فرانسیسی اور جرمن مارے گئے۔ تقریباً اتنے ہی زخمی اور معذور ہوئے تھے۔ میدانِ وردن ہی میں ایک جگہ ہے جہاں پر ڈیڑھ لاکھ کے قریب فرانسیسی اور جرمن فوجیوں کی باقیات اور ہڈیاں ایک گڑھے میں دفن ہیں۔ دونوں ملکوں کے رہنما وہاں پہنچے۔
ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ ایک بار پھر بڑی گرمجوشی سے ہاتھ ملایا۔ اگرچہ ان کی آنکھوں میں آنسو نہیں تھے، لیکن تری صاف طورپر محسوس کی جاسکتی تھی۔ دونوں صدور نے سفارتی انداز میں علیک سلیک کے بعد حلف اُٹھایا کہ آیندہ فرانس اور جرمنی کبھی جنگ نہیں کریں گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ وہ اپنے وعدے کے پکے اور سچے نکلے۔ وہ دن ہے اور آج ان دونوں ملکوں میں کبھی خون ریز جنگ نہیں ہوئی۔ ایک دوسرے کے لہو کے دشمن، خون کا رشتہ نہ ہونے کے باوجود نہ صرف بھائی بھائی بن گئے بلکہ باہمی تعاون واشتراک کا سلسلہ آج بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سرحدوں پر فوجی چوکیاں تک نظر نہیں آتیں۔ اس معاہدے کے بعد دونوں ملک اپنے اپنے کے عوام کی حالت بہتر بنانے، نقصانات کا ازالہ کرنے اور ملکی معیشت کی ترقی اور قوم کی تعمیر کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لارہے ہیں۔ ماضی کے ساتھ چمٹے رہنا، اسے یاد کرنا اور انتقام انتقام کے نعرے لگانے سے کبھی ملک وقوم ترقی نہیں کرتے۔
اس کی مثالیں قدیم تاریخ سے بھی ملتی ہیں۔آغازِ اسلام میں کفار مکہ اور مشرکین نے آقائے دوجہاں ﷺاور ان کے ساتھیوں کو بے پناہ تکلیفیں دیں۔ انہیں ملک بدر کیا۔ شعب ابی طالب میں محصور کردیا۔ غزوہ¿ بدر سے احد تک اور معرکہ خیبر سے خندق تک بیسیوں جنگیں لڑی گئیں۔ 13 سال بعد جب آپ ﷺاور آپ کے ساتھیوں کو غلبہ ملا تو ایک فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل نہیں ہوئے، بلکہ ان کے سر سے تشکر سے جھکے ہوئے تھے۔ انہوں نے بدلہ نہیں لیا، بلکہ معاف کردیا۔ کہا گیا جو شخص ہتھیار پھینک دے، ابوسفیان کے گھر پناہ لے یا پھر اپنے ہی گھر میں پُرامن رہے، ان کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ ہندہ جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ کا کلیجہ چبایا تھا اور وحشی جس نے انہیں قتل کیا تھا جب آپ ﷺکے پاس آئے تو آپ نے درگزر فرمایا۔ طائف میں جن لوگوں نے پتھر مارمار کر لہولہان کردیا تھا آپ ﷺنے ان سے بھی درگزر کیا۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کچھ ہی عرصے کے بعد سب بھائی بھائی بن گئے۔ دشمنی دوستی میں بدل گئی۔ سچائی کا پیغام جزیرة العرب سے نکل کر اس وقت کی سپر طاقتوں فارس اور روم تک پہنچنے لگا۔ 10 سال کے اندر اندر پوری دنیا میں اسلام کا ڈنکا بجنے لگا۔ مدینہ کی ریاست وجود میں آئی۔ معیشت وتجارت ترقی کرنے لگی۔ غریبوں اور محروموں کے غم دکھ دور ہونے لگے۔ عدل وانصاف کا بول بالا ہوا۔ محمود وایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہونے لگے۔ شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پینے لگے۔ جنہوں نے اس سچے دعوت کو قبول نہیں کیا، ان کے ساتھ بھی رواداری کا سلوک کیا جانے لگا۔ یہودی جنہیں کبھی دنیا میں سکون سے نہیں رہنے دیا گیا تھا، مسلمانوں کی خلافت میں پُرسکون زندگی بسر کرنے لگے۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ممکن ہوا کہ معافی، صلح صفائی، ماضی کو بھول کر افہام وتفہیم سے کچھ لو او رکچھ دو کی پالیسی پر عمل کیا گیا ہے۔ انتقام اور سابقہ دشمنی کو برقرار رکھنے کے جذبات ختم کردیے گئے تھے۔ اس سے قبل چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی جھگڑے شروع ہوتے تھے جو کئی کئی سو سال اور پانچ پانچ، دس دس نسلوں تک جاری رہتے تھے۔ مرنے والا وصیت کرجاتا تھا میرا خون معاف نہ کرنا اور بدلہ بہرصورت لینا اور پھر یہ سلسلہ دونوں طرف سے صدیوں تک چلتا رہتا۔ ایک قبیلہ اور خاندان دوسرے قبیلے اور خاندان سے اس وقت تک لڑائی جاری رکھتا جب تک انتقام نہ لے لیا جاتا، مرجاتا یا ماردیتا۔ جس ملک وقوم نے ماضی کو بھول کر آگے کی طرف دیکھا وہ ترقی کرگیا اور جو ماضی سے چمٹا رہا وہ پیچھے ہی چلا گیا۔
کیا ایسا ممکن نہیں جس طرح 1984ءمیں فرانس اور جرمنی کے رہنماﺅں نے مل کر فیصلہ کیا تھا ماضی میں جو ہوا، سو ہوا۔ گزشتہ ایام کو بھول کر مستقبل کی طرف دیکھنا چاہیے۔ فریقین نے آیندہ جنگیں نہ کرنے کی قسمیں اُٹھائیں اور پھر اس پر نیک نیتی اور سختی سے عمل کیا۔ کیا اسی اچھی روایت پر عمل پیرا ہوکرمسئلہ کشمیرکو حل کریں۔ یہ مسئلہ 1948ءسے چلا آرہا ہے۔ برصغیر کی تقسیم سے پہلے کشمیر ایشیا کا دل کہلاتا تھا۔ کشمیر خودمختار ریاست تھی۔ 1947ءکے بعد اس کی بندر بانٹ کردی گئی۔ کشمیر کا رقبہ 84 ہزار 4 سو 71 مربع میل ہے۔ اس کی کل آبادی تقریباً ایک کروڑ 70 لاکھ سے اوپر ہے۔ آج چار حصوں میں تقسیم ہے۔ سب سے بڑے حصے پر بھارت نے قبضہ کیا ہوا ہے جو تقریباً 41 ہزار 8 سو 97 مربع میل ہے۔ دوسرا حصہ پاکستان کے ساتھ ہے، جو تقریباً 32 ہزار 90 مربع میل ہے۔ یہ حصہ مزید دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ گلگت بلتستان جو 27 ہزار 9 سو 46 مربع میل پر محیط ہے۔ دوسرا آزاد کشمیر ہے جو چار ہزار ایک سو 44 مربع میل پر واقع ہے۔ کشمیر کا چوتھا حصہ چین کے قبضے میں ہے جو 9 ہزار 8 سو 84 مربع میل پر محیط ہے۔ اگر کشمیر کو دیکھا جائے تو یہ دنیا کے 15 آزاد ممالک سے بڑا ہے۔ ریاست جموں کشمیر آبادی کے اعتبار سے دنیا کے 133 ممالک سے بڑا ہے۔ وسائل کے اعتبار سے کشمیر کا شمار دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے۔
اگر ان کے پاس کچھ نہیں ہے تو وہ آزادی ہے۔ ایک بار پھر کشمیر کی تحریک زوروں پر ہے۔ اب تک اس تحریک میں 92 ہزار سے اوپر لوگوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں۔ 32 ہزار خواتین کی عصمت دری کی گئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت بہت تیزی سے ہر میدان میں ترقی کررہا ہے لیکن اس کی جارحانہ پالیسیوں اور استعماری عزائم کی وجہ سے یہ سب کچھ خاک میں مل جائے گا اگر اس نے اپنی حرکتوں پر نظر ثانی نہ کی اور اپنی تخریبی کارروائیوں سے باز نہ آیا۔ بھارت اور پاکستان کے مابین تین خونیں جنگیں اسی تنازع پر ہوچکی ہیں۔ اقوام متحدہ سمیت عالمی ٹھیکیداروں نے اس کے حل میں کوئی کردار ادا نہیں کیا بلکہ وہ بھارتی حکومت کی خواہش پر چلے۔ دوسری طرف پاکستان تیار ہے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر میں رائے شماری کرالی جائے، لیکن بھارت، امریکا اور دیگر طاقتیں نہیں چاہتیں یہ مسئلہ حل ہوجائے اور کشمیری عوام کی رائے کے مطابق وہ پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان اور بھارت باہمی مل کر اپنے جھگڑوں کا دیرپا اور مستقل حل ڈھونڈیں اور پھر اس کے بعد دونوں ملکوں میں اسی قسم کے تعلقات ہونے چاہیے جس طرح ”امریکا وکینیڈا“ اور ”جرمنی وفرانس“ کے مابین ہیں۔کیا یہ دونوں ملک کسی پرامن سمجھوتے پر متفق نہیں ہوسکتے؟ کاش یہ دونوں ملک بھی اچھے ہمسائے بن جائیں تاکہ عوام سکھ اور چین کا سانس لیں۔
صدائے وقت۔