Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, April 4, 2019

پاکستان۔۔سمندر ساحل پر 34 فٹ لمبی وہیل مچھلی مردہ حالت میں ملی۔

صدائے وقت/ ذرائع۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ساحلی ضلع گوادر میں حکام کے نے تصدیق کی ہے کہ ضلع کے مغربی ساحل سے ایک عظیم الجثہ وہیل مچھلی مردہ حالات میں ملی ہے۔

گوادر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر برائے ماحولیات و میرین بیالوجسٹ عبد الرحیم کے حوالے سے بتایا کہ یہ برائیڈس نسل سے تعلق رکھنے والی وہیل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کی لمبائی 34 فٹ جبکہ وزن دس ٹن کے لگ بھگ ہے۔
وہیل کی ہلاکت کی ممکنہ وجہ کے بارے میں جی ڈی اے کے اہلکار کا کہنا تھا کہ اس کی دو سے تین وجوہات ہوسکتی ہیں جن کے بارے میں تحقیقات جاری ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ان مچھلیوں کی ہلاکت کی ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ ممنوعہ جالوں میں پھنس کر زخمی ہونے کی وجہ سے مرجاتی ہیں۔

دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ بڑے جہازوں سے ٹکرانے کے باعث زخمی ہو کر ہلاک ہو جاتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہیل مچھلیاں ایکو ساؤنڈ کی مدد سے سمندر میں چلتی ہیں۔ جب بڑے جہازوں اور ٹرالروں کا ادھر سے گزر ہو تو ان کے انجن سے نکلنے والی بھاری آواز سے ان کا ایکو ساؤنڈ سسٹم متاثر ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے راستے سے بھٹک کر ان جہازوں سے ٹکرا کر زخمی ہو جاتی ہیں جو ان کی موت کا باعث بنتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ان کی ہلاکت کی تیسری وجہ آلودگی ہوتی ہے۔ ’جب سمندر کا پانی گندا ہوتا ہے تو اس کی وجہ سے اور اس سے متاثرہ چھوٹی مچھلیوں کو کھانے کے باعث وہ ہلاک ہوتی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جو وہیل مچھلی مردہ حالت میں ملی ہے اس کے جسم پر زخم ہیں۔
عبدالرحیم بلوچ نے بتایا کہ وہیل مچھلی کی ہلاکت کے بارے میں ان تمام پہلوؤں کو دیکھا جارہا ہے تاہم اس کے جسم پر موجود زخم سے بظاہر یہ لگتا ہے کہ یہ کسی بڑے جہاز سے ٹکرائی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کو ٹھکانے لگانے کے لیے فی الحال اسے ریت میں دبا دیا گیا ہے۔
’چونکہ باہر پڑے رہنے سے اس سے بہت زیادہ بدبو پھیلتی ہے اس لیے ماحول کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے اسے ریت میں دفن کیا گیا ہے۔ ایک ماہ میں جب اس کا گوشت اور چربی گل جائیں گے تو اس کی ہڈیوں کو نکالاجائے گا۔
جی ڈی اے کے اہلکار نے بتایا کہ وہیل مچھلی کی ہڈیوں کو گوادر میں موجود میوزیم میں رکھا جائے گا یا پھر ریسرچ کے لیے کسی یونیورسٹی کے حوالے کیا جائے گا