Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, May 16, 2019

مودی کی انتخابی مہم ، اخلاقی اصولوں سے بالا تر۔


رشید انصاری/صداۓوقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
گزشتہ چند سال سے یہ بات دیکھنے میں آرہی ہے کہ تارےخ بڑی جلدی جلدی بن رہی ہے۔ ماضی میں تارےخ کبھی کبھار ہی بنتی تھی۔ آج تو ےہ حال ہے کہ اگر کسی کرکٹ کھلاڑی نے 50ےا اس سے کچھ زائد رن بناکر ٹیم کو جتادےا تو ےہی کہا جاتا ہے کہ یہ تاریخی کامیابی ہے۔ بھاجپائی تاریخ لکھنے والے مودی کے تقرےباً ہر کام کو تارےخی بتاتے ہےں۔ ہمارے نزدےک بھی 2019 کے پارلیمانی انتخابات کے لئے وزیر اعظم مودی کی انتخابی مہم بلاشبہ تاریخی ہے اگر جمہوری ملکوں میں ہوئے انتخابات کی تارےخ پر نظر ڈالی جائے تو شائد ہی کسی  وزیر اعظم نے مودی کی طرح اپنے سرکاری فرائض کو بالائے طاق 

رکھ کر پارٹی کی انتخابی مہم چلائی ہو۔ کسی اور ملک میں اےسا ہوا ہو ےا نہےں ہوا ہو لےکن ہندوستان میں وزےر اعظم مودی نے بے شک اپنی طوفانی انتخابی مہم سے ایک منفی(Nagetive) تاریخ بنائی۔ حدتو یہ ہے کہ کانگریسی اور دوسرے غیر کانگرےسی وزیر اعظموں کی بات تو دور رہی خود بھاجپا کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے بھی مودی کے انداز میں اپنی انتخابی مہم کبھی نہےں چلائی۔ ےہ بات بھی قابل غور ہے کہ مودی کی انتخابی سرگرمیوں پر خرچ ہونے والے کروڑوں روپے سرکاری خرچ کے کھاتے میں ڈال کر ٹیکس دینے والوں پر ظلم کیا گےا۔ کانگرےس کے کرپشن پر تبرہ بازی کرتے کرتے کبھی نہ تھکنے والے مودی کا یہ اقدام بھی کرپشن کی اےک زبردست مثال ہے اگر ایسا نہیں ہے تو وزیر اعظم مودی اور بھاجپا کو بتانا چاہئے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی انتخابی سرگرمیوں پر ہوئے اخراجات کس نے برداشت کئے ہیں اور اگر یہ خرچ بی جے پی نے کیا ہے تو یہ رقم بی جے پی کے پاس کہا سے آئی؟ اس سلسلہ میں نوٹ بندی کے تعلق سے بعض حلقوں کا خےال ہے کہ یہ تاریخ کا زبردست کرپشن ہے کےونکہ اس طرح بی جے پی نے نہ صرف اپنے کالے دھن کو سفےد کرلیا بلکہ پرانے نوٹوں اور ان کی جگہ نئے نوٹوں کی اجرائی میں کروڑوں روپےوں کا اےک زبردست گھٹالا (اسکام) ہوا ہے۔ ہمارے اپوزیشن قائدین میں اتنا دم اور صلاحیت نہیں ہے کہ وہ اس گھٹالے کو پوری طرح سامنے لاتے اور یہ گھٹالا شائد رافیل کے گھٹالے سے بھی بڑا ہے اور رہی بی جے پی وہ تو اپنے ہر خراب کام کو بھی اچھا ہی کام کہتی ہے اور حزب مخالف کی جماعتوں اور قائدین کی کمزوری سے پورا پورا فائدہ اٹھاتی ہے۔ خیریہ تو ایک ضمنی ذکر تھا جس کا تعلق بہرحال وزیر اعظم مودی کی انتخابی مہم کے منفی پہلوﺅں سے ہے۔

وزےر اعظم مودی نے ایک اور منفی تاریخ ہ بھی بنائی ہے کہ انہوں نے اپنے پیشرو وزیراعظم راجیو گاندھی (جن کو ہلاک ہوئے تقرےباً 30 سال ہوئے )پر اتنے بے بنیاد الزامات لگائےہیں  کہ شائد ہی دنیا بھر کے کسی جمہوری ملک میں کسی صدر  وزیراعظم نے اس طرح بے بنیاد الزامات اپنے کسی پےشرو پر لگائے ہوں جس طرح ہمارے وزےراعظم مودی نے راجےو گاندھی پر لگائے تھے۔ حال ہی میں مودی نے راجیو گاندھی پر یہ مضحکہ خیز الزام لگایا کہ انہوں نے نہ صرف اپنے بیوی بچوں بلکہ اٹلی سے تعلق رکھنے والے سسرال والوں کے ساتھ بحریہ کے جنگی جہاز پر 10 دن چھٹی کے گذارے۔ اس طرح ملک کی حفاظت کے لئے کئے گئے انتظامات میں رخنہ ڈالا۔ ہہ اتنا بے بنےاد الزام تھا کہ اس الزام کو راجیو گاندھی کے دور کے بحریہ کے اعلیٰ ترین عہدےدار برداشت نہ کرسکے اور انہوں نے باقاعدہ طور پراسے بےبنیادبتایاکہ راجیو گاندھی مذکورہ جہاز پر سرکاری کام سے آئے تھے اور ان کے ساتھ ان کے بےوی بچوں کے علاوہ اور کوئی نہےں تھا۔ اخلاق کا تقاضہ تو ےہ تھا کہ وزیر اعظم مودی اس بےان کے بعد اپنی غلط بےانی پر معذرت خواہی کرتے اور اس کا ذکر اپنی اگلی تقرےروں میں نہ کرتے لےکن وزیر اعظم مودی نے اےسی کوئی زحمت نہیں اٹھائی اور اپنے الزام پر قائم رہے(ےہاں ےہ ذکر ضروری ہے کہ سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی نے شہےد کردہ بابری مسجد کے مقفل دروازوں کو کھولکربابری مسجد میں کھلے عام پوجا کی اجازت (عدالت سے حاصل کی تھی)دے کر بابری مسجد کو عملاً مندر میں تبدیل کردیا تھا۔ اس کے بعد ہی راجےو گاندھی مسلمانوں میں مقبول نہیں رہے لیکن راجیو گاندھی کے اس سیاح کارنامہ کو مودی بےان کرتے تو ہندوتوادیوں پر کانگریسی راجیوگاندھی کی شبےہ بہتر ہوجاتی جبکہ مودی کا ےہ مشن ہے کہ اپنے ہر مخالف کی کردارکشی کرو اور اپنے سوا کسی کو عوام کی خدمت کرنے والا نہ بتاﺅ۔ اسی لئے اپنی خودستائی میں مودی اپنے آپ کو شاندار کہہ کر خوش ہوجاتے ہےں جبکہ انہوں نے کوئی کام کیا ہی نہےں۔
مودی کی انتخابی مہم کا اےک اہم منفی پہلو ےہ بھی ہے کہ وہ غےر کانگرےسی وزرائے اعلیٰ پر اخلاق سے گری ہوئی تنقےد کرتے ہےں اور ان کو ڈراتے دھمکاتے بھی ہےں مثلاً بنگال کی وزےر اعلیٰ ممتابنرجی کو جنہوں نے اپنی حالےہ اےک تقرےر میں دھمکی دی کہ انتخابات میں بی جے پی کی کامےابی کے بعد ممتابنرجی کی حکومت ختم کردی جائے گی۔ ممتابنرجی کی جماعت ترنمول کانگرےس کے زےادہ تر اےم اےل اے بی جے پی میں شامل ہوجائےں گے۔ مودی نے ےہ بھی بتاےا کہ کم از کم 25 ایم۔ایل۔اے ان سے رابطہ میں ہیں۔
ایک غور طلب بات یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن نے مودی کی کسی بات پر کبھی کوئی اعتراض نہےں کیا بلکہ حزب مخالف نے جو شکایات مودی کے خلاف کی تھی ان سب کو مسترد کردیا گےعین الیکشن ےوں ہوا کہ مودی جو چاہےں کریں اور ماےاوتی ےا اعظم خاں کی معمولی سی بات پر بھی سخت گرفت کی جائے۔ مودی کے تعلق سے سپرےم کورٹ کے موافق فےصلوں پر ہم کچھ کہہ کر توہےن عدالت کے ملزم بننا نہےں چاہتے لےکن حقےقت ےہی ہے کہ سپرےم کورٹ کے فےصلوں سے مودی نے خوب فائدہ اٹھاےا۔ ایک عام خیال یہ ہے کہ اتنی دھاندلیوں کے بعد بھی دوبارہ برسراقتدار آنے کا بی جے پی کا اور وزیر اعظم بننے کے مودی کے خواب شائد ہی شرمندئہ تعبیر ہوں گے۔