قیس احمد قیس کی تحریر۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
نیلگوں فضا میں ساڑھے چھ سو فٹ کی بلندی پر ہوا سے باتیں کرتا ہوا میرا وجود،
تاحد نگاہ اونچے پہاڑ اور پہاڑ کے عقب میں بستیاں،
ہرے بھرے درختوں کی لچکتی ہوئی ٹہنیاں،
باد نسیم کے جھونکے اور آبشار کی خوبصورت آواز،
میرے لئے یہ ایک کتابی سماں تھا
یا جیسے کسی پردے پر فلم چل رہی ہو ــ
پہاڑوں پر اُگے درختوں کے درمیان سے چھن کر آتی ہوئی سورج کی کرنیں
اچھلتے کودتے جانور
چہچہاتے ہوئے پرند،
آبشار کی خوبصورت آواز میری روح کو سرشار اور نظر کو خیرہ کر رہی تھی ۔۔
اور میں کھڑا پہاڑ کی چوٹی پر کبھی اسکی اونچائی تو کبھی اسکی چوڑائی پر غور کرتا اور خدا کی خلقت پر حیران ہوتا،
لکھنو سے تقریبا 400 کلو میٹر کے فاصلے پر برف پوش پہاڑوں اور فلک بوس چوٹیوں میں بسی سطحِ زمین سے ساڑھے چھ سو فٹ بلند اور 300 کلو میٹر کے رقبے پر محیط ہندوستان کی وہ خوبصورت اور جنت نظیر وادی جسے نینی تال کے نام سے جانا جاتا ہے ،
اس وادی میں کم و بیش نو جھیلیں ہیں ، ویسے تو اس وادی کا چپہ چپہ دلکش اور قدرت کے حسین نظاروں سے مالا مال ہے ، لیکن جھیل کا خوش نما منظر اس وادی کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیتا ہے ، اسی وجہ سے اس جھیل کا شمار دنیا کی چند سحر انگیز جھیلوں میں ہوتا ہے ،
جھیل کا منظر واقعی خوشنما اور دلفریب منظر ہے ، ارد گرد بلند و بالا پہاڑ اور جھیل کے پانی پر پڑتا عکس ایک دلکش منظر آنکھوں کو عطا کرتا ہے ، اور اس کے آغوش میں بے شمار تیرتی ہوئی کشتیاں ایک ایسے منظر کو پیش کرتی ہیں کہ جس پر نگاہ ڈالتے ہی آنکھ محو حیرت، زبان ساکت، پلکیں جامد اور وقت تھم سا جائے ،
ایک ایسی جھیل جس پر پہلی نگاہ انسانی عقل کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے ، قدرت کی کاریگری کا یہ ایک بہترین مظہر ہے ،
وادی نینیتال کی دلکشی پر یہ جھیل ایک ایسا سنہرا تاج ہے جو آپ کو بار بار یہاں آنے پر اکساتا رہے گا ۔۔۔۔۔۔۔
پہاڑوں کے درمیان سے چٹانوں کو تراش کر بنائی گئی سڑکیں ایک عجیب اور پرکشش منظر پیش کررہی تھیں ،
ایک طرف کھائی تو دوسری طرف اونچے اونچے پہاڑ کے راستوں سے گزرتی ہوئی تیز رفتار گاڑیوں کو دیکھ کر میں حیرت میں پڑا ہوا تھا،
گویا یہ سڑکیں ہی دل لبھانے کو کافی ہوں،
صبح کی کرنیں جب پہاڑوں کے درمیان سے اک لمبے وقفے کے بعد نمودار ہوتیں تو
ایسا لگتا کہ نئ نویلی دلہن سرخ جوڑے میں آہستہ آہستہ اپنے قدم کو اک اجنبی گھر کی جانب بڑھا رہی ہو ۔
دوپہر کی دھوپ جب پہاڑوں کی سخت ترین چٹانوں سے ٹکراتی تو آنکھیں چکا چوند ہو جاتیں ــ
جب شام تاریکی کی چادر اوڑھنے لگتی اور سورج اپنے پیچھے ایک چاند اور چند ٹمٹاتے ستارے چھوڑ جاتا تو محسوس ہوتا کہ دنیا کی ساری مصنوعی خوشنمائیاں نظروں سے اوجھل ہو گئیں ہو
گر کچھ ہے تو برقی روشنیوں کے کنول جو آسمان پر جلوہ نما ہیں
۔______________بشکریہ۔۔۔
قیس احمدقیس
متفرق
Tuesday, December 4, 2018
نینی تال کے چند خوبصورت مناظر۔
Author Details
www.sadaewaqt.com