Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, December 24, 2018

مولانا اسرار الحق قاسمی ، مختصر سوانح عمری۔


زندگانی تھی تیری مہتاب سے تابندہ تر

از__/مفتی عبد المنان قاسمی دیناج پوری/صدائے وقت/ عاصم طاہر اعظمی۔ 
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
بین الاقوامی شہرت یافتہ بے مثال عالم دین، مشہور قلم کار، معروف مصنف، میدانِ صحافت کے شناور، میدانِ خطابت کے نبض شناس، بے بدیل اسلامی مفکر، ماہر تعلیم، بے نظیر ملی رہنما، ہر دل عزیز سیاسی قائد، دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے رکن، جمعیۃ علمائے ہند کے سابق فعال ومتحرک جنرل سکریٹری، آل انڈیا ملی کونسل کے بانی ونائب صدر، آل انڈیا تعلیمی وملی فاؤنڈیشن کے بانی اور متعدد مدارس ومکاتب اور اسکولوں کے بانی وسرپرست حضرت اقدس مولانا محمد اسرار الحق صاحب قاسمی نور اللہ مرقدہ کی عظیم دینی، علمی، عملی، فکری، سیاسی، سماجی، عبقری شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ متعدد اوصافِ حمیدہ، بلند ترین اخلاق وشمائل، بلند ترین خصائل، نمایاں ترین امتیازات وخصوصیات کی حامل تھی۔

*ولادت، وطن، خاندان اور تعلیم وتربیت*:
آپ کی ولادت باسعادت ضلع کشن گنج (بہار)کی ایک جھوٹی بستی ‘ٹپوتاراباری’ میں ۱۵؍فروری ۱۹۴۲ء؍ میں جناب منشی امید علی بن لیاقت اللہ صاحبؒ کے گھر ہوئی۔ ابتدائی تعلیم وتربیت علاقہ کے ایک ادارے مدرسہ بدر العلوم پھول گاچھی، ضلع کشن گنج میں ہوئی اور بالآخر دارالعلوم دیوبند سے ۱۹۶۴ء؍ کو سند فضیلت سے سرفرازی نصیب ہوئی۔ دورانِ تعلیم آپ ایک مشہور طالب علم کی حیثیت سے رہے اور نمایاں نمبرات سے کامیابی حاصل فرمائی۔

آپ ایک متوسط گھرانہ سے تعلق رکھتے تھے، علاقائی اعتبار سے آپ کا خاندان کافی معروف تھا، آپ کے والد ماجد جناب امید علی صاحبؒ ایک کسان تھے، کاشت کاری اور کھیتی باڑی اُن کا پیشہ تھا؛ لیکن اپنی اولاد کی صحیح پرورش وپرداخت کی فکر تھی، زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کی چاہت تھی، دل میں اُمنگیں کروٹیں لے رہی تھیں کہ میرا بیٹا بھی عالم بن جائے اور اچھے اخلاق وکردار کا حامل ہو، دین کا داعی اور شیدائی بن جائے۔ چناں چہ اس خواہش کی تکمیل کی خشتِ اساس کے طور آپ نے اپنے بیٹے کا مدرسہ میں داخلہ کرایا اور دینی تعلیم سے مزین کرنے کا ادارہ موجزن رہا؛ حتی کہ آپ کا جگر گوشہ اور فرزند ارجمند ایک دن اسرارالحق سے ’’حضرت مولانا اسرارالحق قاسمی‘‘ بن گیا۔

*اوصاف وخصائل، اخلاق وشمائل اور خصوصیات وامتیازات کا اجمالی خاکہ*:
آپ کی شخصیت ہمہ جہت تھی، آپ کی ذات نہایت ہی پرکشش اور جاذب تھی، آپ کا برتاؤ انتہائی ظریفانہ اور خوش اخلاقانہ ہواکرتا تھا، آپ کی خدمات ہشت پہل اور شش جہت تھیں، آپ کی زندگی اپنے اخلاف کے لیے اسوہ ونمونہ اور مثالی تھی، آپ کی حیات مستعار اسلافِ کرام واکابرِ عظام کی بہترین یادگار تھی، آپ کا کردار وعمل نہایت ہی پاکیزہ تھا، آپ بہت ہی خوش گفتار، خوش کردار، خوش اطوار، خوش اخلاق اور موہنی طبیعت کے مالک تھے، آپ کا مزاج سادہ اور سادگی پسند تھا۔ آپ مرنجاں مرنج طبیعت اور قوس قزاحی مزاج رکھتے تھے۔ آپ کا رہن وسہن انتہائی سادہ ہوتا؛ لیکن اس کے باوجود آپ کا عالمانہ وقار اور حرارتِ پوستی کا اثر اتنا عظیم تھا کہ ‘‘بادشاہ جارہا ہے گدائی لباس میں’’ کا مظاہرہ ہوتا تھا۔ زندگی مختلف نشیب وفراز سے گزرتی گئی، کتنی کروٹیں لی اور آپ نے صبر واستقامت، عزم وحوصلہ، جواں اور کوہِ ہمالہ کی وسعتوں اور بلندیوں کو بھی سر کرجانے والی فکری بالیدگی کا مظاہرہ فرماتے رہے۔ آپ ان قلندرانہ صفات اور خوبیوں کے مالک اُن درویشوں اور بزرگوں میں تھے، جن کی امیدیں قلیل اور مقاصد جلیل ہوتے ہیں۔ آپ نے اپنے کردار وعمل سے یہ ثابت کردکھایا کہ زندگی سدا جواں، ہردم رواں، پیہم دواں رہتی ہے۔

*رشتۂ ازدواج اور اولاد*:
آپ نے فراغت کے ایک سال بعد ۱۶؍مئی ۱۹۶۵ء میں سلمی خاتون بنت ولایت حسین بن ریاضت اللہ کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔مولاناؒ کے دادا، اور ریاضت اللہ دونوں حقیقی بھائی تھے۔ ۹؍جولائی ۲۰۱۲؍ کو دارِ فانی سے عالمِ بقا کی طرف کوچ فرما گئیں۔ اولاد میں تین لڑکے:سہیل اختر (ایم اے)، مولانا سعود صاحب ندوی ازہری، فہد اسرار ، اور دو لڑکیاں ہیں۔

میدانِ عمل میں قدم رنجائی اور دائرۂ کار: دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد آپ نے اپنی عملی زندگی کا آغاز مدرسہ رحیمیہ گاڑھا، موجودہ ضلع مدھے پورہ، بہار میں تدریس سے کیا، اس کے بعد مدرسہ بدر الاسلام بیگوسرائے میں ناظم تعلیمات کی حیثیت سے خدمت انجام دینے لگے۔( جمعیۃ علمائے ہند سے وابستگی اور دیگر تنظیموں کے تعلق سے آپ کی خدمات کے لیے تھوڑا انتظار کریں، اخیر میں وہ ساری چیزیں بالتفصیل بیان کی جائیں گی، ان شاء اللہ!

*خطابت*:
خطابت ایک ایسا فن ہے، جس میں سحر آفرینی اور جادو بیانی ہے، یہی وہ فن ہے جس کے ذریعہ دلوں کو موہ لیا جاتا ہے، جذبات واحساسات میں تلاطم وتموج کی لہریں ابھاری جاتی ہیں، سویا ضمیر جاگ اٹھتا ہے، پژمردہ قلوب میں تازگی پیدا ہوجاتی ہے، فکر ونظر میں بالیدگی آجاتی ہے، اکتسابی صلاحیت اور تخلیقی جوہر کا پتہ چلتا ہے، سوچنے اور سمجھنے کا انداز بدل جاتا ہے،کھوئی ہوئی شان وشوکت دوبارہ حاصل کرنے کی چاہ پیدا ہوجاتی ہے، عظمت رفتہ کی تحصیل کا جذبہ نمودار ہوجاتا ہے، قومی زندگی کے تنزل وانحطاط کا شعور اور اعلی ومثالی زندگی کے حصول کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ زمانۂ قدیم وجدید میں اس کی بے شمار مثالیں تاریخ کے صفحات میں مرقوم ہیں؛ حتی کہ انبیائے کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کو بھی خدائی پیغامات پہونچانے کے لیے تقریر وخطابت میں مہارت کی ضرورت پڑی ہے، یہی وجہ تھی کہ تمام انبیا ومرسلین اپنے وقت کے سب سے بڑے خطیب بھی ہوا کرتے تھے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق فرمایا گیا کہ ان کو ’’فصل خطاب‘‘ عطا کیاگیا، اور حضرت نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مجھے ’’جوامع الکلم‘‘ عطا ہوا ہے، تقریر وخطابت اور زبان وبیان میں شان جامعیت عطا کی گئی ہے، یعنی کم الفاظ میں اپنے مافی الضمیر کو ادا کردینے کا سلیقہ عطا ہوا ہے۔ اور پھر صحابۂ کرامؓ نے مختلف مواقع پر فرمایا کہ: جب بھی کوئی معاملہ پیش آیا، تو ’’قام رسول اللہ ﷺ فینا خطیبا‘‘، آپ ﷺ ہمارے درمیان بہ حیثیت خطیب کھڑے ہوے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ جناب سرور کونین ﷺ نے بازار عکاظ میں دو عجمیوں کی تقریر سن کر ’’ان من البیان لسحرا‘‘، ’’واقعی بعض بیان جادو ہوتے ہیں‘‘ فرمایا تھا۔ گویا کہ تقریر وخطابت کے ذریعہ اپنا پیغام اور اپنی بات عوام وخواص تک پہونچانے کا قدیمی زمانے سے رواج چلا آرہا ہے اور ہر دور میں اس کی مقبولیت اور ضرورت وحاجت کا اقرار رہا ہے۔

*اندازِ خطابت*:
نہایت ہی پر کیف، پرسکون وپروقار لب ولہجہ، جذبات واحساسات کو اپیل کرنے والا انداز، قلب وجگر کو چھو جانے والا اسلوب، ہر ایک کو اپنا گرویدہ اور ہر ایک کا دل جیت لینے والا رفتارِ تکلم۔ آپ کی خطابت ایک ایسا سماں باندھ دیتی تھی کہ چوطرف سناٹا چھا جاتا تھا، نگاہیں آپ کی طرف اٹھی رہتی تھیں، کان متوجہ اور دل ودماغ حاضر باش رہتے، کہ جیسے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں، ذرا سی حرکت پر اڑجائیں۔ آپ نے اپنی جادوئی خطابت سے صرف وطن عزیز کو ہی مسحور نہیں کیا؛ بل کہ ایک عالم کو اپنی سحر انگیز خطابت سے محظوظ ومستفید فرمایا، اور جہاں گئے، اپنا نقش جمیل اور چھاپ چھوڑ آئے۔ سننے والے کہتے کہ حضرت والا خاموش ہی نہ ہوں تو اچھا ہے۔ کئی کئی گھنٹے بولتے رہتے تھے۔ نہ آواز میں کوئی خفت آتی اور نہ لب ولہجہ میں کوئی گراوٹ۔ ایک ایسا آبشاری تسلسل تھا، جس میں نہ کہیں انقطاع ہے اور نہ کہیں بے ارتباطی۔

آپؒ کی خطابت سے عشق رسالت مآب ﷺ، عقیدۂ توحید، عقیدۂ ختم نبوت، ناموس صحابۂ کرام، اہل بیت سے محبت، شرک وبدعت سے نفرت، توحید وسنت کی اہمیت وضرورت کا درس ملتا۔ اتحاد بین المسلمین کا فروغ، ملی یکجہتی اور فرقہ واریت کے خاتمے میں بھی آپ کی خطابت اہم رول ادا کرتی۔ تعلیم وتربیت، دعوت وسلوک، فکر دیوبند کی ترویج اور تقابل ادیان اور ان جیسے بہت سے اہم اور نمایاں گوشوں پر آپ کی خطابت کی جلوہ سامانیاں اور سحر آفرینیاں مشتمل ہوتیں اور پورے مجمع کو مبہوت کردیتیں۔

*زبان وبیان کی مہارت*:
اللہ تبارک وتعالی نے حضرت مولاناؒ کو زبان وبیان میں بے پناہ مہارت عطا فرمائی تھی، انشا پردازی و نثر نگای، تصنیف و تالیف، تحقیق وتنقیح، تنقید و تبصرہ، ملک بھر کے بیش تر اردو اخبارات ورسائل میں مضامین وکالم نویسی، سیاسی، سماجی اور علمی و دینی مکتوبات اور مواعظ و خطبات کے بے شمار لعل وگوہر آپ کی یاد دلاتے رہیں گے۔

*اسلوبِ نگارش اور منہاجِ کتابت*:
یہ بات بھی اظہر من الشمس اور اہل علم سے مخفی نہیں ہے کہ حضرت مولانا اسرار الحق صاحب قاسمیؒ عالمی شہرت یافتہ عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ اردو زبان وادب کے نہایت ہی سنجیدہ و متین مصنف اور بہترین نثر نگار تھے۔ آپ کو قدرتِ فیاض کی طرف سے میدانِ قلم وقرطاس کا زریں تاج عطا ہوا تھا۔ آپ اپنی ادبی اور ٹکسالی زبان میں اپنے پاکیزہ خیالات واحساسات کی ترجمانی انتہائی صاف ستھرے لب ولہجہ اور سلیس انداز میں بیان فرماتے تھے۔ آپ چوں کہ ماہر اساتذۂ کرام اور وقت کے جبال العلم شخصیات کے فیض یافتہ تھے؛ اسی لیے آپ کی تحریروں میں ادبی لطافت بھی ہوتی اور ظرافت طبع اور چاشنی ومتانت کے ساتھ سنجیدگی اور علمی تبحر ونکتہ آفرینی بھی۔ نہایت سلیس، آسان اور پروقار لب ولہجہ میں انسانی جذبات کو اپیل کرنے والے انداز اور دلوں کو موہ لینے والے اسلوب میں سادگی وشائستگی کے ساتھ اپنی بات کہہ جاتے ہیں، جو اپنے مطالعہ کنندگان کو تسلی وتشفی اور فکر ونظر کو بالیدگی عطا کرتی ہے۔ اور آپ کے بہار آفریں قلم کے جواہر پارے اور منتخب نقوش، گلستانِ علم وادب میں آپ کی سنہری یادوں کی شکل میں مرقوم ہیں، جو آپ کی وسعتِ علم، فکری آفاقیت كی غماز، اور آپ کی تحریروں کی سحر آفرینیاں اہل حق کے لیے سامان تسکین اور باطل پرستوں کے لیے مسکت دلیل اور شمس نصف النہار کی مانند ہیں۔

*آپ کی کتابیں*:
(1)انسانی اقدار (2)اسلام اور سوسائٹی (انگریزی) (3)مسلم پرسنل اور ہندوستان (4)سلگتے مسائل (5)اسلام اور مسلمانوں کی ذمہ داریاں (6)معاشرہ اور اسلام (7)دین فطرت (8)ہندوستانی مسلمان اور ان کی ذمہ داریاں (9)عورت اور مسلم معاشرہ(10)خطبات لسسٹر (11)حقیقت نماز (12)دعا: عبادت بھی، حل مشکلات بھی۔

مذکورہ بالا کتابوں کے علاوہ تقریباً دس ہزار مضامین ومقالات اخبارات میں منتشر اور بکھرے ہوے ہیں، اُن کو جمع کرکے شائع کرنا اُن کی خدمات کا صحیح اعتراف بھی ہوگا اور بہترین خراج عقیدت بھی۔ ہندوستان کے تمام اردو روزناموں میں ان کے مضامین شائع ہوتے، سیکڑوں ماہ ناموں اور رسائل وجرائد کی زینت بنتے تھے اور ان کے بعض مقالات بیرون ملک کے مجلات میں بھی شائع ہوتے۔ اللہ تعالی اُن کی خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے اور اُن اعلی علیین میں مقام کریم عطا فرمائے۔ میر تقی میرؔ کی زبانی کہیے، تو ؂

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

*تنظیمی وتحریکی زندگی*:
حضرت مولاناؒ نے اپنی زندگی کا آغاز اگر چہ تعلیم وتدریس سے کیا تھا؛ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی مقصود تھا، آپ نے بڑے بڑے کارنامے انجام پانے تھے؛ اس لیے ابھی چند ہی گزرے تھے کہ جمعیۃ علمائے ہند نے آپ کی دل چسپی اور دینی جذبہ کو دیکھ کر، آپ کو حضرت مولانا سید اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ جیسے جوہر شناس شخصیت نے جمعیۃ کی خدمت کے لیے بلالیا۔ آپ نے نہایت ہی چابک دستی کے ساتھ جمعیۃ کے مشن کو آگے بڑھانے میں اہم رول وکردار ادا کیا اور جمعیۃ کی ترجمانی کا مکمل حق ادا فرمایا۔

تقریباً بیس سال تک آپ جمعیۃ سے منسلک رہے اور اس دوران آپ پہلے نو سال تک ’’آفس سکریٹری‘‘ رہے اور گیارہ سال ’’جنرل سکریٹری‘‘ کے عہدۂ جلیلہ پر فائز رہے۔ اس کے بعد حالات نے پلٹا کھایا اور چند وجوہات کی بنیاد پر آپ نے جمعےۃ سے استعفیٰ دے کر اس سے برطرف ہوگئے۔

جمعیۃ علمائے ہند سے علاحدگی کے بعد قاضی مجاہد الاسلام نور اللہ مرقدہ جیسی نباض اور جنس نایاب ہستی نے آپ کو اپنی رفاقت اور آگوش میں لے لیا اور ملک وملت کے لیے آپ کی خدمات حاصل کیں۔ آل انڈیا ملی کونسل کی بنا وتاسیس میں آپ کو شریک رکھا اور آپ کو اس کا نائب صدر بھی منتخب فرمایا، جس عہدۂ فائقہ پر آپ تادم حیات برقرار رہے۔

مختلف پلیٹ فارموں سے آپ نے ملک وملت کی خدمات انجام دیں اور بالآخر آپ نے اپنی خدمات کا دائرہ مزید وسیع کرنے اور سیمانچل جیسے پس علاقہ کو تعلیمی زیور سے آراستہ ومزین کرنے کے لیے ایک تنظیم بہ نام ’’آل انڈیا تعلیمی وملی فاؤنڈیشن‘‘ کی بنیاد رکھی۔ جس کے تحت ملک کے مختلف خطوں میں مدارس ومکاتب اور اسکولس قائم کیے گئے۔ اگرچہ آپ کی خدمات صرف سیمانچل، یا صرف بہار تک ہی محدود نہیں تھیں؛ بل کہ اس کا دائرہ نہایت ہی وسیع اور پھیلا ہوا ہے، پورا ہندوستان ہی آپ کی نگاہ تھا، جہاں کہیں روشنی کی کمی محسوس ہوتی، وہاں ایک چراغ جلانا اپنا فریضہ تصور فرماتے تھے۔

کوئی بزم ہو، کوئی انجمن، یہ شعار اپنا قدیم ہے
جہاں روشنی کی کمی ملی، وہاں اک چراغ جلا دیا

*میدانِ سیاست کی قابلِ رشک غواضی*:
میدانِ سیاست میں بھی آپ نے طبع آزمائی فرمائی اور خوب نمایاں کارکردگی دکھائی۔ جمعیۃ علمائے ہند سے وابستگی کے زمانہ سے ہی آپ نے سیاست میں بھی قدم رکھا؛ کیوں کہ آپ اس راز سے واقف تھے کہ جو بہترین دین دار اور پابند شرع ہوگا، وہی انسان ایک بہترین سیاسی قائد اور ملک وملت کے نفع بخش رہنما بھی ہوگا، آپ دین اور سیاست کو ایک دوسرے کے لیے جڑوے بھائی کی طرح سمجھتے تھے، ایک دوسرے کو جدا جدا اور الگ تسلیم کرنے سے آپ کو انکار تھا؛ اسی لیے آپ نے یہ ثابت کردکھایا کہ دین اور سیاست کس طرح باہم ایک دوسرے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے ہوے ہیں۔ ۱۹۸۵ء؍ سے انتخابات میں آپ نے حصہ لینا شروع کیا، چار مرتبہ شکست سے دو چار ہوے اور بالآخر پانچویں مرتبہ ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی الیکشن میں آپ نے کشن گنج حلقہ سے کانگریس کے بینر تلے اپنی فتح وکامرانی کا جھنڈا لہرا دیا اور ۲۰۱۴ء میں جہاں بی جے پی لہر ملک بھر عام تھی اور کانگریس بالکل حاشیہ پر آچکی تھی، ایسے میں آپ نے یہ ثابت کردکھایا کہ بی جے پی لہر میں بھی کشن گنج حلقہ میں ’’قاسمی لہر‘‘ کی دھوم ہے۔

دو بار ممبر آف پارلیمنٹ رہے؛ لیکن آپ کی شان اور عالمانہ وقار میں کوئی کمی نہیں آئی۔ آپ کی شناخت ایک بزرگ عالم دین کی حیثیت سے پہلے بھی تھی اور سیاست میں رہتے ہوے بھی رہی۔ آپ نے اتنے عظیم عہدہ پر رہتے ہوے بھی کبھی اپنے لیے کچھ نہیں کیا، جو کچھ بھی کیا، ملک وملت کی بھلائی کے لیے کیا۔ کشن گنج میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ کی شاخ آپ کے سیاسی دور کی بہترین یاد گار ہے۔ اس کے علاوہ فلاحی ورفاہی کاموں میں آپ ہمیشہ پیش پیش رہے۔ آپ نے کبھی اپنے دامن کو داغ دار نہیں ہونے دیا۔ شکیل بدایونی کی زبانی کہا جائے، تو حضرت مولاناؒ نے زبانِ حال سے یہ فرمایا کہ ؂

کانٹوں سے گزر جاتا ہوں دامن بچا کر
پھولوں کی سیاست سے میں بیگانہ نہیں ہوں

*تصوف وسلوک*:
انسانی فوز وفلاح کے لیے جہاں تعلیم ضروری اور ناگزیر ہے، وہیں تزکےۂ نفس اور اصلاح باطن بھی ضروری اور لابدی ہے۔ آغاز اسلام میں جناب سرور کونین ﷺ نے اپنے صحابہ کی تعلیم وتربیت اور تزکیہ پر ایسی توجہ عنایت فرمائی، کہ ظاہر وباطن ہر دو اعتبار سے مرجع خلائق بن گئے اور ایسا نمایاں مقام حاصل کرلیا، کہ رہتی دنیا تک کی آنے والی انسانیت کو وہ شرف وفضیلت حاصل نہیں ہوسکتی اور نہ ہی اس مقام تک رسائی ہی ممکن ہے۔

آپ ﷺ کے بعد صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس کو اختیار کیا اور اپنے بعد والوں کی ہر طریق پر رہنمائی فرمائیں، اور اب تک یہ سلسلہ چلا آرہا ہے اور تاقیام قیامت جاری رہے گا، ان شاء اللہ! ہر دور میں علمی وعملی میدانوں میں اپنی کامیابی کا مہر ثبت کرنے والے افراد نے دوسروں کی تعلیم وتربیت اور تزکیہ کا مکمل خیال رکھا ہے، اور مقررین وخطبا نے اس کی اہمیت وافادیت اور اس کی ضرورت وناگزیریت کو اجاگر کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ حضرت مولاناؒ نے بھی اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا کہ ؂

عطار ہو، رومی ہو، رازی ہو، غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحر گاہی

اسی ليے آپ نے پہلے حضرت مفتی مظفر حسین صاحب مظاہری نور اللہ مرقدہ کے دست حق پرست پر بیعت فرمائی اور آپ کو اجازت وخلاف بھی ملی۔ ان کی وفات کے بعد آپ نے حضرت مولانا قمر الزماں صاحب الہ آبادی دامت برکاتہم سے اصلاحی تعلقات قائم فرمایا اوراُن سے بھی بیعت وارشاد کی اجازت مرحمت ہوئی۔

*سفر آخرت*:
آپ کی حیات مستعار اتنی مصروف ترین تھی کہ پتہ ہی نہیں چلا کہ کب اس کے لمحاتِ عزیزہ اور لحظاتِ قیمہ کی تکمیل ہوگئی اور داعئ اجل نے ناقورۂ موت بجادیا؛ لیکن وہ موت بھی کیسی عظیم کہ آپ نے اس آخری رات میں بھی کئی جلسوں کو خطاب فرمایا اور اپنی علمی ضیاباریاں نچھاور فرمائی۔ ایسے موقع پر رحمان فارس کا یہ شعر یاد آتا ہے ؂

کہانی ختم ہوئی اور ایسی ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوے

07؍دسمبر 2018ء/ مطابق 28؍ربیع الاول 1440ھ؍ بہ روز جمعہ، شب کے آخری پہر ساڑھے تین بجے اس دارِ فانی سے کوچ فرماگئے۔ رات ایک بجے تک حلیمیہ چوک کشن گنج میں جلسہ کو خطاب کیا،اسی رات دو اور جلسے کو جس میں ایک آپ کے قائم کردہ ادارہ دارالعلوم صفہ میں منعقد ہوا تھا، خطاب فرمایا۔ دو گھنٹہ آرام فرمائے اور تین بجے شب اپنے معمول کے مطابق تہجد کے لیے اٹھے اور وضو فرمایا، جائے نماز پر جانا چاہ رہے تھے کہ دل کا دورہ پڑا، رفقا کو بلایا، گاڑی کا دروازہ خود سے کھولا، سیٹ پر بیٹھے، پوچھا: کہاں لے جارہے ہو؟ بتایا گیا کہ: ڈاکٹر کے یہاں، آپ نے فرمایا کہ: میں تو اللہ کے یہاں جارہا ہوں، تم سب مجھے معاف کردینا۔ گویا مولاناؒ اپنے الفاظ میں حکیم محمد اجمل خاں شیداکی زبانی یوں کہنا چاہا ؂

درد کو رہنے بھی دے دل میں، دوا ہوجائے گی
موت آئے گی تو اے ہمدم! شفا ہوجائے گی

آپ کی وفات حسرت آیات واقعی علمی دنیا کے لیے ایک عظیم خسارہ ہے۔ آپ کا جانا کیا ہوا، سلفِ صالحین اور علمائے صادقین کی بزم کی آخری شمع گل ہوگئی۔ علمی کائنات سونی ہوگئی۔ آپ کی رحلت پر ملک وملت حزین ہے، افسردہ ہے، غم زدہ ہے، اور سبھی بہ زبان حال مخمور دہلوی کی زبانی یہ ہی کہہ رہے ہیں ؂

جنھیں اب گردش افلاک پیدا کر نہیں سکتی
کچھ ایسی ہستیاں بھی دفن ہیں گورِ غریباں میں

لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے اپ کے جنازہ میں شرکت فرمائی( ایک محتاط اندازہ کا مطابق دولاکھ سے زائدعقیدت مندوں اور چاہنے والوں نے آپ کے جنازہ میں شرکت کی) حضرت مولانا انوار عالم صاحب مدظلہ، ناظم اعلی دارالعلوم بہادر گنج نے اسی دن شام تین بجے جنازہ پڑھایا اورتاراباری ٹپو میں آبائی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔ محمد علوی کی زبانی کہا جائے، تو ؂

دن ڈھل رہا تھا جب اسے دفنا کر آئے تھے
سورج بھی تھا ملول زمین پر جھکا ہوا

شاعر مشرق علامہ اقبال مرحوم کی زبانی ان دعائیہ اشعار پر اپنی بات ختم کرتاہوں ؂

زندگانی تھی تیری مہتاب سے تابندہ تر        
خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر

مثل ایوانِ سحر مرقد فروزاں ہو ترا                            
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے                           سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے