Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, April 21, 2019

ایک تاریخی حقیقت!!!چنگیزخان بمقابلہ جلال الدین(شیر خوارزم ترک)۔

تحریر/ محمد رفیق مینگل۔/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
تاریخ میں جب بھی ظلم و جبر کی داستانیں پڑھیں جائیں گی چنگیز خان کا نام انہی ظالموں کے ساتھ لیا جائے گا۔ بلکہ مورخ علامہ ابن اثیر جب چنگیز خان اور ہلاکوخان کے ظلم بیان کرتے تو بے اختیار رو پڑتے اور کہتے کہ کاش میں یہ دیکھنے اور سننے کے لئے پیدا نہ ہوتا 
۔
چنگیز خان ___
چنگیز خان کا اصل نام تمو جن تھا جس کے معنی لوہار کے ہیں ۔ چنگیز کے بزرگ لوہے کا کام کرتے تھے اور اسلحہ بناتے تھے جن میں کلہاڑی۔ تلوار خنجر وغیرہ تھے۔ چنگیز خان 529ھ 1154ء میں ایرق نامی علاقہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا علاقہ "خطا" پہاڑوں میں گھرا ہوا ایک شاداب وادی تھا۔ جس کے درمیان میں ایک پانی کا چشمہ تھا۔ اس شاداب وادی سے نکلنے کا واحد راستہ درہ تھا  جس پر التون خان نامی سردار کے لوگوں کا قبضہ تھا۔
چنگیز خان کا شجرہ
چنگیز خان

نسب یوں ہے۔۔
چنگیز خان تموجن بن یسوکا بہادر بن برکان بن تویلا خان بن قبل خان بن تومنہ خان بن قادو خان بن تومین خان بن بوقا خان بن جوزخر بن انقوا۔
چنگیز خان کی عمر تیرہ سال تھی جب اسکے باپ کو کسی سازش کے تحت قتل کردیا اور چنگیز خان پر دشمنوں نے ظلم ڈھائے ۔ چنگیز خان نے دشمنوں سے یہ کہا کہ میں بڑا ہوکر تم سب سے اپنا بدلہ لوں گا منگولوں قبائلی اصولوں کے تحت وہ نابالغ کو قتل نہیں کرتے تھے دشمنوں نے چنگیز خان کو اسکے علاقے سے باہر بیڑیاں پہنا کر پھینک دیا لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا اسے کسی وفادار نے بیڑیوں سے آزاد کردیا چنگیز خان جب واپس آیا تو اسں نے خیمہ اور گاؤں جلا ہو پایا اسکی ماں اولون اسکا بھائی قسار اور اور چند وفادار ساتھی پیچھے رہ گئے۔
وقت تیزی گزرنے لگا چنگیز خان اپنے شباب کو پہنچا اس نے اپنے دشمنوں سے بدلہ لینے کے لئے پہاڑی دروں کا انتخاب کیا ۔ دشمن اسے بہت محنت کے بعد نہ پکڑ سکے اکثر منگولوں مغول قبائل یہ دیکھ کر تموجن کے گرویدہ ہوگئے اور بہت سے بکھرے ہوئے قبائل کو یکجا کیا ۔
مغل منگول اور ترک میں فرق۔۔۔
تاتاریوں کا تعلق ترک قوم سے ہے ترک سب کے سب کومر بن یافث بن نوح کی اولاد ہیں انکا ذکر تورات میں بھی کیا گیا ہے۔ ترک قبائل میں مختلف قبائل ہیں جو یہ ہیں۔
ترکان غز اوغوز ۔ ہیاطلہ ، خلجی۔ انکا علاقہ سمر قند کے قریبی علاقہ صغد ہے اسکے علاؤہ خطا اور طغرغر بھی ترک میں شامل ہیں جو دراصل تاتاری ہی ہیں کیوں کہ یہ قبائل طغماج  نامی علاقے میں رہا کرتے تھے۔ یہ علاقہ ترکستان ، کاشغر ، اور اس پاس ماوراء النہر کا علاقہ ہے۔ اسکے علاؤہ خزلخیہ ، غور ، خزر ، خشاخ قبائل کو بھی ترک میں شمار کیا جاتا ہے۔
مغل قبائل۔ قفچاق ، ایغور ۔ قاچار، جلائر ، ارلات، وغلات ۔ فنطر، سلدوز ۔ رغون ۔ قوچین ۔ ترخانی ۔ طغائی ۔ وغیرہ
مغول و تاتار دو بھائی تھے مغول کی نسل میں چنگیز خان ہے جبکہ تاتاریوں کی نسل سے ترک ہیں لیکن اوغوز ترک سمرقند اور ترکستان کے نواح آباد تھے انکا رہن سہن بالکل عربوں کی طرح تھا وہ خانہ بدوش تھے ۔ تاتاری چنگیز خان کے دور سے پہلے مغلوں کو انکے علاقوں سے باہر آنے نہیں دیتے تھے اس معلوم ہوتا ہے کہ تاتاری باشندے مغلوں سے کئی گنا زیادہ جنگجو تھے۔
مغلان چنگیز کے مذہبی عقائد۔۔
منگولیا کے اکثر لوگ جو مشرقی حصے میں رہائش پذیر تھے وہ بدھ مت بن گئے جو مغربی حصے میں۔ تھے وہ کسی بھی مذہبی تعلیمات سے ناواقف تھے اسی لئے انکے نزدیک خدا کا تصور موجود تھا وہ کہتے تھے اس آسمان کا خدا ایک ہے ۔ وہ سخت طوفانی بارشوں اور آسمانی بجلی سے ڈرتے تھے۔ انکے نزدیک جنگ کرنا خون بہانا یعنی زندہ رہنے کے لیے زندوں کو ماردینا زندگی گزارنے کا طریقہ تھا۔
جب چنگیز خان اپنے علاقے کا سردار بعدازں منگولیا کا حکمران بنا تو اسکے مشرق میں چین اور مغرب میں عظیم الشان سلطنت اسلام تھا جس سے وہ ہمیشہ خائف رہتا تھا ۔ چنگیز خان نے چین کو تین دفعہ فتح کیا ۔ لیکن اسلامی ممالک کیساتھ پرامن تعلقات کا خواہاں تھا ۔
چنگیز خان کا خورازم شاہ پر حملہ اور  وجوہات۔۔۔
علاؤالدین محمد جو اس وقت خوارزم کا سلطان تھا اسکے دل میں چین کو فتح کرنے کا خیال پیدا ہوا چنانچہ ترکستان میں پہلے سے ہی مسلمان موجود تھے اور اسلامی سلطنت کا حصہ شمار کیا جاتا تھا۔ اسی لئے منگولیا اور بعد میں چین تک پہنچنے کا ارداہ رکھتا تھا منگولیا، ترکستان اور قازقستان میں اس دور میں گھوڑوں کی کثرت تھی بلکہ انہی علاقوں کو ارض الخیل یعنی گھوڑوں کی سرزمینوں بھی کہتے تھے۔ علاؤ الدین محمد خوارزم شاہ نے منگولیا اور چین کے حالات معلوم کرنے کے لئے چنگیز خان کو بیش قیمتی تحائف بھیجے۔ چنگیز خان کو جب معلوم ہوا تو اس نے خوش ہوکر سفیروں کا استقبال کیا اور بہت قدر کی۔ اس خوشی میں کہ دنیا کے سب سے بڑی سلطنت کے سفیر اسکے پاس آئے ہیں اپنے دشمن التون خان اور اسکا بھائی جو اس وقت اسکے قید میں تھا ۔ ان کو بلوا کر سفیروں سے ملوایا اور فخریہ انداز میں کہا کہ مجھ سے ملنے عظیم الشان سلطنت کے سفیر ملنے آئے ہیں۔ چنگیز خان نے عزت افزائی کے جواب میں سفیروں کیساتھ سو گھوڑوں کا ایک قافلہ بھی روانہ کیا تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کو فروغ دیا جاسکے۔
تجارتی قافلہ جب ترار کے علاقے میں جو مسلمانوں کا علاقہ تھا داخل ہوئے تو قدر خان گورنر تھا اسکی نیت خراب ہوگئی اور قافلے والوں پر الزام لگایا کہ وہ خفیہ راز معلوم کرنے کے لیے آئے ہیں اور قابلِ قتل ہیں ۔ علاؤالدین محمد کی یا تو یہ غلطی تھی یا بے وقوفی اس نے بھی قتل کرنے کا حکم صادر کیا۔ جب تمام سفیروں کو قتل کیا جارہا تھا تو ایک خوش قسمتی سے حمام میں تھا جو بچ گیا ۔ وہ سفیر چنگیز خان کے پاس پہنچ گیا اور مسلمانوں کے مظالم بتائیں صرف ایک شخص کی وجہ سے مسلمانوں پر منگولیا کے سیاہ بادل چھانٹ والے تھے ۔ چنگیز خان نے فوراً فوجیں جمع کی جس میں مغل تاتاریوں کی بڑی تعداد موجود تھی ۔ جس کی تعداد ساتھ لاکھ کے قریب تھی۔
چنگیز خان ترار پہنچ کر تمام ابادی جو قتل کردیا ۔ اس قتل و غارتگری پر سلطان علاؤالدین محمد کا ہبیت طاری ہوگیا فوج کو مختلف علاقوں میں پھیلا دیا۔ چنگیز خان کیساتھ اسکے چاروں بیٹے تھے ۔ جوجی خان۔ اوکتائ خان، چغتائی خان ۔تولی خان ۔ مغلوں کے اس حملے کا سن کر خورازم شاہ نے ساٹھ ہزار فوج حاکم ترار کی مدد کے لیے روانہ کیں اور تیس ہزار سوار بخارا کی طرف بھیجے۔
پھر 1216ء میں چنگیز خان سمرقند اور بخارا کی طرف روانہ ہوا بخارا کا محاصرہ کرلیا ، اہل بخارا نے چنگیز خان سے امان مانگی چنگیز خان امان دے دی چنگیز خان کے قریبی ساتھی نے چنگیز خان سے کہا کہ انہیں امان کیوں دی آپ نے اس پر چنگیز خان نے کہا۔
انکو میں خوارزم شاہ کے خلاف استعمال کروں گا کیوں کہ یہ خوارزم شاہ سے تنگ ہیں اسکے بعد انکو چن چن کر قتل کردوں گا۔۔
اسکے بعد بالکل ایسا ہی ہوا اہل بخارا نے چنگیز خان کا ساتھ دینے کا اعلان کیا اور قلعے فتح کیے اہل بخارا اسکے ساتھ مل کر لڑے حتی کہ قلعے کو تباہ و برباد کردیا۔ اسکے بعد چنگیز خان نے تمام اہل بخارا کو گھیر لیا اور قتل عام شروع کردیا جو بچ گئے انہوں زور زور سے چیخ کر کہا کہ چنگیز خان نے وعدہ خلافی کی۔ اس پر چنگیز خان نے کہا تم سب کا کیا خیال کہ تم جان بچانے کی خاطر اپنے ملک اور حاکم کیساتھ دھوکہ کر ہمارے ساتھ دھوکہ نہیں کروگے ۔ ہم ہرگز ایسے لوگوں زندہ نہیں



چھوڑتے۔
خورازم شاہ نے اپنی فوج ہمت خود ختم کردی خورازم شاہ بڑی فوج ہونے کے باوجود چنگیز خان سے مقابلہ نہ کیا بلکہ میدان چھوڑ کر بھاگ گیا اور یہ کہتا رہا۔
" ہم پر اتنی بڑی قوم نے حملہ کیا ہے کہ اگر وہ صرف اپنے تازیانے ڈالیں تو سمر قند کی یہ خندق تمام بھر جائے ۔ یہ سن سمر قند کے محافظ لشکر پر مغلوں کی ہیبت طاری ہوگئی۔ جسکی وجہ خوارزم شاہی فوج شکست سے دو چار ہوئی۔
اسکے بعد خورازم شاہ نے اہل عیال کو مع مازندران بھیج دیا ۔
جلال الدّین خوارزم شاہ یہ تمام صورتحال دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے والد سے کہہ دیا کہ ۔
ابا جان آپ اگر عراق جانا چاہتے ہیں شوق سے جائیے لیکن فوج کی کمان مجھے دیجیئے ۔ اسکے بعد علاؤالدین خورازم شاہ نے تمام مراعات اور اپنا قائم مقام جلال الدین کو بنایا ۔ جلال الدین خوارزم شاہ کو خبر ملی کہ تاتاری افواج جوجی خان جو کہ چنگیز خان کے بیٹے تھے کے ساتھ اس طرف آرہی ہے ۔ جلال الدین خورازم شاہ کسی شیر کی طرح انکے انتظار میں گھات لگائے بیٹھ گئے۔
لیکن تاتاریوں اور جوجی خان تک یہ خبر پہنچی کہ جلال الدین خوارزم شاہ ان کے لئے گھات لگائے بیٹھا ہوا ہے ۔ جوجی خان نے لشکر رخ بدل کر جلال الدین خورازم پر پشت کی جانب سے حملہ کردیا تاتاریوں کا لشکر سیلاب کی مانند ترکوں پر حملہ آور ہوئے ۔ اس اچانک حملہ سے ترکوں میں بھگدڑ مچ گئی بہت زخمی ہوئے اور بہت قتل ہوئے ۔ جلال الدین خوارزم بہت دلیری سے لڑے اور بہت سے تاتاریوں کو اکیلے ہی ٹکانے لگایا لیکن تاتاریوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اسی لئے وہ جان بچا کر نکلنے میں کامیاب ہوا۔
سمر قند بخارا کو تخت تاراج کرنے کے بعد چنگیز خان نے خراسان کی طرف پیشقدمی کی اس وقت علاؤالدین خوارزم شاہ نیشاپور میں تھے جب اس تک یہ خبر پہنچی تو نہایت پریشان ہوئے اور عراق کی طرف ایک جزیرے میں پناہ گزین ہوئے اور باعث غم و الم کے دنیا سے رخصت ہوگئے ۔
  617ھ 1220ء میں چنگیز خان قتل عام کرتا ہوا خراسان پہنچا خراسان میں قتل و غارتگری شروع کردی خراسان کے بعد ایران کے علاقوں میں تباہی مچادی خورازم شاہ کے بیٹے جن جن صوبوں میں حاکم تھے ایک ایک کو قتل کردیا ۔ پھر چنگیز خان ہرات پہنچا اور اس قدر خون ریزی کی کے اس طرح کی کہ انسانیت لرز اٹھے۔
جن علاقوں میں کبھی رونقیں اور خوشیوں کا سماں ہوتا تھا وہاں ہو کا عالم تھا جو محلات روشن اور تابناک نظر آتے تھے وہ کھنڈرات ہی رہ گئے جہاں قبل ازیں شاہی محلات اور کتب خانے ہوا کرتے تھے۔
ہرات کی 1٫00٫000  نفوس پر مشتمل آبادی میں سے صرف 40٫000زندہ بچے۔ مشہور بخارا کی مساجد منگولیائی گھوڑوں کے لئے اصطبل بن گئیں ۔
جلال الدین خورازم شاہ جزیرہ میں تھا وہاں سے تبریز آیا تبریز میں انکے بہت سے جاننے والے تھے لہذا انکے لشکر میں شامل ہوگئے ۔  تبریز کے نواح سے نکلتے ہی مغلوں نے جلال الدین خورازم شاہ کو گھیر لیا جلال الدین خورازم جوش انتقام میں تڑپ رہا تھا جب مغلوں کو سامنے پایا تو بھوکے شیر کی مانند حملہ آور ہوا اور مغلوں کو تہہ و بالا کردیا۔ وہاں سے غزنی روانہ ہوا اس دور میں غزنی کے علاقے میں غوری آباد تھے جنہوں نے غزنویوں سے علاقے چھین لئیے تھے۔ جب وہاں پہنچے تو غوریوں اور ترکوں کی ایک بڑی تعداد نے انکی فوج میں شرکت کی۔ اسکے بعد نواح میں مغلوں پر حملہ کردیا اور مغلوں کوشکست دے کر بھگا دیا۔
چنگیز خان تک اطلاع پہنچی کہ علاؤالدین خورازم شاہ کا بڑا بیٹا اسکا جانشین بنا ہے اور اسکی بہادری اور شجاعت کے قصے چنگیز خان تک پہنچنے لگے تو چنگیز خان خاصا پریشان ہوگیا ۔ دوسری طرف جلال الدین خورازم شاہ سمجھ گیا تھا کہ منگولیا کے یہ خون خوار مذہب سے نا آشنا مسلمانوں کے لئے خصوصاً حجاز مقدس کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں انہوں منگولوں کو خورازم اور ایران تک ہی محدود رکھنے کا سوچا۔جلال الدین خورازم شاہ کو اطلاع ملی کہ منگولوں کی فوج اورگنج کی طرف بڑھ رہی اسکے بعد وہ دریائے جیحون کی طرف پیش قدمی کریں گے جال الدین خورازم شاہ نے موقع کو غنیمت جانا اور اورگنج میں مغلوں کی فوج پر حلہ کردیا یہ حملہ اتنا خطرناک تھا کہ مغل تاتاریوں سمیت کوئی نہ بچ سکا ۔ اس وقت چنگیز خان شمالی افغانستان میں طالقان کا محاصرہ میں مصروف تھا جب یہ خبر چنگیز تک پہنچی تو غصے میں آکر اس نے بامیان پر چڑھائی کردی اور اہل بامیان پر ظلم کے پہاڑ توڑ دئیے۔
چنگیز خان سلطان جلال الدین خوارزم کو مارنے کے لیے اپنے بیٹے تولی خان کیساتھ ایک فوج روانہ کیا اس وقت سلطان قندھار میں تھے انکے ساتھ ترک اور غوری جنگجو تھے تولی خان چنگیز خان کا نہایت عیار اور چہیتا بیٹا تھا ۔ سلطان جلال کا سامنا تولی خان سے ہوا سلطان جلال الدین خوارزم شیر کی طرح دھاڑتے ہوئے تولی خان پر حملہ آور ہوا تولی خان کو قتل کردیا ۔ مغلوں کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ شکست خوردہ فوج جب چنگیز خان پاس پہنچی اور تولی خان کے قتل کا جب چنگیز خان نے سنا تو غضب ناک ہوکر سلطان جلال الدین خوارزم کی جانب پیشقدمی کی ۔
سلطان جلال الدین خوارزم شاہ اور چنگیز خان کی جنگ۔۔۔
اسکے بعد سلطان جلال الدین خوارزم شاہ نے فوج کو منظم کرکے چنگیز خان سے  مقابلے کے لیے نکلا ۔
چنگیز خان کی فوج بھی پہنچ چکی تھی دونوں فوجیں آمنے سامنے تھی ۔ چنگیز خان کے فوج نے پہل کی سلطان کے فوج نے پہلے گروہ کو بری طرح شکست دی۔ لیکن چند غدار اپنی فوج لے کر مغلوں ساتھ مل گئے اور سلطان کی فوج صرف سات سو رہ گئی۔ اسی فوج کیساتھ لڑتے ہوئے سلطان دریائے سندھ تک پہنچ گئے سلطان نے اکیلے ہی کئی مغلوں کو مارڈالا لیکن مغلوں کی فوج اور تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے سلطان کو مشکلات پیش آئی ۔
لیکن سلطان جلال الدین خورازم شاہ نے اس جواں مردی سے مغلوں کا مقابلہ کیا کہ مغلوں کے دانت کھٹے کر دئیے۔ چنگیز خان جلال الدین کو بغور دیکھ رہا تھا اور حیران و  پریشاں تھا کہ اسکا سامنا آج تک ایسے بہادر اور شجاع انسان نہیں ہوا۔ سلطان جب حملہ اور ہوتا تو مغلوں کے صفوں دور تک پیچھے ہٹا دیتا تھا۔ لیکن سلطان جمعیت کی قلت اور دشمنوں کی کثرت کے سبب سلطان کو کوئی کامیابی نہ مل سکی۔ سلطان جلال الدین خوارزم شاہ کی شجاعت اور بہادری کا سکہ چنگیز خان کے دل پر بیٹھ گیا۔ سلطان کے سات سو میں صرف سو جنگجو  باقی رہ گئے ۔ سلطان نے سر سے لوہے کی ٹوپی جس پر تاج بنا ہوا تھا اسے اتار دی اور زرہ اتار کر پھینک دیا ۔ اور تاج ہاتھ میں لے کر گھوڑا دریائے سندھ میں ڈال دیا۔ جب سلطان کے ساتھیوں نے دیکھا تو انہوں نے بھی دریائے سندھ میں چھلانگ لگا دی۔ اس منظر کو دیکھ کر چنگیز خان انگشت بدنداں رہ گیا۔
سلطان جلال الدین خوارزم شاہ دریا کے خوفناک لہروں کو چیرتا ہوا کنارے پر جاپہنچا مغلوں نے سلطان کے ساتھیوں پر تیر چلانے شروع کردئیے جن بعض زخمی ہوکر شہید ہوگئے اور چند ایک بچ کر سلطان جلال الدین خوارزم شاہ تک جا پہنچے۔
چنگیز خان یہ منظر دیکھ کر اپنے بیٹوں سے مخاطب ہوا  کہ اس غافل نہیں رہنا یہ ہمیں نیست و نابود کرسکتا ہے ۔ چنگیز خان کے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ بیٹا ہو تو ایسا ہو ۔ وہ باپ بڑا خوش نصیب ہے جس کا بیٹا اتنا بہادر ہو۔ اس جیسا جواں مرد دنیا میں کوئی نہیں۔
سلطان دریا سے نکل کنارے پر پہنچا اور اپنی قمیض نکال کر جھاڑیوں پر ڈال دی نیزہ زمین میں گاڑ دیا اور تاج کو نیزے کی نوک پر رکھ دیا۔ اور نیزے کے نیچے خود بیٹھ گیا اور چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ تھی چنگیز خان یہ منظر دیکھ رہا تھا اور اپنی بے بسی کا اظہار آنکھوں کے ذریعے کررہاتھا ۔ ایک مغل جنگجو نے چنگیز سے کہا کہ مجھے جازت دیجیئے کہ میں اسکا سرکاٹ کر لے آؤں تو چنگیز خان نے کہا۔
یہ تمھارے بس کی بات نہیں اگر زیادہ فوج بھی بھیجوں تو وہ انہیں یا تو شیر کی طرح چیر پھاڑ دے گا نہیں تو دریا میں غرق کردے گا۔
جلال الدین خوارزم شاہ نے بے شمار مغلوں کو قتل کیا مؤرخین لکھتے ہیں کہ دشمنوں کی تعداد مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ تھی۔
621ھ 1227ء میں چنگیز خان ترکستان ہوتا ہوا مغلستان چلا گیا۔
جلال الدین خوارزم شاہ ہندوستان سے واپس آیا تبریز اور آذربائجان جان پر قابض ہوگیا ۔ 622ھ1228ء میں جلال الدین خوارزم شاہ نے اصفہان میں میں مغلوں کیساتھ جنگ کی جس میں مغلوں کو شکست ہوئی۔
جلال الدین نے آہستہ آہستہ جن جن علاقوں کو مغلوں نے فتح کیا تھا دوبارہ وہاں کا حاکم بنا لیکن خراسان میں تاتاریوں سے جنگیں ہوتی رہتی تھیں۔ چنانچہ 625ھ 1230ء میں تاتاریوں نے جلال الدین خوارزم شاہ سے جنگ کی جس میں تاتاریوں کو شکست ہوئی ۔ مغلوں نے خراسان اور اصفہان میں غارتگری شروع کردی تھی خراسان میں اوغوز ترک قبیلہ جسکا بانی سلیمان شاہ تھا خراسان سے ہجرت کرکے شام کے قریب انقرہ میں مقیم ہوئے ۔ جلال الدین خوارزم شاہ نے متعدد جنگوں میں مغلوں شکست دی جلال الدین خوارزم شاہ نے اس پا س کے حکمرانوں سے مدد مانگی لیکن کسی نے بھی مدد نہیں چنانچہ جلال الدین کو اکیلے ہی مغلوں سے مقابلہ کرنا پڑا ۔ جلال الدین خوارزم شاہ کیساتھ انکے جاسوسوں نے غداری کی جسکی وجہ سے مغلوں نے جلال اور اسکے ساتھیوں پر رات کے وقت حملہ کردیا مغلوں نے جلال الدین خوارزم شاہ کے تمام ساتھیوں کو قتل کردیا جلال الدین وہاں سے کسی طرح بچ نکلا اور گھوڑا دوڑا کر کسی نا معلوم سمت کو نکلا ۔ بعض مورخین  کہتے ہیں۔ انہیں کردوں نے قتل کردیا بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے زہد و تقویٰ کی زندگی  اختیار کی ۔ ۔۔
محمد رفیق مینگل۔۔۔