Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, June 16, 2019

عمر بھر کی بیقراری کو قرار أ ہی گیا !!


از/ مجیب الرحمن ندوی/صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
14 جون بروز جمعہ میں اپنے وطن سے واپس ممبئ پہنچا ہی تھا کہ نماز سے قبل یہ خبر ملی کہ برادرم مولانا غزالی ندوی اللہ کو پیارے ہو گئے، خبر ایسی المناک تھی کہ یقین نہیں ہوتا تھا، غزالی نام کے اور افراد کو ذہن نے تلاش کرنے کی کوشش کی، مگر خبر کے ساتھ چسپاں وہی ایک خندہ جبیں، خوش اخلاق و خوب سیرت چہرہ تھا، جس کے بارے میں ہنوز یقین نہیں آرہا تھا،
 زندگی ہے اپنے قبضے میں، نہ اپنے بس میں موت
آدمی مجبور ہے، اور کس قدر مجبور ہے
 رہے نام اللہ کا!
کل من عليها فان ويبقى وجه ربك ذو الجلال والإكرام،
جو بھی کارگہ حیات میں اپنے کاندھوں پہ زندگی سجا کر لایا، موت کے بے رحم ہاتھوں نے اسے عدم پہنچا کر ہی دم لیا ہے،
لائی حیات آئے، قضا لے چلی چلے،
اپنی خوشی سے آئے، نہ اپنی خوشی چلے
اور کیوں نہ ہو، اور ایسا کیوں نہ ہو، زیست کو سجانےوالے نے پہلے ہی کہہ دیا تھا ولکم في الأرض مستقر ومتاع إلى حين،
خبر پڑھ کر بعض احباب کو تعزیتی فون کیا، اللہ غزالی مرحوم کی مغفرت فرمائے، اعلی علیین میں جگہ عطا فرمائے،
“غزالی” یہ وہ نام تھا جس سے میری شناسائی دار العلوم ندوہ العلماء جانے سے پہلے ہوئی تھی، ہمارے بعض سنبھل کے ساتھی بتاتے تھے کہ دار العلوم میں ایک چھوٹا سا طالب علم آیا ہے ، بہت زبردست مقالات لکھتا ہے، بڑی اچھی صلاحیت ہے، اتنی کم عمری میں مضمون نویسی میں اس کا جواب نہیں، جس کے بارے میں یہ باتیں معلوم ہوئی تھیں وہ یہی غزالی مرحوم تھے، اللہ غریق رحمت کرے،
غزالی مرحوم

جب میں ندوة العلماء میں درجہ عالیہ ثانیہ میں پہنچا تو اتفاق کہئیے یا خوش بختی، مجھے رہائش کے لئے رواق سلیمانیہ زیریں کا وہی کمرہ ملا جہاں غزالی مرحوم رہتے تھے، وہاں ان سے خوب رفاقت رہی، غزالی مرحوم کے ماموں مولانا مکین اشرف ندوی عرف مکی میرے ہم سبق تھے، وہ اور ان کے دوسرے بھائی معین اشرف عرف مدنی اکثر اوقات کمرے میں رہتے تھے،
اس وقت غزالی بھائی کو دیکھا، ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات صاف نظر آتے تھے، خوش اخلاق، وسنجیدہ طبیعت، شریف النفس، محنت و جستجو سراپا، مطالعہ کا خوگر، نہ کسی سے لڑائی نہ جھگڑا، سب کو اس سے محبت اسے سب سے انس، بات بھی کرتے تو عموما مفید و مثبت، مذاق بھی کرتے تو مہذب و سنجیدہ، اکثر اوقات کمرے میں ان کا مشغلہ مطالعہ و مضمون نویسی ہوتا تھا، بہت سے طلباء آتے رہتے تھے ” غزالی بھائی یہ مضمون چیک کردیں” یہ سبق حل کروادیں” یہ انشاء کیسے بنے گی” اور غزالی بھائی تھے کہ ہنستے مسکراتے جو آتا اس کی رہنمائی میں بخل سے کام نہ لیتے، میں خود جب ندوہ آیا تھا مضمون نگاری سے بالکل ناواقف تھا، میں نے غزالی بھائی کو دیکھ دیکھ کر بہت کچھ سیکھا، میرے ساتھ اکثر اردو کے جملے، الفاظ کے استعمال، کتابوں کے مطالعہ، یا مختلف افکار سے متعلق خوب گفتگو ہوتی، اور اب تک یہی حال تھا، جب بھی علی گڑھ جانا ہوتا، ان سے ملاقات ہوتی تو غزالی بھائی شروع ہوجاتے، کبھی سوالات کے ذریعہ، کبھی اس مطالبہ کے ساتھ کہ فلاں موضوع پر لکھئیے، یہ کام کیجئیے،
غزالی بھائی مجھ سے دوسال سینئیر تھے، مگر ہمیشہ بہت تواضع، محبت، سادگی، اور بے تکلفی سے ملتےتھے، وہ اپنے ہم عصروں میں اپنی صفات و خصوصیات میں نمایاں مقام رکھتے تھے، ہمیشہ مسکراتے اور خندہ پیشانی سے ملتے تھے، میں نے طالب علمی کے زمانے سے اب تک دیکھا کہ یہ ان کا کمال ہوتا تھا کہ ہنسی مذاق کی دوستانہ مجلس میں بھی علمی و فکری موضوعات بڑی خوش اسلوبی سے نکال لیتے تھے، غزالی بھائی کام کے دھنی انسان تھے، فراغت کے بعد عالم عربی میں بھی کچھ وقت گذارا، مگر دست قدرت نے انہیں جس کام کے لئے انہیں منتخب کیا تھا وہ ان کا منتظر تھا، علی گڑھ کے ڈاکٹر غیاث صاحب مرحوم جیسی جوہر شناس و قدر افزاء شخصیت کے زیر سرپرستی چلنے والے ادارے سے منسلک ہوگئے، اور تعلیم و تربیت سے وابستہ ہوکر میراث نبوت آخر دم تک تقسیم کرتے رہے،
جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم
سو اس عہد کو وفا کر چلے
زمانہ طالب علمی کے بعد علی گڑھ میں ان سے متعدد ملاقاتیں ہوئیں، غالبا دو مرتبہ قطر میں ملاقات ہوئی، رواق سلیمانیہ کے زمانہ اور اس زمانہ کی بے تکلفی، محبت ، و ادا میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوا، کبھی کسی موضوع پر تبادلہ خیال کے دوران وہ مجھ سے کہتے کہ ” مجیب بھائی آپ اس موضوع پر کام کیجئے” میں کہتا کہ : غزالی بھائی! اس کے لئے تو آپ سے زیادہ موزوں کوئی نہیں” بڑی تواضع کے ساتھ ہنستے ہوئے کہتے” استغفراللہ، نہیں ، نہیں، مجیب بھائی کیسی باتیں کررہےہیں ”
اب جب وہ ہمارے درمیان نہ رہے، اور رفیق اعلی کے حضور پہنچ گئے، ان یادیں تازہ رہیں گی، اللہ ان کی بال بال مغفرت فرمائے، درجات بلند فرمائے، علم نبوی کے خادموں میں شامل فرمائے، ان کے سوگوار خاندان اور بچوں کی بہترین کفالت فرمائے ، فاللہ خیر حافظا و ھو ارحم الراحمین