Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, March 28, 2019

وہ احتیاط جو بزدلی کا تحفہ دے ،،، وہ نا قبل برداشت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مولانا ولی رحمانی۔


مونگیر۔٢٨مارچ/صداۓوقت/ پریس ریلیز/ ذوالقرنین احمد۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
"وہ احتیاط جو بزدلی کا تحفہ دے، وہ پرہیز جو حالات سے گریز سیکھائے، وہ صبر جو ظلم مسلسل کی حسین تعبیر تلاش کرے، اور وہ برداشت جو بے عملی تک پہنچا دے، زندہ افراد اور زندہ اداروں کیلئے نا قابل قبول ہے اور نہ گوارا" ملک کے مسلمان جس وقت گنگا جمنی تہذیب کا پیغام دے رہے تھے ہولی کے دن سوشل میڈیا پر اسٹیٹس لگا کر اور فیسبک وال پر مبارکباد دیکر اپنے برادران وطن کے ساتھ اظہار یک جہتی کا ثبوت دے رہے تھے اسی دن ہی گروگرام کے گڑگاوں میں بھونڈسی کے بھوپسنگھ نگر علاقہ میں مسلم کنبہ کے کچھ بچے شام کو تقریبا ساڑھے پانچ بجے گھر کے باہر ہی کرکٹ کھیل رہے تھے۔ یہ بات فرقہ پرست عناصر کو ناگوار گزری اور دیکھتے ہی دیکھتے کنبہ کے گھر میں گھس کر کئی لوگوں نے لاٹھی۔ ڈنڈوں سے حملہ کیا دنگایوں نے کنبہ کی خواتین اور بچوں کو تقریبا دو گھنٹے تک گھر کی چھت پر قید کئے رکھا۔ الزام ہے کہ 30 سے 35 فرقہ پرستوں نے اس خونی واردات کو انجام دیا ہے شاہد نام کے شخص کو مار مار کر ادھمرا کردیا جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر بہت تیزی سے ہولی کے دن ہی وائرل ہوچکی تھی لیکن اس سے ماحول خراب نا ہو اس لیے مسلم کمیونٹی کے با شعور افراد نے اسے آگے شئیر نہیں کیا اور دوسروں کو بھی شئیر کرنے سے منا کیا، یہ ملک جمہوری ملک ہے یہاں ہر کمیونٹی کے شہری کو آزادی ہے لیکن آج ملک کے حالات بڑے سنگین نظر آرہے ہیں فرقہ پرست عناصر کھلے عام کسی بھی بے گناہ شخص کو ماب لنچنگ کی نشانہ بناتے ہے اور ان کے تشدد کا شکار سب سے زیادہ مسلمان ہوئیے ہے بی جے پی کے اقتدار میں پچھلے ساڑے چار سالوں میں اخلاق احمد، حافظ جنید، پیلوں خان، جیسے درجنوں نوجوانوں کو شک کی بنیاد پر یا جھوٹے الزامات میں مار مار کر شہید کردیا گیا، جس میں یوپی، راجھستان، سر فہرست ہے اتنا خوف دہشت کا ماحول ملک میں پیدا کردیا گیا ہے کہ دلت اور مسلمان اپنے آپ کو ملک میں غیر محفوظ محسوس کرنے لگے ہیں لوگ اکیلے سفر کرنے سے بھی اجتناب کر رہے ہیں۔ گڑگاوں میں مسلم گھرانے پر جو حملہ کیا گیا وہ بڑا ہی دل دہلا دینے والا تھا وڈیو میں دیوانہ وار لاٹھی ڈنڈوں سے فرقہ پرست مسلم پریوار کے مردوں کو مارتے ہوئے دیکھائی دے رہے ہیں خواتین اور بچے چیخ رہے ہے تاکہ کوئی انکی مدد کو آئے پولس کو کال کرنے پر پولس گنڈوں کے فرار ہونے کے بعد جائے حادثے پر پہنچتی ہے اور کچھ لوگوں پر کیس درج کرتی ہے جس میں سے صرف ایک شخص کی گرفتاری ہوئی ہے، اگرچہ یہ ملک جمہوری ہے لیکن یہاں اقلیتی برادری کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے انہیں پاکستان جانے کیلئے کہاں جارہا ہے جبکہ اس ملک کو آزاد کرانے میں ہمارے علماء اکرام نے عظیم قربانیاں دیں اپنے خون جگر سے اس ملک کو سینچا ہے اپنے سروں کے نظرانے پیش کیے ہیں اور آج ہمیں دوسرے درجہ کا شہری سمجھا جاتا ہے، مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ایسے فرقہ پرست عناصر سے ڈٹ کر مقابلہ کریں مومن بزدل نہیں ہوا کرتا ، اور جو شخص اپنے جان مال خاندان دین اور مسلمان بھائی کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے تو وہ شہید کی درجے میں ہے۔ آج مسلمانوں کو پتہ نہیں کیا ہوگیا کہ وہ ہر معاملے میں مصلحت کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں جبکہ ظالم جابر فرقہ پرست کھلے عام تشدد کرہے ہیں آزادی کے بعد سے اب تک کئی نوجوان اس مصلحت کی بھینٹ چڑھ چوکے ہیں اورہم اب بھی مصلحت مصلحت کا راگ الاپنے میں مگن ہیں مسلمان کیوں نہیں کسی مظلوم کی حمایت میں سینہ سپر ہوکر کھڑے نہیں ہوتے ہمارے مدرسے کے طلباء محفوظ نہیں ہمارے طالب علم محفوظ نہیں ہمارے نوجوان محفوظ نہیں یہاں تک کے ہماری عفت و عصمت، شریعت بھی محفوظ نہیں، اس گڑگاوں کے واقعہ نے تو دل و دماغ کو ساکت کردیا ہے کے ہمارے گھر بھی محفوظ نہیں رہے پھر بھی ہم خاموش ہے یاد رکھے یہ مصلحت نہیں ہے یہ بزدلی ہے مومن بزدل نہیں ہوا کرتا، مومن اپنے زور بازو سے حالات کو تبدیل کرنے والا ہوتا ہے صبر کے نام پر ظلم کو برداشت نہیں کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے ظلم کو اپنے اوپر حرام کردیا ہے، ظلم کل قیامت میں اندھیرے کی شکل میں آئے گا ، ظلم سہنے سے ظالم کی مدد ہوتی ہے، باب لاعلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے معاشرہ کفر پر تو قائم رہ سکتا ہے مگر نا انصافی پر نہیں، دراصل مصلحت صبر و تحمل اور برداشت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم ظلم سہتے جاؤ تمہارے سامنے تمہارے ایمان والے بھائی کی جان و مال عزت و عصمت کو تار تار کیا جارہا ہوں تمہاری شریعت پر حملہ کیا جارہا ہوں، مسلمانوں اور اسلام کے خلاف ادیان باطلہ کے ذہنوں میں ذہر گھولا جارہا ہوں، ہر طرف سے ملک کی زمین کو ہم پر تنگ کیا جارہا ہوں، تعلیم کا بھگوا کرن کیا جارہا ہوں، جھوٹی تاریخ معصوم بچوں کے ذہنوں میں پوست کی جارہی ہوں، اور ہم خواب خرگوش میں عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں، نہ ہمارے حق‌میں کوئی آواز اٹھانے کیلئے تیار ہیں نہ کوئی مضبوط قیادت ہمارے پاس موجود ہے جو ہماری صحیح نمائیندگی حکومت سے کریں۔ آج ضرورت ہے کہ ملک کے مسلمان خود کو کمزور و ناتواں نہ سمجھے بلکہ ایمانی غیرت و ملی حمیت کے تحت ظالموں کو اور فرقہ پرست عناصر کو انہی کی زبان میں جواب دیں کیونکہ شیر ہند ٹیپوسلطان نے کہاں تھا شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے، بزدل افراد ایک لمحہ میں کئی بار مرتے ہیں اور بہادر لوگ با وقار موت مرتے ہیں، اور انکے نام رہتی دنیا تک زندہ رہتے ہیں اگر آپ دیکھ رہے ہے کہ کسی پر ناحق ظلم ہورہا ہے تو بغیر مذہبی تفریق کے اس کی مدد کیلئے آگے آئے کسی مسلمان بھائی پر کوئی ظلم کر رہا ہے تو نعرہ تکبیر پڑھ کر ظالم و شرپسند عناصر کو اسی کی زبان میں جواب دیں اور ایسا جواب دے کے پھر آئیندہ کوئی ایسی جرأت تو کیا سوچ بھی نہ سکے ، اور اس نعرہ کی آواز سن کر تمام مسلمان اس کی مدد کیلئے اللہ اکبر کہتے ہوئے آگے بڑھے، جلوسوں جلسوں میں ابھی نعرے صرف پڑھتے آرہے ہیں اسکی حقیقی قوت کا مظاہرہ بھی کر کے دیکھیں، کیونکہ مسلمان ایک جسم کے مانند ہیں جس طرح جسم کے کسی بھی حصے‌ کو تکلیف یا ایزا پہنچتا ہے تو پورا جسم تڑپ اٹھتا ہے اسی طرح کسی مومن کو تکلیف پہنچتی ہے تو دوسرا مومن بھی اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے۔