Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, June 19, 2019

بریلی کے بازار میں۔۔۔۔۔۔قسط ہفتم(7 ویں).


مولانافضیل احمد ناصری /صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*بریلی کے دیوبندی ادارے*
مولانا محمد حنیف قاسمی اسی بریلی کے ہیں اور کٹر قسم کے دیوبندی۔ 11،12 برسوں سے جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند سے وابستہ ہیں۔ جب بریلی کا میرا پروگرام بنا تو سب سے پہلے میں نے انہیں فون کیا کہ فرصت ہو تو دیوبند سے تشریف لے آئیں، تاکہ آپ کے ساتھ اپنوں اور بیگانوں کی کارکردگیاں دیکھ سکوں۔ مولانا آئے، مگر اگلے ہی دن چلے گئے، میری ملاقات ان سے نہ ہو سکی۔ میرے پاس ان کی کال آئی کہ میں ایک عالمِ دین کو آپ کے ساتھ لگا دیتا ہوں، وہ آپ کو آپ کے مطلوبہ مقامات کی سیر کرا دیں گے۔ احسن رضا کا نکاح ہو چکا تھا، اب ہم کھانا کھا رہے تھے۔ اچانک موبائل بجا۔ اٹھایا تو آواز آئی کہ میں مولانا حنیف صاحب کا فرستاده ہوں۔ دس منٹ میں آپ تک پہونچ رہا ہوں، آپ تیار رہیے۔ میں نے کہا: بہت اچھا۔ دس بارہ منٹ کے بعد ان کا فون آیا کہ میں فلاں جگہ کھڑا ہوں، آپ تشریف لے آئیں ۔ میں جلدی چلا۔ دیکھا تو پاس ہی تھے۔ موٹر سائیکل پر سوار، ایک پیر زمین سے لگائے، سر پر ہیلمٹ۔ کرتے پائجامے میں ملبوس۔ یہ مولانا شکیل احمد بریلوی تھے۔ دارالعلوم دیوبند کے فاضل۔ مدرسہ فیض العلوم بریلی کے مہتمم۔ 2005 میں دیوبند سے فراغت پائی۔ معمولی علیک سلیک ہوئی اور ہم بیٹھ کر اپنی منزل کی طرف چل دیے۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے کہ بریلی کا نام سن کر ہی ہر دیوبندی کے ذہن میں آتا ہے کہ یہاں دیوبندیت کا گزر بسر کہاں سے ہوگا، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں۔ ایک وقت تھا کہ یہاں دیوبندیت عروج پر تھی۔ دیوبندیت کے بڑھتے غلبے سے بریلوی بڑے پریشان تھے۔ اس سلسلے کی یہ تحریر بڑی چشم کشا ہے۔ *دارالعلوم منظرِ اسلام کی خشتِ اول* کے حوالے سے بریلویوں کے معمارِ ملت شبیہ القادری بہاری لکھتے ہیں:

*ملک العلما ظفرالدین بہاری کے تصورِ دارالعلوم کے اس واردہ کو حضرت حجۃ الاسلام خلفِ اکبر اعلیٰ حضرت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خاں صاحب اور جناب سید امیر احمد صاحب کی وساطت اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنت کی سمع رسانی کرا دی۔ اور جناب سید امیر احمد صاحب نے یوں گزارش کی کہ حضرت! اگر آپ نے مدرسہ کا قیام نہیں فرمایا تو بد عقیدہ لوگوں، دیوبندیوں، وہابیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہے گا۔اور میں قیامت کے دن شفیع المذنبین ﷺ کی بارگاہ میں آپ کے خلاف نالش کر دوں گا۔ ایک آلِ رسول کی زبان سے یہ سنتے ہی امام احمد رضا لرزہ بر اندام ہو گئے اور یہ فرمایا کہ سید صاحب! آپ کا حکم بسر و چشم منظور ہے۔ مدرسہ قائم کیا جائے گا*
بریلی میں آج اگرچہ رضاخانیوں کا غلبہ ہے، مگر الحمدللہ ہمارے بھی کئی ادارے یہاں سرگرم ہیں اور دینی خدمات پیش کرنے میں مگن۔ بریلی کالج کا سرسری تذکرہ آپ اوپر پڑھ آئے ہیں۔ یہ 1837 میں قائم ہوا، ماضی کی طرح اس وقت بھی درجنوں علوم و فنون یہاں پڑھائے جا رہے ہیں۔ مولانا ذوالفقار دیوبندیؒ اور مولانا منیر نانوتویؒ نے تو ایک طویل عرصے تک یہاں خدمات پیش کیں۔ دینی اداروں کی خدمات بھی مدتِ دراز سے جاری ہیں، جن کی قدرے تفصیل آپ آگے پڑھیں گے۔
مولانا شکیل احمد صاحب کے ساتھ ہم پانچ چھ منٹ ہی چلے ہوں گے کہ ایک گلی میں گھس کر فوراً رک گئے۔ کہنے لگے: یہی ہے مدرسہ مصباح العلوم بریلی۔ میں نے دیکھا تو مدرسے کا کہیں اتہ پتہ نہ تھا۔ بس ایک مسجد تھی، جس کے دروازے پر زنجیر چڑھی ہوئی تھی۔ مولانا شکیل صاحب آگے بڑھے، زنجیر اتاری اور ہم اندر داخل ہوئے۔ جوں ہی ہم اندر ہوئے باہر سے آواز آئی: نکلیے نکلیے! میں نکلا تو دیکھا کہ ادھیڑ عمر کا ایک صنم پرست کھڑا ہے اور مجھ سے کہہ رہا ہے: مولی صاحب! اس مسجد پر سنگین قسم کا جھگڑا چل رہا ہے۔ ابھی چار پانچ روز پہلے یہاں پولیس کی فوج پڑاؤ ڈالے تھی۔ مسجد کے اندر جانا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ ویسے آپ کہاں سے آئے ہیں اور مقصدِ سفر کیا ہے؟ میں نے کہا: میں ایک صحافی ہوں اور تحقیق و ریسرچ کے سلسلے میں آپ کے شہر میں آیا ہوں۔ وہ کہنے لگے: اس جگہ ایک مدرسہ تھا، مسجد اسی مدرسے کی ہے۔ وقف بورڈ میں یہ جگہ اب بھی مدرسہ مصباح العلوم کے نام سے ہے۔ صنم پرست کی تقریر سن کر مجھ پر سناٹا چھا گیا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ صنم پرستوں کے غلبے والا علاقہ ہے۔
*مدرسہ مصباح العلوم کیا ہے؟*
آپ کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ مدرسہ مصباح العلوم بریلی ہمارا مدرسہ تھا۔ بے انتہا اہمیت کا حامل اور تاریخی نوعیت کا۔ دیوبندی اداروں میں سب سے قدیم۔ یہ 1872 میں قائم ہوا۔ اس کا پہلا نام مدرسہ مصباح التہذیب تھا، *میلۂ خدا شناسی* میں شرکت کے لیے حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ بریلی پہونچے تو ایک شب یہاں بھی قیام فرمایا۔ یہاں سے واپسی پر ان کا مشورہ تھا کہ اس کا نام مصباح العلوم کر دیا جائے، چناں چہ اسے بدل دیا گیا۔ حضرت مولانا محمد احسن نانوتویؒ اس کے بانی تھے۔ یہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے رشتے کے بھائی بھی تھے۔ اس کے اولین سرپرست قطب الاقطاب حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ رہے۔ جب یہ مدرسہ قائم ہوا تو یہاں کے ذمے داروں نے حضرت گنگوہیؒ سے صدرالمدرسین بھیجنے کی درخواست کی۔ حضرت گنگوہیؒ نے مشہور محدث حضرت مولانا خلیل احمد سہارن پوریؒ کو یہاں بھیج دیا۔ مولانا سہارن پوریؒ اس وقت بھوپال میں پڑھا رہے تھے۔ یہاں ان کی تنخواہ 40 روپے طے پائی۔ پھر یہیں سے دارالعلوم دیوبند کی تدریس کے لیے 30 روپے ماہانہ مشاہرے پر بھیجا گیا تھا۔ بعد کے ادوار میں اس کے ارکانِ شوریٰ میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ سرِ فہرست رہے، نمبر دو پر دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا حبیب الرحمنٰ عثمانیؒ اور تیسرے نمبر پر دارالعلوم کے صدرالمدرسین امام العصر علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ۔ ان کے علاوہ بقیہ سات آٹھ افراد مقامی تھے۔ یہ ادارہ دارالعلوم کے مشورے سے ہی آگے بڑھتا اور اس کے کارنامے سامنے آتے۔ امتحانات کے پرچے بھی دارالعلوم سے تیار ہو کر آتے۔ اس کے اجلاس میں بھی اساتذۂ دارالعلوم شرکت کرتے۔ گویا یہ بریلی میں دیوبند کی چھاؤنی تھا۔ پہلے آ چکا ہے کہ حکیم الامت حضرت تھانویؒ کے بھائی جناب اکبر علی تھانوی یہاں نگر نگم کے سکریٹری تھے، یہاں آنے کی ایک وجہ تو یہی تھی، جب کہ دوسری وجہ مدرسہ مصباح العلوم کا میرِ مجلس ہونا بھی تھا۔
  ابوالفضل مولانا عبد الحفیظ بلیاویؒ نے بھی یہاں برسوں پڑھایا ہے۔ ان کی مشہور ترین کتاب *مصباح اللغات* کی تسوید کا آغاز یہیں سے ہوا۔ یہ کتاب، المنجد کی طرز پر ہے اور عربی لغات کے حوالے سے سب سے زیادہ معروف و متدوال۔
اس سلسلے کی یہ بریلوی تحریر دل چسپی سے خالی نہیں، لکھنے والا وہی *معمارِ ملت* ہے۔ پڑھیے اور مزہ لیجیے:
*قارئینِ محترم! فقیر راقم الحروف واضح کرنا چاہتا ہے کہ دارالعلوم منظرِ اسلام کے قیام سے قبل ایک مدرسہ کوٹھی رحیم داد خاں واقع محلہ گلاب نگر، بریلی میں مدرسہ اہلِ سنت کے نام سے قائم کیا گیا تھا ۔ یہ مدرسہ اعلیٰ حضرت کے والدِ گرامی اور فقیر کے ممدوح حضرت مولانا حسنین رضا خان کے جدِ کریم التقی الفاضل والنقی الکامل حضرت استاذ الاساتذہ، سند الفقہا مولانا نقی علی خان بریلوی نے قائم فرمایا تھا، لیکن افسوس کہ گزشتہ ڈیڑھ صدی سے مدارس و مساجد پر قبضہ کرنے والے فسادی ٹولے (جس کے اول بانی احسن نانوتوی اور دوسرے فسادی قاسم نانوتوی تھے) کے شریر اور بدعقیدہ احسن نانوتوی نے پہلے عیدگاہ پر قبضہ کیا، ازاں بعد مولانا نقی علی کے مدرسہ کے بالمقابل 1872 میں مدرسہ مصباح التہذیب قائم کر کے عمائدینِ شہر کہنہ کے عطیات اپنے دامنِ طمع میں بھرنا شروع کر دیے*
اس مدرسے کا رقبہ کم و بیش پانچ سو گز تھا۔ مدرسے کی باقیات آٹھ دس سال پہلے تک بھی موجود تھیں اور اپنی عظمتِ رفتہ پر خون کے آنسو بہا رہی تھیں۔ اب وہ بھی موجود نہیں، مزار کے ساتھ لوحِ مزار بھی مٹ چکا ہے۔ یہ ادارہ جب تک چلا، شان سے چلا۔ 1947 کے ہنگاموں تک اس کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہا۔ اب اس کی ساری زمینیں دکانوں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ مدرسے کی یہ حالت دیکھ کر مجھے خود کو سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ میں اس کا ماضی یاد کر رہا تھا اور دل دل میں رو رہا تھا۔ طبیعت پوری طرح  افسردہ تھی۔ آہ! وہ زمانہ بھی اس پر پون صدی قبل گزرا ہے کہ قال اللہ وقال الرسول کے زمزموں سے یہاں کی فضائیں گونج رہی تھیں۔ یہی وہ جگہ ہے، جہاں ہمارے اکابر آتے اور سکون کا سانس لیتے۔ آہ! اب یہاں کچھ بھی موجود نہیں:
آگ اس گھر کو لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا
کسی زمانے میں اس کی شوریٰ میں بانئ بریلویت کے والد جناب نقی علی بھی شامل تھے۔ اسی کو بنیاد بنا کر بریلوی نسل کے بعض افراد نے اس پر دھاوا بول دیا اور بابری مسجد کی طرح اس کا بھی حشر کر دیا گیا۔
میں وہاں سے واپس ہوا تو آنکھیں نم تھیں اور قدم بوجھل۔
[جاری]