Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, March 28, 2019

موجودہ حالات میں مسلمان اجتماعیت کا ثبوت دیں۔۔

تحریر/ محمد قمرالزماں ندوی/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
                 *امت مسلمہ* اس وقت بہت ہی نازک اور مشکل دور سے گزر رہی ہے ، دن بدن حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں ۔ اسلام کے خلاف نفرت کا ماحول بنایا جارہا ہے ، دشمنان دین ہر چہار جانب سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف ہیں ۔ میڈیا چاہے مغربی ہو یا مشرقی یہ پورا پورا بکتا ہوا نظر آرہا ہے ۔ وہ لوگ پوری طاقت اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے اور زہر گھولنے میں صرف کر رہے ہیں ۔ تو دوسری طرف مسلمان خود آپس میں تسبیح کی دانوں کی طرح بکھر گئے ہیں ان کا شیرازہ منتشر ہوگیا ہے ، وہ مسلکی اور گروہی اختلاف کو دین کی خدمت سمجھ کر انجام دے رہے  ہیں۔ بہت سے لوگ تو اب اسلام اور دین کی نہیں مسلک کی تبلیغ میں طاقت و قوت صرف کر رہے ہیں اور مال و زر کا لالچ دے کر اپنے مسلک کو قبول کرنے پر آمادہ کر رہے ہیں ۔ وہ حضرات جن کو قدرت نے بلا کی ذہانت و فطانت صلاحیت و لیاقت اور فراست و عبقریت سے نوازا تھا اور جن کے اندر یہ صلاحیت تھی کہ وہ قوم و ملت کی مثبت قیادت کریں اور بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی کا فریضہ انجام دیں وہ حضرات بھی اپنا اعتماد کھوتے نظر آرہے ہیں اور غیر ضروی بحث و مباحثہ اور بے وقت کے موضوعات میں اپنی توانائیاں صرف کرنے میں لگے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے عوام و خواص میں بہت ہی غلط فہمیاں پیدا ہو گئی ہیں اور ان غلط فہمیوں کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے ۔      ہمارے وہ بڑے جو سرپرستوں کے درجہ میں ہیں وہ مصلحتا خاموش ہوگئے کہ ان لوگوں پر لگام کسنا اب مشکل ہوگیا ہے ۔
        موجودہ حالات اور ملت اسلامیہ کا یہ انتشار و افتراق ہم سب سبے نظم و اتحاد کا طالب ہے یہ امت جو قیام عدل و انصاف کے لئے برپا کی گئ تھی اور لوگوں کے نفع رسانی کے لئے وجود میں آئ تھی آج قعر مذلت میں گرتی چلی جارہی ہے اپنی برتری اور افضلیت کھوتی چلی جارہی ہے ان حالات میں ضرورت ہے کہ اس کو اس کے منصب عظیم اور مقام بلند سے واقف کرایا جائے ۔              لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  افسوس   کہ    نیکی اور معروف کی اشاعت بدی اور فساد کے خاتمہ کے لئے جس گروہ کو پیدا کیا گیا تھا وہ آج خود فساد میں مبتلا ہو گیا اور آج اس فساد و بگاڑ اور اختلاف کی وجہ سے خود اپنی زبوں حالی اور ہمہ جہت پسماندگی کے سبب دوسروں کے لئے درس عبرت بن گیا ہے ۔    ضرورت ہے کہ اختلاف و انتشار کو ختم کیا جائے اور امت میں نئے سرے سے امنگ و حوصلہ پیدا کیا جائے کہ وہ پھر جادئہ حق و صداقت پر گامزن ہو سکے ۔
             ہمیں کسی حال میں اس حقیقت کو بھولنا اور فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اتحاد و اتفاق کسی بھی قوم وملت کا قیمتی سرمایہ اور اس کے تحفظ و بقا کا ضامن ہوا کرتا ہے جو قوم اتحاد و اتفاق اور اجتماعیت و یکجہتی سے بہرہ ور ہوتی ہے اور اس دولت سے مالا مال ہوتی ہے وہی قوم اور ملت زمانہ میں پنپتی ابھرتی نکھرتی اور عروج و بلندی کی منزلیں طے کرتی ہے اس سے وہ اپنے وجود اور اپنی حیثیت کو باقی رکھتی ہے ۔ یہ اتحاد و اتفاق اور اجتماعیت امت مسلمہ کے لئے تو بمنزلہ محور و مرکز ہے عقیدئہ توحید سے لے کر تمام عبادات و اعمال میں یہی حقیقت و اجتماعیت جلوہ گر نظر آتی ہے ۔ قرآن و حدیث میں ہمیں جابجا اجتماعیت اور اتحاد و اتفاق پر زور دیا گیا ہے اور اختلاف و انتشار سے بچنے بلکہ اس دور رہنے کی تاکید کی گئ ہے ۔
                  لیکن افسوس کہ  پڑا لکھا انتہائی کریم جنئیس اور انٹکیچول طبقہ بھی جو آیت قرآنی *ولا تنازعوا فتفشلوا وتذھب ریحکم* (اور مت جھگڑوا ورنہ ناکام ہو جاو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی) پر چیخ چیخ کر گھنٹوں تقریر کرتا  ہے طلاقت لسانی کا جوہر دکھلاتا ہے  وہ خود اختلاف و انتشار کا معجون مرکب بنا رہتا ہے  ۔ ان کا خود کسی سے اتحاد نہیں یہ لوگ ہر جگہ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنائے رہتے ہیں جب قوم کے رہبر اور واعظ خود عملی زندگی سے خالی ہوں گے بے عمل ہوں گے تو صرف زبانی زباں خرچ سے ملت کی تقدیر کبھی  نہیں بدلی ہے اور نہ بدلے گی ۔
                    آج جب کہ اس امت کو (اور خصوصا ملت ہندیہ کو) نوع بنوع یورش و یلغار کا سامنا ہے اور ان حملوں کا نشانہ اس کا تشخص ،عقائد نظریہ دین و زندگی، تصور خالق و مخلوق اور تصور دنیا و آخرت ہے اور مقصد ان سب کو تبدیل کردینا ہے ایسے میں اس نئے طاغوتی طاقتوں اور طاغوتی نظام کے مقابلے میں یہ امت صرف اسی وقت کھڑی ہوسکتی ہے کہ اپنے رب کی رسی کو مضبوطی سے تھام لے آپس میں سیسہ پلائی دیوار بن جائے ۔ اور اپنے نہ ٹوٹنے والے مستحکم ستون سے پوری طرح چمٹ جائے ۔