Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, April 1, 2019

ڈائری لکھنے کے فوائد۔۔!!!!



*محمد بشارت نواز*
معاون مدیر:ماہنامہ النخیل/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
انسانی طبیعت فطری طور پر پسند کرتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کے حالات و واقعات اور مشاہدات کو یاد رکھے اور حسبِ موقع ان سے سبق حاصل کرے۔ ان حالات و واقعات اور مشاہدات کو یاد رکھنے اور محفوظ کرنے کا سب سے اہم ذریعہ اس کو کاغذ پر اتار لینا ہے۔ جسے روزنامچہ یا ڈائری لکھنا کہتے ہیں ۔ ڈائری لکھنے کا معمول صدیوں پرانا ہے۔ تسلسل کے ساتھ ڈائری لکھنا بے حد ’’مفید" عمل ہے۔ اس کی افادیت کی بنا پر دنیا کے کامیاب لوگوں نے اسے اپنے معمولات کا حصہ بنایا ہے۔
روزنامچہ یا ڈائری عمومًا تفکر، افکار اور معاملات کے تاریخ وار لکھنے کے لیے ہی استعمال میں آتی رہی ہے۔ صدیوں پہلے لکھے گئے بہت سارے روزنامچے آج بھی بڑے شوق سے پڑھے جاتے ہیں ۔ یہ حیرت انگیز امر ہے ڈائری لکھنے والے مرد ہوتے ہیں ۔ پھر بھی دنیا میں جو مشہور روزنامچے ہوئے ہیں ، ان میں لکھنے والی عورتیں بھی ہیں ۔ ان میں ’’ڈوروتھی ورڈسورتھ" اور ’’ورجینیا وولف‘‘ بہت مشہور ہوئی ہیں ۔ اسی طرح یورپ کی ایک بڑی لکھاری ’’این فرینک‘‘مانی جاتی ہیں ۔ اس یہودی جوان لڑکی کو نیدرلینڈ پر نازی قبضے کے درمیان دو سال تک چھپے رہنا پڑا۔ اس کے بعد اس کے خاندان کو جرمن خفیہ پولیس گیسٹاپو نے پکڑ لیا اور ان کو پولینڈ میں موجود کانسنٹریشن کیمپ میں بھیج دیا۔ وہاں این کی ماں مر گئی۔ بعد میں اس کی بہن اور این دونوں ٹائیفائڈ سے مر گئیں ۔ جب جرمن ہٹے اور روسیوں نے اس علاقے کو قبضے میں لیا، تب این کی ڈائری ملی۔ اس کتاب کو ’’دی ڈائری آف اے ینگ گرل‘‘کے عنوان سے چھاپا گیا اور اس کا پچاسوں زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے۔ اس روزنامچے کوسب سے زیادہ مقبول ڈائریوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
ڈائری لکھنے کے کئی فوائد ہیں جنہیں نمبروار ذکر کیا جاتا ہے:
پہلا فائدہ: ڈائری لکھنے کا ایک بڑا فائدہ اپنا احتساب کرنا ہے۔ احتساب جسے’’محاسبۂ نفس‘‘ بھی کہتے ہیں ۔ یہ ہی وہ میزان ہے جس کی روشنی میں ایک بندۂ مومن اپنی زندگی کو سنوار سکتا ہے۔ کیوں کہ محاسبہ کے بعد ہی اسے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ زندگی کے کس موڑ پر کھڑا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:اپنا محاسبہ کرو اس سے پہلے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے۔ اپنا وزن کرو اس سے پہلے کہ تمہارے اعمال کا وزن کیا جائے اور قیامت کے دن بڑی پیشی کے لئے تیار ہو جاؤ جس دن کوئی چھپنے والا تم میں سے کوئی چھپ نہیں سکے گا۔
دوسرا فائدہ: ڈائری لکھنے سے انسان کا ماضی گم نہیں ہوتا۔ بچپن یا ابتداءِ جوانی سے ڈائری لکھنے کا معمول بن جائے تو ابتدائی عمر کی لکھی گئی باتیں آخری عمر میں بھی ملاحظہ کی جائیں تو ڈائری واپس بچپن میں پہنچا دیتی ہے، اور اگر’’آپ بیتی‘‘ لکھنے کا موقع آئے تو یہ ڈائری بھرپور معاونت کرتی ہے۔ اکابر کی’’آپ بیتیوں ‘‘ میں ڈائری وغیرہ کا ذکر ضرور ملتا ہے۔ اسی طرح اگر سفر میں ڈائری، روزنامچہ کا معمول رہے تو سفرنامہ مرتب کرنے میں ڈائری ممد اور معاون ثابت ہوتی ہے۔ اس کا اندازہ سفرناموں کے مطالعہ سے ہوتا ہے۔ مولانا رفیع الدین مراد آبادی جو حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے ممتاز شاگردوں میں شامل ہیں انہوں نے 1202 ھ میں حرمین کا سفر کیا۔ واپسی پر تاریخ کے ساتھ ہر دن کے معمولات کو، حتی کہ بظاہر چھوٹی چھوٹی عام سمجھی جانے والی باتیں بھی ذکر کیں کہ انہیں بغیر ڈائری کے لکھنا شاید ممکن ہی نہیں ۔ اسی طرح کئی سفرنامے ایسے بھی ہیں جنہیں سفر کے کئی سال بعد صرف ڈائری کی مدد سے لکھا گیا۔
تیسرا فائدہ: اپنے اندر آنے والی تبدیلیوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ ہماری زندگی میں کئی واقعات رونما ہوتے ہیں جن کے ہمارے ذہن پر اثرات مرتب ہوتے ہیں اور کچھ عرصے بعد ہمارا ذہن ایک مختلف سانچے میں ڈھل جاتا ہے جس کا ہمیں خود بھی احساس نہیں ہوتا۔ اگر روز کے احوال لکھے جائیں اور کچھ عرصہ بعد ان مسودات کو دیکھا جائے تو ہم خود بھی حیران رہ جائیں گے کہ ہم میں کتنی تبدیلی آچکی ہے۔
چوتھا فائدہ: بیسیوں سال پہلے لکھی گئی ڈائری تاریخی اعتبار سے مستند راوی کا درجہ اختیار کر لیتی ہے۔ وہ روایت ایک فرد کے بارے میں بھی ہو سکتی ہے اور ایک معاشرے کے بارے میں بھی۔ اہم واقعہ کے بارے میں بھی ہو سکتی ہے اور کسی سانحے کے متعلق بھی۔ اسی طرح اہلِ علم کی ڈائریاں حسین یادوں کے قیمتی موتیوں کو رلنے سے بچا لیتی ہیں ۔ اس کی ایک بڑی مثال شیخ الحدیث حضرت مولانا سمیع الحق صاحب شہید رحمہ اللہ کی ذاتی ڈائری جس کا سلسلہ آج سے ستر، اسی سال پہلے شروع ہوا تھا۔ اس میں روزانہ کی بنیاد پر لکھی گئی باتیں انتہائی قیمتی ہیرے ہیں ۔ اس کا تعارف کراتے ہوئے ان کے بھتیجے لکھتے ہیں :
’’عم محترم حضرت مولانا سمیع الحق صاحب دامت برکاتہم آٹھ نو سال کی نوعمری سے معمولات کی ڈائری لکھنے کے عادی تھے۔ ان ڈائریوں میں آپ اپنے ذاتی اور عظیم والد شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق ؒ کے معمولات شب و روز اور اسفار کے علاوہ اعزّہ و اقارب ، اہل محلہ و گردوپیش اورملکی و بین الاقوامی سطح پر رونما ہونے والے احوال و واقعات درج فرماتے۔ آپکی اولین ڈائری ۱۹۴۹ء کی لکھی ہوئی ہے۔جس سے آپ کا ذوق اورعلمی شغف بچپن سے عیاں ہوتا ہے۔ احقر نے جب ان ڈائریوں پر سرسری نگاہ ڈالی تو معلوم ہوا کہ جابجا دوران مطالعہ کوئی عجیب واقعہ ،تحقیقی عبارت ، علمی لطیفہ، مطلب خیز شعر ، ادبی نکتہ، اور تاریخی عجوبہ آپ نے دیکھا تو اسے ڈائری میں محفوظ کرلیا۔ اس پر دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ مطالعہ کے اس نچوڑ اور سینکڑوں رسائل اور ہزارہاصفحات کے عطر کشید کو قارئین کے سامنے پیش کیا جائے جس سے آئندہ آنے والی نسلیں اور اسیرانِ ذوقِ مطالعہ استفادہ کرسکیں ۔تاہم یہ واضح رہے کہ نہ تو یہ مستقل کوئی تالیف ہے اور نہ ہی شائع کرنے کے خیال سے اسے مرتب کیا گیا ہے ۔ اسلئے ان میں اسلوب کی یکسانیت اور موضوعاتی ربط پایا جانا ضروری نہیں ۔ ‘‘
پانچواں فائدہ: مستقل ڈائری لکھنے والے کی تحریری صلاحیتوں میں دن بدن نکھار آتا چلا جاتا ہے۔ مستقل ڈائری لکھنے والے کے لیے آئندہ زندگی میں تحریری میدان کے اندر کامیابیوں کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں ۔ صرف لکھنے کا طریقہ ہی نہیں بلکہ لکھنے کی وجہ سے مطالعہ کا شوق بھی پیدا ہوتا ہے۔ مطالعہ کے ذریعے آدمی کی فکر اور سوچ کا دائرہ وسیع ہوتا ہے، دماغی صلاحیتیں جلا پاتی ہیں ۔ اگر غور کیا جائے تو ڈائری لکھنے کے اور بھی بہت سارے فوائد ہیں ۔ گزرتے دور کے ساتھ جو چیزیں انحطاط کا شکار ہوئیں ان میں سے ایک ڈائری لکھنا بھی ہے۔ آج کل کی مصروف زندگی میں روزنامچہ لکھنا ایک امر محال بن چکا ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو اس روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہو۔ ان فوائد کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں ڈائری لکھنے کی عادت بنانی چاہیے۔
ڈائری لکھنے کا طریقہ: ڈائری لکھنا جتنا مفید ہے اتنا ہی ’’ہمت طلب‘‘ بھی ہے۔ ڈائری لکھنے کے لیے تسلسل اور مستقل مزاجی ضروری ہے۔ اور محض روزمرہ معمولات کو ہی صفحہ قرطاس پر منتقل کرنا ڈائری کا مقصدِ وحید نہیں ہوتا، بلکہ ان کے علاوہ کچھ دیگر چیزوں کو بھی پیشِ نظر رکھا جائے۔ مثال کے طور پرڈائری نویس جس خطے ، جس علاقے میں قیام پذیر ہو اُس کے سیاسی و سماجی اور ادبی پہلو بھی نمایاں ہوں اور دن کے اہم ترین واقعات، مصروفیات اور دیگر حوالوں کوبھی اجمالی انداز میں بیان کیا جائے تاکہ اُس کی پڑھت سے اندازہ لگایا جاسکے کہ ڈائری لکھنے والے نے کسی چیز یا واقعہ کو کس انداز اورکس زاویئے سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح ڈائری لکھنے میں اس بات کا لحاظ ضرور کیا جائے کہ ایسی باتیں لکھنے سے گریز کیا جائے جنہیں دوسرے لوگوں کے سامنے بیان کرنے سے شرمندگی کا احساس ہو کیونکہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ ورق آئندہ کسی دوسرے شخص کے پاس بھی پہنچ سکتے ہیں اور وہ ہمارے والدین بھی ہو سکتے ہیں اور اولاد بھی۔
آج تک ڈائری لکھنے کے لیے کاغذ کا استعمال ہوتا آیا ہے لیکن ہر چیز میں جدت کی طرح ڈائری لکھنے کے طریقوں میں بھی جدت آ گئی ہے۔ ابھی بھی ڈائری لکھنے کے لیے سب سے بہتر چیز کاغذ کی ڈائری ہی ہے لیکن اگر اس میں کسی کے لیے مشکل ہو تو اینڈرائیڈ موبائل کے لیے پلے اسٹور سے ڈائری کے نام سے ایپ بھی مل جاتی ہیں ، جن میں ڈائری لکھی جا سکتی ہے اور اس میں اپنا ای میل ایڈریس سیٹ کرنے سے اس میں لکھی گئی تحریر کا بیک اپ بھی بن جاتا ہے جس سے موبائل گم یا تبدیل ہونے کی صورت میں لکھی گئی ڈائری ضائع نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ کئی ویب سائٹ بھی موجود ہیں جہاں ہر روز ڈائری لکھنے کی سہولت موجود ہے اور ڈائری نہ لکھنے کی صورت میں یادہانی کے لیے ای میل بھی آ جاتی ہے لیکن اس جدید نظام میں ’’پرائیویسی‘‘باقی نہیں رہتی۔ ڈائری کا سب سے بہترین طریقہ تو وہی متوارث، کاغذ پر لکھنے والا طریقہ ’’ہی‘‘ہے۔
مولانا ابن الحسن عباسی اس دور کے ادیبوں اور اعلیٰ نثر نگاروں میں ہیں
ان کی تحریروں سے میں نے بہت استفادہ کیا ہے،ایک اک جملے پر غائرانہ نظر ڈال کر انہیں اپنی زبانوں میں استعمال کیا ہے۔شیخوپور کے زمانے میں ان کے مضامین کا پہلا مجموعہ شائع ہوا تھا جس کا نام تھا’’التجائے مسافر‘‘ حاجی بابو اور مولانا اعظمی کے تعلقات کی وجہ سے تقریباً ہر سال پڑوسی ملک سے کتابیں آتیں اور طلباء میں تقسیم ہوتیں اور دوسری کتابیں بھی مولانا اظہار قاسمی کے پاس برائے فروخت آتیں تو پڑھنے کا موقع مل جایا کرتا تھا۔یہ کتاب بھی اسی وقت پڑھا تھا،اس کے مضامین ذہن پر نقش ہوکر رہ گئے۔اس کے بعد ابن الحسن عباسی صاحب کی جس قدر تصنیفات مل سکیں ،پڑھ ڈالی۔وہ ہیں بھی کتنی…لیکن جو بھی ہیں اپنی خوبصورتی،رعنائی،شگفتگی اور دلآویزی کی وجہ سے ادبی صنف میں نثری شہ پاروں کے تاروں میں مہتاب کی حیثیت رکھتی ہیں کہ آدمی جب ان کا مطالعہ کرتاہے تو وہ کبھی خود کو شورش کی محفل میں تصور کرتاہے،کبھی عامر عثمانی کے جہاں میں …کبھی اسے وہ تحریریں آزاد کی وادیاں معلوم ہوتی ہیں کبھی حالی وشبلی کے دبستان صد رنگ کی پر کیف فضا…کبھی ماہر القادری کا بانکپن محسوس ہوتاہے تو کبھی دریابادی کے مخصوص لہجہ واسلوب کا چمن زار دلنواز۔غرض انہوں نے تمام صف اول کے ادیبوں کے امتیازی اوصاف کو اپنی تحریروں میں نچوڑ کر ایک نئے اسلوب کی دریافت کی ہے،اور اس انفرادیت کا نقش قائم کرنے میں وہ اس قدر کامیاب ہیں کہ اچھے اچھے شہرت یافتہ ادیب وانشا پرداز ان کے اسلوب پر عش عش کرتے ہیں ۔
ان کی تحریروں میں بھاری بھرکم الفاظ نہیں ہوتے ہیں ،آزاد کی طرح پرشکوہ تعبیرات نہیں ہوتی ہیں ، بلکہ وہ اپنے افکار و خیالات کو لفظوں کاوہی لباس عطا کرتے ہیں جو اپنی ذات میں بالکل سادہ ہوتے ہیں مگر جب وہ آپ کے جملوں میں داخل ہوتے ہیں تو انگوٹھی میں نگینے کی طرح چمکنے لگتے ہیں ۔قاری پہلی ہی نظر میں تحریر کی شگفتگی میں قید ہوجاتاہے اور دریا کی طرح لفظوں کی موجوں میں بہتا چلا جاتا ہے، اور مطالعے کے سفر کے اختتام کے بعد یہ راز کھلتا ہے کہ قاری ہمیشہ کے لیے ان کے ساحرانہ اسلوب اور دلنشین طرزادا میں مسحور وگرفتار ہو چکاہے۔
(شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی،ممبئی انڈیا)
.