Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, December 30, 2018

حقیقتِ نظامِ سرمایہ داری!!

تحریر /ریان احمد اعظمی /صدائے وقت/ عاصم طاہر اعظمی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
۔۔حقیقت نظام سرمایہ داری ۔۔
اسلام نے جو معاشی نظام قاٸم کیا تھا اس نظام کے پارہ پارہ ہونے اور اس پر عمل در آمد نہ ہونے کی وجہ سے وہ نظام آج درہم برہم ہو چکا ہے۔ عصر حاضر میں اس کی جگہ ایک ایسا نظام معیشت راٸج ہے جس کی بنیاد اور جس کے اصول و ضوابط اسلامی نظام معیشت سے یکسر مختلف ہیں آج وہی نظام معیشت پوری دنیا پر حاوی ہے ۔ دین و مذہب کی تفریق کیے بغیر ہر شخص اس نظام کا گرویدہ نظر آرہا ہے اور اس کے ذہن و دماغ پر وہی نظام معیشت چھایا ہوا ہے جسے مستشرقین اور کچھ نام نہاد مذہب پرست لوگوں نے تراش تراش کر عوام الناس کے سامنے پیش کیا ہے اس نظام معیشت سے میری مراد "سرمایہ دارانہ نظام معیشت " {Capitalism} ہے اس نظام کے اصول و ضوابط میں جو سب سے بنیادی اصول ہے وہ یہ ہے کہ اس نظام کے تحت ہر شخص کو حق ملکیت حاصل ہے یعنی ہر شخص اپنی معیشت کو پروان چڑھانے میں پوری طرح آزاد ہے مال کے تصرف میں اسے پوری طرح آزادی دی گٸ ہے طرح طرح کے وساٸل اپنانے میں اسے پوری طرح آزاد چھوڑا گیاہے حکومت کو کہیں سے یہ حق حاصل ہی نہیں ہے کہ وہ اس کے وساٸل یا اس کی معیشت میں دخل اندازی کرے یا اسے اس بات پر مجبور کرے کہ وہ حکومت کی ماتحتی میں کوٸ پیشہ اختیار کرے بلکہ اس نظام کے اصول کے مطابق حکومت اسے اس کے پیشہ کے مطابق وساٸل فراہم کرے گی تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کرسکے نظام سرمایہ داری کے اسی اصول کی بنا پر سماج میں اخلاقی بگاڑ پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ مادی بگاڑ بھی پیدا ہوتے ہیں۔
دوسری طرف سرمایہ دارانہ نظام کا یہ کہنا ہے کہ خریدو فروخت میں رسد [supply] اور طلب [demand] کا اہم رول ہے سب سے پہلے ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ Economic کی اصطلاح میں رسد و طلب کسے کہا جاتا ہے ۔ رسد کسی بھی سامان تجارت کی اس مجموعی مقدار کو کہا جاتا ہے جو بازار میں فروخت کرنے کیلۓ لاٸ گٸ ہو طلب وہ سامان تجارت ہے جو بازار میں فروخت کرنے کیلۓ لایا گیا ہو جسکی طرف لوگوں کا میلان ہو معیشت کی اصطلاح مذکورہ دونوں کو رسد و طلب کہا جاتا ہے سرمایہ دارانہ نظام معیشت فطرت انسانی سے انحراف کرتے ہوۓ ہر اس چیز کو منظر عام پر لانے کی تلقین کرتا ہے جس کی طلب معاشرے یا بازار میں زیادہ پاٸ جاتی ہو خواہ وہ انسانیت کیلۓ سم قاتل ہو تاکہ اسے فروخت کرکے اور معاشرے کو انفرادی یا اجتماعی طور پر مہیا کرکے وہ زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کرسکے اسی نفع کے حصول کیلۓ لوگوں نے انسانیت کے درجے سے نکل کر حیوانیت کے درجے میں زندگی گزارنے کو ترجیح دی چنانچہ مغربی ممالک میں عریانیت فحاشیت سٹہ بازی قمار بازی جیسا سیل رواں سب سے پہلے پہنچا اور وہ ان کی تہذیب میں شامل ہونے کے ساتھ کے ساتھ اسلامی تہذیب و ثقافت کو پوری طرح متاثر کرتا ہوا نظر آرہا ہے جس کے نتیجے میں مسلم خواتین و مرد غیر مہذب لباس سے لیکر زندگی تمام امور و معاملات میں مغربیت کو ترجیح دے رہے ہیں ۔١
سرمایہ دارانہ اصول کے مطابق صنعت و حرفت میں جو کچھ آمدنی حاصل ہو وہ انہیں عوامل کے درمیان تقسیم ہونی چاہیے جنہوں نے پیداٸش کے عمل میں حصہ لیا ہو اس نظام کے مطابق وہ عوامل کل چار ہیں ١ زمین ٢ محنت ٣ سرمایہ٤ آجر یا تنظیم ۔
آجر یا تنظیم اس شخص کو کہا جاتا ہے جو اصل محرک ہے یعنی جس نےمذکورہ تینوں عوامل کو جمع کرنے اور انہیں بروۓکار لانے میں پوری جد و جہد کی ہو اور عوامل ثلاثہ کے نتیجہ میں جو نفع یا نقصان ہو اسے اپنے ذمہ لے لیا ہو ایسے شخص کو آجر یا تنظیم کہا جاتا ہے ۔اگر کوٸ شخص اس طرح کوٸ پیشہ اختیار کرتا ہے تو زمین دینے والے کو کرایہ سرمایہ مہیا کرنے والےکو سود محنت کرنے والے کو اس کی اجرت دے کر بقیہ حصہ آجر یا تنظیم کے حصے میں ہوگا ۔مذکورہ عوامل ثلاثہ کے درمیان تقسیم دولت کا رسد اور طلب ہے اس نظام کا کہنا ہے وقت اور حالات کے مطابق زمین کی جیسی طلب ہوگی اسی لحاظ سے زمین مہیا کرنے والے کو اس کا کرایہ دیا جاۓ گا اسی طرح سرمایہ فراہم کرنے والے کو سود اور محنت کرنے والے کو اس کی اجرت دی جاۓ گی ۔٢
اگر اخلاقی نقطہ نظر کو چھوڑ کر معاشی نقطٸہ نظر سے بھی دیکھا جاۓ تو اس نظریہ کا جو لازمی نتیجہ نکل کر آرہا ہے وہ یہی ہے کہ اس نظام کی وجہ سے تقسیم دولت کا توازن بگڑ جاۓ گا اور وساٸل ثروت اور مال و دولت کی پونجی ایک مخصوص ٹولی کے پاس چلی جاۓ گی جسکی وجہ سے معاشرے میں دو گروہوں کا وجود میں آنا ضروری ہے جو ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوں ۔
نظام سرمایہ داری کی اسی اصول کی وجہ سے معاشرہ دو گروہوں میں تقسیم ہے ایک صاحب ثروت لوگوں کا مخصوص گروہ جسے حکومت کی تاٸید حاصل ہے دوسرا وہ گروہ جو صاحب ثروت لوگوں کے ماتحت ہوکر کام کرنے والا ہے  جس کی اکثریت اپنی محنت و مشقت سے کم سرمایہ پر اکتفا کرنے والی ہے ۔
چونکہ اس طرح تقسیم دولت میں جو شخص عوامل ثلاثہ کا محرک اول ہوتا ہے سارا نفع اسی کا ہوتا ہے جسے آجر یا تنظیم کہا جاتا ہے جستہ جستہ یہ عوامل ثلاثہ پر فوقیت حاصل کرکے اونچے اونچے محلات کوٹھیاں بلڈینگیں قاٸم کرتا ہے اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کیلۓ کوٹھوں اور عیاشی کے اڈوں کا رخ کرتا ہے اور یہ بات بالکل جاٸز سمجھ لیتا ہے کہ خستہ حال لوگوں کا گروہ صرف اسی کی خدمت کیلۓ پیدا کیا گیا ہے وہ جس طرح چاہے ان سے بے گاری لے اور جتنی اجرت چاہے ادا کرے اس معاملے میں اس کی جوابی کارواٸ کرنے والا کوٸ نہیں ہوتا ۔اس آجر یا تنظیم کے اس گھناٶنے عمل سے معاشرے میں جہالت کا چلن عام ہے ظلم و بربریت اپنی حد  پار کر گٸ ہے فاقہ کشی اور تنگ دستی کا رونا ہر جگہ سنا جارہا ہے بے راہ روی کی وبا عام ہے خود کشی جیسا گھناٶنا عمل آۓ دن پیش آتا ہے ٣
حق بات یہ ہے کہ روۓ زمین پر جب تک یہ نظام معیشت راٸج رہے گا دولت کی غیر عادلانہ تقسیم ہوتی رہے گی معاشرے میں کمزور طبقہ کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا جاۓ گا اور صاحب ثروت لوگوں کا طبقہ عیش و تنعم میں زندگی گزارتا رہے گا جس کی وجہ سے عالمی سطح پر سیاست سے لیکر معیشت تک ایک اضطرابی کیفیت پاٸ جاۓ گی انسانیت کی بقا و تحفظ کیلۓ ایسا نظام معیشت نافذ کیا جاۓ جس میں تمام ذی نفس کو ان کے حقوق دے گۓ ہوں ۔ روۓ زمین پر اس طرح کا نظام معیشت پیش کرنے والا اگر کوٸ مذہب ہے تو بلاشبہ وہ دین اسلام ہے جس نے زندگی کے تمام گوشے میں ذو روح کیلۓ عادلانہ باتیں کہی ہیں اور اس پر عمل پیرا ہونے کیلۓ انسانوں کوحکم دیا ہے جو انسانی فطرت کے عین مطابق ہے ۔
                  حواشی
١اسلام اور جدید معیشت و تجارت ص ٣٥
٢ اسلام اور جدید معیشت و تجارت ص ٢٤
٣ معاشیات اسلام ص ٤٥