Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, April 17, 2019

شب براٙت احادیث بنویہ و اکابر امت کی نظر میں


  تحریر : عاصم طاہر اعظمی ۔صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 

حق تعالیٰ جل مجدہ نے بعض چیزوں کو بعض چیزوں پر فضیلت سے نوازا ہے جیسا کہ مدینہ منورہ کو تمام شہروں پر فضیلت حاصل ہے، وادئ مکہ کو تمام وادیوں پر، بئرِ زمزم کو تمام کنوؤں پر، مسجدِ حرام کو تمام مساجد پر، سفرِ معراج کو تمام سفروں پر، ایک مؤمن کو تمام انسانوں پر، ایک ولی کو تمام مؤمنوں پر، صحابی کو تمام ولیوں پر، نبی کو تمام صحابہ پر، اور رسول کو تمام نبیوں پر اور رسولوں میں تاجدارِ مدینہ سرور کائنات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاص فضیلت اور مقام و مرتبہ پر فائز ہے اور بقول شاعر: بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
حق تعالیٰ جل مجدہ نے اسی طرح بعض دنوں کو بعض پرفضیلت دی ہے، یومِ جمعہ کو ہفتہ کے تمام ایام پر، ماہِ رمضان کو تمام مہینوں پر، قبولیت کی ساعت کو تمام ساعتوں پر، لیلۃ القدر کو تمام راتوں پر اور شب برات کو دیگر راتوں پر۔
احادیثِ مبارکہ سے اس بابرکت رات کی جو فضیلت و خصوصیت ثابت ہے اس سے مسلمانوں کے اندر اس رات اتباع و اطاعت اور کثرتِ عبادت کا ذوق و شوق پیدا کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔
*شبِ برأت کی وجہ تسمیہ*
احادیث مبارکہ میں ’’لیلۃ النصف من شعبان‘‘ یعنی شعبان کی 15 ویں رات کو شب برات قرار دیا گیا ہے۔ اس رات کو براۃ سے اس وجہ سے تعبیر کیا جاتا ہے کہ اس رات عبادت کرنے سے اللہ تعالیٰ انسان کو اپنی رحمت سے دوزخ کے عذاب سے چھٹکارا اور نجات عطا کر دیتا ہے، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا :
إِذَا کَانَ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ يَنْزِلُ اﷲُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی إِلَی سَمَاءِ الدُّنْيَا فَيَغْفِرُ لِعِبَادِهِ إِلَّا مَا کَانَ مِنْ مُشْرِکٍ أَوْ مُشَاحِنٍ لِأَخِيْهِ.
’’جب ماہِ شعبان کی پندرہویں رات ہوتی ہے تو اﷲ تبارک وتعالی آسمانِ دنیا پر (اپنے حسب حال) نزول فرماتا ہے پس وہ مشرک اور اپنے بھائی سے عداوت رکھنے والے کے سوا اپنے سارے بندوں کی بخشش فرما دیتا ہے۔‘‘
بزاراپنی المسند، 1: 206، رقم: 80 میں اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ہم اس حدیث کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی صرف اسی طریق سے جانتے ہیں اور یہ حدیث حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے علاوہ دیگر صحابہ سے بھی مروی ہے۔ سب سے اعلیٰ اسناد سے حضرت ابو بکر روایت کرتے ہیں اگرچہ اس اسناد میں کچھ ہو، پس ابوبکر کی جلالت نے اسے حسین بنا دیا ہے۔ اگرچہ عبد الملک بن عبدالملک معروف راوی نہیں ہے،
مزید فرماتے ہیں:
’’اہلِ علم نے اس حدیث کو روایت کیا ہے، نقل کیا ہے اور اس پر اعتماد کیا ہے لہٰذا ہم نے اس کو ذکر کیا۔‘‘
٭ امام ابوبکر احمد بن عمرو المعروف بزار کی تاریخِ وفات 292ھ ہے۔ ان کے اس قول سے معلوم ہوا کہ شعبان کی پندرہویں شب کی فضیلت و خصوصیت تسلیم کرنا اور اس کو بیان کرنا اہل علم کا ابتدائی اَدوار سے طریقہ رہا ہے۔ لہٰذا موجودہ دور میں کوئی شخص بھی اگر شبِ برأت کی غیر معمولی فضیلت کا انکار کرتا ہے تو درحقیقت وہ احادیث مبارکہ اور سلف صالحین کے عمل سے ناواقفیت کی بناء پر ایسا کر رہا ہوتا ہے۔
حضرت علی کرم اﷲ وجہہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا کَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَقُومُوا لَيْلَهَا وَصُومُوا نَهَارَهَا فَإِنَّ اﷲَ يَنْزِلُ فِيهَا لِغُرُوبِ الشَّمْسِ إِلَی سَمَاءِ الدُّنْيَا فَيَقُولُ: أَلَا مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِي فَأَغْفِرَ لَهُ؟ أَلَا مُسْتَرْزِقٌ فَأَرْزُقَهُ؟ أَلَا مُبْتَلًی فَأُعَافِيَهُ؟ أَلَا کَذَا؟ أَلَا کَذَا؟ حَتَّی يَطْلُعَ الْفَجْرُ.
’’جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو تم اس کی رات کو قیام کیا کرو اور اس کے دن روزہ رکھا کرو، بے شک اﷲ تعالیٰ اس رات اپنے حسبِ حال غروب آفتاب کے وقت آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے تو وہ کہتا ہے: کیا کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا نہیں ہے کہ میں اسے بخش دوں؟ کوئی رزق طلب کرنے والا نہیں ہے کہ میں اسے رزق دوں؟ کوئی بیماری میں مبتلا تو نہیں ہے کہ میں اسے عافیت دوں؟ کیا کوئی ایسا نہیں؟ کیا کوئی ویسا نہیں؟ یہاں تک کہ طلوعِ فجر ہو جاتی ہے۔‘‘
(ابن ماجه، السنن، 1: 444، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء فی ليلة النصف من شعبان، رقم: 1388،
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (بستر مبارک پر) نہ پایا پس میں آپ کی تلاش میں باہر نکلی تو دیکھا کہ آپ آسمان کی طرف اپنا سر اٹھائے ہوئے جنت البقیع میں تشریف فرما ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تجھے ڈر ہوا کہ اللہ اور اس کا رسول تجھ پر ظلم کرے گا؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے گمان ہوا کہ آپ کسی دوسری زوجہ کے ہاں تشریف لے گئے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ اﷲَ عَزَّ وَجَلَّ يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَی السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَيَغْفِرُ لِأَکْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعَرِ غَنَمِ کَلْبٍ.
’’یقینا اللہ تبارک و تعالیٰ (اپنی شان کے لائق) شعبان کی پندرہویں رات آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے، پس وہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کو بخش دیتا ہے۔‘‘
(احمد بن حنبل، المسند، 6 : 238)
*شب برأت کے بارے میں اکابر امت کے اقوال*
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے شاگرد ابن رجب حنبلی فرماتے ہیں کہ شام کے مشہور تابعی خالد بن لقمان رحمہ اللہ وغیرہ اس رات کی بڑی تعظیم کرتے اور اس رات میں خوب عبادت کرتے :لطائف المعارف :144)
علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شعبان کی پندرہویں رات کو بیدار رہنا مستحب ہے :البحرالرائق :2 /52
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس رات کو بیدار رہنا مستحب ہے اورفضائل میں اس جیسی احادیث پر عمل کیا جاتا ہے اور یہی امام اوزاعی کا بھی قول ہے:ماثبت بالسنہ 360)
علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ بیشک یہ رات شب برأت ہے اور اس رات کی فضیلت کے سلسلے میں روایات صحیح ہیں :العرف الشذی :156)
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شب برأت کی اتنی اصل ہے کہ پندرہویں رات اور پندرہواں دن اس مہینے کا بزرگی اور برکت والا ہے :بہشتی زیور، چھٹا حصہ /60
اسی طرح ماضی قریب کے علماء میں اعظم گڑھ کے مشہور قصبہ مبارک پور کے اندر شارح ترمذی مولانا عبدالرحمن اہل حدیث مبارک پوری گزرے ہیں جنہوں نے اس سلسلے میں پوری تفصیل واضح طور پر بیان کیا ہے انہوں نے ترمذی شریف کی اس روایت کی شرح کی ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے بیان کیا ہے جس کا ذکر ابھی گزرا ہے لکھتے ہیں کہ
یہ بات یاد رکھ کر لو کہ لیلة النصف من شعبان کے بارے میں اوراسی کی فضیلت کے بارے میں متعدد روایات حدیث میں موجود ہیں جن کا مجموعہ یہ بتاتا ہے کہ اس کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور موجود ہے اور اس کے بعد مولانا مرحوم نے متعدد روایات کو ذکر کیا ہے اور آخر میں اپنا فیصلہ یوں سناتے ہیں کہ تمام کی تمام روایات جن کا مجموعہ ایسے لوگوں کے خلاف حجت ہے جن کا یہ گمان ہے کہ لیلة النصف من شعبان کے بارے میں کوئی فضیلت یا کوئی اصل موجود نہیں ہے مولانا مرحوم نے اس کی فضیلت کو صاف لفظوں میں بیان کیا ہے
*شب برأت میں کرنے کے کام*
آخر میں میں اس مبارک رات میں کرنے والے کیا کام ہیں؟ ان کا ذکر کیا جاتا ہے تاکہ افراط و تفریط سے بچتے ہوئے اس رات کے فضائل کو سمیٹا جائے
(1) نماز عشاء اور نماز فجر کو باجماعت ادا کرنا
(2) اس رات میں عبادت کی توفیق ہو یا نہ ہو پر گناہوں سے بچنے کا اہتمام کرنا بالخصوص ان گناہوں سے جو اس رات کے فضائل سے محرومی کا سبب بنتے ہیں
(3) اس رات میں توبہ واستغفار کا خاص اہتمام کرنا اور ہر قسم کی رسومات سے اور بدعات سے اجتناب کرنا
(4) اپنے لیے اور پوری امت کے لیے ہر قسم کی خیر کے حصول کی دعا کرنا
(5) بقدر وسعت ذکر اذکار، نوافل اور قرآن کا اہتمام کرنا
(5) اگر بآسانی ممکن ہو تو پندرہ شعبان کا روزہ رکھنا،
واضح رہے کہ مذکورہ تمام اعمال شب برات کا لازمی حصہ نہیں، بلکہ ان کا ذکر اس لیے ہے کہ ان میں مشغولی کی وجہ سے اس رات کی منکرات سے بچا جاسکے

حق تعالیٰ جل مجدہ  امت مسلمہ کو اس رات کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمیــــن