Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, May 11, 2019

مولانا محمد عیسیٰ قاسمی کی موت، ایک بڑا ملی سانحہ ہے!!!!!!!! مولانا طاہر مدنی۔

از/ مولانا طاہر مدنی/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
10 مئی 2019 کی صبح ساڑھے آٹھ بجے مولانا محمد عیسی قاسمی ( 1936……. 2019) 83 برس کی عمر میں اس دار فانی سے کوچ کر گئے. انا للہ و انا الیہ راجعون۔
مولانا طاہر مدنی

مرحوم جامعة الفلاح بلریاگنج کے سابق ناظم اور علاقے کے معروف عالم تھے. مدرسہ احیاء العلوم مبارک پور کے بعد آپ تکمیل کیلئے دار العلوم دیوبند گئے تھے اور 1958 میں وہاں سے فراغت کے بعد اپنے وطن بلریاگنج لوٹے تو یہاں کے مکتب اسلامیہ میں استاذ ہوگئے، اس وقت تک جامعة الفلاح نام نہیں ہوا تھا. مولانا نے عربی زبان کی یہاں شروعات کی اور طلبہ کو منہاج العربیہ پڑھائی. اس زمانے میں اس قدیم مکتب کو ایک بڑے تعلیمی ادارے کی شکل دینے کی بات چیت شروع ہوچکی تھی. مولانا نے ڈاکٹر خلیل احمد صاحب، حکیم محمد ایوب صاحب، محمد اکرام پردھان اور گاؤں کے دیگر افراد کے ساتھ مل کر اس تعلیمی تحریک کو آگے بڑھایا اور وہ قدیم مکتب اسلامیہ، جامعہ اسلامیہ بنا، پھر 1962 سے جامعة الفلاح کے نام سے ترقی کی شاہراہ پر برق رفتاری سے گامزن ہوگیا، خوش قسمتی سے مولانا جلیل احسن ندوی جیسے باکمال استاذ تفسیر کی خدمات حاصل ہوگئیں اور جامعہ اپنی منفرد شناخت کے ساتھ آگے بڑھتا رہا. مولانا محمد عیسی قاسمی صاحب جامعہ کی انتظامیہ کے سرگرم رکن رہے اور دو بار نظامت کی ذمہ داری بخوبی نبھائی. پہلا دور 1972 سے 1979 تک اور دوسرا دور 1981 تا 1982 کا تھا. مجلس عاملہ کے بھی فعال رکن کی حیثیت سے لمبی مدت تک خدمت انجام دی. جامعہ کی تعمیر و ترقی میں مرحوم کا رول بہت نمایاں ہے، شعبہ نسواں آپ کی خصوصی دلچسپی سے قائم ہوا، اور کلیہ بنات کے نئے کیمپس کیلئے زمینوں کی فراہمی میں آپ کی کوششیں بہت نمایاں ہیں.
جامعہ کی خوش قسمتی رہی کہ اس کی تعمیر و تشکیل میں مختلف تعلیمی تحریکات کے فیض یافتگان کی شمولیت تھی جس کی وجہ سے جامعیت اور توازن یہاں کا ایک وصف امتیازی ہے. ڈاکٹر خلیل صاحب علیگیرین ہونے کی وجہ سے علی گڑھ تعلیمی تحریک سے واقف تھے تو مولانا محمد عیسی صاحب قاسمی ہونے کی وجہ سے دیوبند کی تعلیمی تحریک کے شناسا تھے. حکیم محمد ایوب صاحب جماعت اسلامی کے اہم رکن تھے اور تحریک اسلامی کی تعلیمی تحریک کے علمبردار تھے. جامعہ کے نظام و نصاب میں ان تمام تعلیمی تحریکات کی جھلک صاف محسوس کی جا سکتی ہے.

مولانا محمد عیسی قاسمی صاحب جماعت اسلامی بلریاگنج کے اہم ارکان میں شامل تھے اور جماعت کے کاموں میں بہت سرگرمی سے حصہ لیتے تھے، اجتماعات میں پابندی اوقات کے ساتھ شرکت کرتے اور ہمیشہ اپنے ہینڈ بیگ میں تحریکی لٹریچر رکھتے تھے اور تقسیم کرتے تھے، تحریکی رسالوں کی ایجنسی آپ کے پاس تھی، ماہنامہ زندگی، حجاب، ذکری اور کانتی کی کاپیاں برابر منگاتے تھے.
آپ کا ذوق مطالعہ بہت اعلی تھا، نجی لائبریری میں کتابوں کا بہترین ذخیرہ ہے، کتابوں پر گہری نظر تھی، جگہ جگہ نشانات بھی لگاتے تھے اور جب کسی موضوع پر گفتگو ہو تو متعلق حوالے کھول کر سامنے رکھ دیتے تھے.
آپکی مجالس علمی اور حالات حاضرہ پر گفتگو سے عبارت ہوا کرتی تھیں، بہت مہمان نواز اور خاطر مدارات کرتے تھے اور ان لوگوں میں تھے جو دوسروں کو کھلا کر خوشی محسوس کرتے ہیں. ہر سطح کے لوگوں کی آمد و رفت آپ کے یہاں رہتی تھی، بہت درد مند دل رکھتے تھے اور خلق خدا کے کام آتے تھے. بھینس پالنے کے شوقین تھے، ہمیشہ دروازے پر اچھی بھینس نظر آتی، دودھ کی فراوانی رہتی اور چائے وغیرہ کا دور چلتا رہتا.
حکیم محمد ایوب مرحوم جن کی طبی حذاقت کا شہرہ تھا اور جن کے شفاخانے میں دور دراز سے مریض آتے تھے اور ایک میلے کا سماں ہوتا تھا، ان کے دو خصوصی معاونین تھے، ایک مولانا محمد عیسی قاسمی صاحب اور دوسرے جناب منشی محمد انور صاحب. مولانا مرحوم، حکیم صاحب کے سمدھی بھی تھے، ان کی دو بیٹیاں، حکیم صاحب کے صاحب زادوں سے بیاہی ہیں.
قصبے کے اجتماعی کاموں سے بڑی دلچسپی لیتے تھے، عیدگاہ کی توسیع و تعمیر اور مختلف مساجد کی توسیع و تجدید میں سرگرمی سے حصہ لیا. سماجی اصلاحات کے کاموں میں دلچسپی لیتے تھے.
مزاج بہت نفاست پسند تھا، صفائی ستھرائی کا بڑا خیال رکھتے تھے، تعمیرات کا اچھا ذوق تھا. ہمت، شجاعت اور اولو العزمی کا پیکر تھے، سخت حالات کا مقابلہ کرنے کا ہنر رکھتے تھے. ایمرجنسی کے دوران جب جماعت اسلامی کے لوگوں کو گرفتار کیا گیا تو بلریاگنج سے حکیم محمد ایوب صاحب کے علاوہ مولانا بھی اسیران بے گناہی میں شامل تھے اور ایک مدت تک سنت یوسفی ادا کی.
صبر و رضا کے پیکر تھے، ہر حال میں مسکراتے ہوئے ملتے تھے، دل کے مریض تھے، تقریباً دس سال قبل فالج کا حملہ ہوا اور اس کے بعد صاحب فراش ہوگئے، اتنی طویل مدت تک بیمار رہے، مگر جب بھی عیادت کیلئے گیا تو مسکراتے ہوئے ہی ملے اور زبان پر کوئی حرف شکایت نہیں، مؤمن کی بیماری بھی اس
   کیلئے رفع درجات کا ذریعہ بنتی ہے، اتنی مدت تک جس نے دکھ جھیلا، یقیناً اللہ کے پاس اس کے درجات بلند ہوئے، موت بھی آئی تو ماہ رمضان میں جمعہ کے دن، یہ سب علامات قبولیت ہیں.
اس موقع پر ان کے صاحبزادے طاہر بھائی اور تمام اہل خانہ کا تڈکرہ بہت ضروری ہے کہ بیماری کے اتنے طویل عرصے میں ان لوگوں نے جس خندہ پیشانی سے خدمت کی اور ہر طرح کی قربانی دے کر مولانا کے آرام کا خیال رکھا، اس کی مثال آج کے دور میں بہت کمیاب ہے، لوگ دو چار مہینے میں گھبرا جاتے ہیں اور یہاں مسلسل دس سالہ خدمت، سلام ہے ایسے متعلقین کو، اللہ ان سب لوگوں کو اجر عظیم سے یقیناً نوازے گا.
مرحوم پچھلے دس سال سے بستر پر تھے، اس سے قبل انہوں نے بہت فعال زندگی گزاری. گھر، مدرسہ، دواخانہ اور دیگر سماجی کام بغیر تھکے انجام دیتے تھے، اس کے علاوہ تحریکی مصروفیات، بڑے جیوٹ کے آدمی تھے، اولوالعزم تھے، صابر و شاکر تھے، غریب پرور تھے، علم دوست تھے، دل درد مند رکھتے تھے….
خدا رحمت کرے، کیا خوبیاں تھیں مرنے والے میں
اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے، ان پر رحمتوں کی بارش برسائے، ان کی لغزشوں کو معاف کرے، ان کے درجات بلند کرے، جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور تمام متعلقین کو صبر جمیل دے. آمین