Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, May 1, 2019

عروج و زوال کا گراف۔!!

تحریر/ ابن تاج خان/ صدائے وقت۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
دنیا میں مختلف قوموں نے ترقی پائی اور مختلف حکومتیں قائم ہوئیں. لیکن وہی قومیں زیادہ دنوں تک پائیداری سے حکومت کر سکیں جن کی ایک خاص ثقافت تھی اور جن میں علوم کا ارتقا ہوتا رہا.
ایک زمانے میں مسلمانوں میں علوم کا غلبہ تھا لہذا ایک ہزار سال مضبوطی سے اسلامی حکومت قائم رہی پھر زوال کی طرف بڑھنے لگی اور اسی زوال کے دوران اللہ نے علوم کا امین یوروپ اور امریکہ کو بنادیا لہذا چار سو سال سے زمین پر ان کی حکمرانی ہے. لیکن ان کی کمی یہ ہے کہ ان کے پاس اسلام کی تعلیمات نہیں ہیں. لہذا ظلم وجور کا بازار گرم ہے.
اب پھر سے اللہ نے مسلمانوں کو بیدار کرنا شروع کیا ہے اور مسلمان ایک بار پھر علوم میں ترقی کر رہے ہیں. اور مسلمان ہی دنیا کو ظلم سے آزاد کرسکتے ہیں. بیداری کا یہ عمل پچھلی ایک صدی سے جاری ہے. لیکن عروج تک پہونچنے میں ابھی کافی وقت ہے. طاقت و قوت کا یہ گراف اللہ کا بنایا ہوا ہے. جس کو سنة اللہ کہا جاتا ہے. اس کے کچھ اصول ہیں.
مسلمانوں سے پہلے روم اور ایران کے درمیان طاقت کی لڑائی تھی. لیکن جب یہ طاقت مسلمانوں میں منتقل ہوئی تو پائیدار ہوگئی کیونکہ انصاف مسلمانوں کا مضبوط ہتھیار تھا. لیکن پھر جب مسلمانوں نے وہی روش اختیار کی جو دوسری قوموں نے اپنائی تو مسلمان بھی زوال پذیر ہوگئے. گویا اللہ نے دنیا پر حکومت کے کچھ اصول بنائے ہیں ان میں سب سے پہلا انصاف ہے اور انصاف کے حصول کے لئے وہ تمام علوم حاصل کرنے ہوتے ہیں جو انصاف کو مضبوط اور پائیدار بنا سکیں.
ایک حکیم کا قول ہے.
"حکومت شرک کے ساتھ چل سکتی ہے لیکن ظلم کے ساتھ نہیں"
اگر کوئی اسلامی حکومت کے خواب دیکھتا یے تو اسے انصاف کو ترجیح دینا ہوگا اور انصاف کو قائم کرنے کے لئے اتنا مضبوط ہونا ہوگا کہ باطل انصاف کا کھلواڑ نہ کرسکے. آج ہمارے پاس انصاف کی تعلیم ہے لیکن انصاف کو نافذ کرنے کی قوت نہیں ہے. آپ برونئی کی مثال دیکھ سکتے ہیں. کہ جیسے ہی اس نے حدود کے نفاذ کا اعلان کیا. پوری سو کالڈ معزز دنیا اس کے خلاف کھڑی ہوگئی ہے.
ہمیں بالکل ابتدائی درجے سے اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ ہم اپنی اگلی نسل کو ہر اعتبار سے مضبوط بنائیں تاکہ وہ جب انصاف کی بات کریں تو اس کو نافذ کرنے کی قوت بھی رکھیں اور ابتدائی درجہ ایمان کے بعد علم ہے. اور جب ہم حکومتی اعتبار سے مضبوط ہونے کی بات کرتے ہیں تو اس میں وہ تمام علوم آجاتے ہیں جن کی وجہ سے کوئی حکومت مضبوط ہوسکتی ہے. اور اسلامی تعلیمات تو اول ہیں تاکہ انصاف کی تعلیم باقی رہے. کہنے والے کہتے ہیں کہ ۳ فیصد مسلم بچے مدارس کا رخ کرتے ہیں جبکہ ۹۷ فیصد اسکولوں و کالجوں میں جاتے ہیں! لہذا مدارس کے بچوں کو سائنس نہ پڑھا کر کالج والوں کو اسلام پڑھانا چاھئے. (اس ۹۷ اور ۳ فیصد کے تناسب کو میں درست نہیں مانتا، کیونکہ صرف ۴۲ فیصد مسلمان تعلیم حاصل کرتے ہیں لہذا یہ ۳ فیصد ۱۴ فیصد ہوجائیں گے)! لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے کتنے اسکول کالج مسلمانوں کے پاس ہیں، اور اگر ہیں بھی تو مکمل اسلامی تعلیمات کی اجازت ہے؟ جواب یہ ہوگا کہ زیادہ سے زیادہ ۱ فیصد بلکہ اس سے کم! ساتھ میں ان علماء کی فیصد کیا ہے جو اسکولوں میں کام کرتے ہیں؟  جواب یہ ہوسکتا ہے کہ ۵ سے ۱۰ فیصدـ  لہذا اگر ہمیں ۹۷ فیصد کو ہی ہتھیار بنانا ہے تو محنت کی مقدار بھی ۹۷ فیصد تک پہونچانی ہوگی.
علماء کرام سے گزارش ہے کہ حتی الامکان اور وسعت بھر اسلامک اسکولوں کو شروع کریں یا دوسروں سے شروع کروائیں جس میں قوم کی ۹۷ فیصد آبادی کو ایمانی و اسلامی تربیت دی جائے تاکہ قوم ایک بار پھر تیزی سے ترقی کی راہ پر لگ جائے اور اگلی نسل دنیا میں انصاف کو قائم کرنے والی بن سکے.  ایسا کرنا علماء کی ذمہ داری اس لئے بھی ہے کہ قوم آج بھی ان کی باتیں سنتی ہے اور مانتی بھی ہے، مزید یہ کہ دینی تعلیم کی تبلیغ انہیں علماء سے متعلق ہے، کوئی ناخواندہ تعلیم کے فرائض انجام نہیں دے سکتا!!!
*ابن تاج خان*