Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, May 12, 2019

بہترین نثر نگار اور کلاسیکی طرز کے شاعر کے طور پر مشہور و معروف شاعر " ماہر القادری" کے یوم وفات کے موقع پر خراج عقیدت۔

تاریخ وفات/ *- ١٢ ؍مئی ؍ ١٩٧٨*
*بہترین نثر نگار اور کلاسیکی طرز کے شاعر کے طور پر معروف شاعر” ماہرؔ القادری صاحب “ ...*
نام *منظور حسین* تھا *٣٠ جولائی ١٩٠٦ء* کو *کیسر کلاں ضلع بلند شہر* میں پیدا ہوئے۔ 1926 میں علی گڑھ سے میٹرک کرنے کے بعد *بجنور* سے نکلنے والے مشہور اخبار *’مدینہ‘* سے وابستہ ہوگئے۔ *’مدینہ‘* کے علاوہ اور بھی کئی اخباروں اور رسالوں کی ادارت کی۔  ممبئی میں قیام کے دوران فلموں کے لئے نغمے بھی لکھے۔ تقسیم کے بعد پاکستان چلے گئے اور کراچی سے ماہنامہ *’فاران‘* جاری کیا جو بہت جلد اس وقت کے بہترین ادبی رسالوں میں شمار ہونے لگا۔ ماہر القادری نے تنقید ، تبصرہ ، سوانح ، ناول کے علاوہ اورکئی نثری اصناف میں لکھا ۔ ان کی نثری تحریریں اپنی شگفتگی اور رواں اسلوب بیان کی وجہ سے اب تک دلچسپی کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں۔ ماہر القادری کی بیس سے زیادہ کتابیں شائع ہوئیں۔ کچھ کتابوں کے نام یہ ہیں۔ *آتش خاموش ، شیرازہ ، محسوساتِ ماہر ، نغماتِ ماہر ماہر ، جذباتِ ماہر ، کاروانِ حجاز ، زخم ومرہم ، یادِ رفتگاں ، فردوس ، کردا ، طلسمِ حیات* ۔ *١٢ مئی ١٩٧٨ء* کو *جدّہ* میں ایک مشاعرے کے دوران حرکت قلب بند ہوجانے سے انتقال ہوا۔
پیش کش:صداۓوقت
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 
ماہر القادری

. . . . . . . 
*معروف شاعر ماہرؔ القادری کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ اظہارِ عقیدت...*
اگر خموش رہوں میں تو تو ہی سب کچھ ہے
جو کچھ کہا تو ترا حسن ہو گیا محدود
---
*ابتدا وہ تھی کہ جینے کے لیے مرتا تھا میں*
*انتہا یہ ہے کہ مرنے کی بھی حسرت نہ رہی*
---
پروانے آ ہی جائیں گے کھنچ کر بہ جبر عشق
محفل میں صرف شمع جلانے کی دیر ہے
---
*اک بار تجھے عقل نے چاہا تھا بھلانا*
*سو بار جنوں نے تری تصویر دکھا دی*
---
*سناتے ہو کسے احوال ماہرؔ*
*وہاں تو مسکرایا جا رہا ہے*
---
عقل کہتی ہے دوبارہ آزمانا جہل ہے
دل یہ کہتا ہے فریبِ دوست کھاتے جائیے
---
نقابِ رخ اٹھایا جا رہا ہے
وہ نکلی دھوپ سایہ جا رہا ہے
---
*یوں کر رہا ہوں ان کی محبت کے تذکرے*
*جیسے کہ ان سے میری بڑی رسم و راہ تھی*
---
یہ کہہ کے دل نے مرے حوصلے بڑھائے ہیں
غموں کی دھوپ کے آگے خوشی کے سائے ہیں
---
*یہی ہے زندگی اپنی یہی ہے بندگی اپنی*
*کہ ان کا نام آیا اور گردن جھک گئی اپنی*۔