Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, June 15, 2019

بریلی کے بازار میں!! قسط دوٸم۔


_________________________
مولانافضیل احمد ناصری /صداٸے وقت۔
*بریلی کا تعارف*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بریلی شہر اتر پردیش میں دریائے گنگا کے کنارے واقع ہے، یہ یوپی کے بالکل وسط میں ہے۔ لکھنؤ سے اس کی مسافت 250 کلومیٹر ہے اور دہلی سے 255 ، جب کہ دیوبند اور بریلی کے درمیان 319 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ یہ قدیم ترین شہر ہے۔ اس کی شہرت سرمہ اور جھمکے سے زیادہ رہی ہے۔ جگت سنگھ کے دو بیٹے تھے، ایک بانس دیو، اور دوسرا بریل دیو، انہیں دونوں بھائیوں نے 1537ء میں اسے بسایا تھا اور اپنے ناموں پر اس شہر کا نام *بانس بریلی* رکھا تھا۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ بانس کا استعمال یہاں بہت زیادہ ہے، اس لیے اسے *بانس بریلی کہا جاتا ہے۔ *بریلی* کے ساتھ *بانس* کے اضافے سے *رائے بریلی* سے امتیاز ہو جاتا ہے، جو کہ لکھنؤ کے آس پاس ہے۔ بدعات کے فروغ میں بانئ بریلویت کے مجددانہ کارناموں کے بعد سے اسے *بریلی شریف* بھی کہا جاتا ہے۔ یہی وہ شہر ہے جس کی طرف منسوب ہو کر *اہل البدعۃ والخرافۃ* بریلوی کہلاتے ہیں۔ اہل البدعۃ والخرافۃ کی نظر میں اس شہر کی وہی حیثیت ہے جو اہل السنۃ والجماعۃ کے نزدیک 
حجازِ مقدس کی۔


*بریلویت سے ہماری بیزاری*
آگے بڑھنے سے پہلے یہ عرض کر دوں کہ بریلویت اور بدعت میں عموم خصوص مطلق کی نسبت ہے۔ ہر بریلوی لازماً بدعتی ہوگا، مگر ہر بدعتی بریلوی ہو، یہ کوئی ضروری نہیں ہے۔ اجمیر درگاہ کے مجاورین بدعتی ہیں، مگر بریلوی نہیں۔ اکثر بڑی درگاہوں کے سجادہ نشین اور مجاورین بدعتی تو ہیں، لیکن بریلویت سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ ان میں سے اکثر تو بانئ بریلویت کو جانتے تک نہیں۔
اس تمہید کے بعد عرض ہے کہ میرا خاندانی تعلق ابتدا سے ہی اہل السنۃ والجماعۃ سے رہا ہے اور بحمدہ تعالیٰ آج تک *خانوادۂ ناصری* میں بریلویت کا کوئی گزر نہیں ہوا۔ میرا موجودہ وطن بلہا، کمتول، ضلع مدھوبنی ہے۔ ایک زمانے میں یہ گاؤں تقریباً کل کا کل ہی بریلویت زدہ تھا۔ میرے والدِ مرحوم حضرت مولانا جمیل احمد ناصریؒ نے جب یہاں مستقل رہائش اپنائی اور مسجد کے امام بنے، بریلویت آہستہ آہستہ ایک محلے تک محدود رہ گئی۔ آج والدِ مرحوم کی مساعئ جمیلہ سے یہ گاؤں دیوبندی غلبے والا ہے۔ بریلویت کے خلاف نفرت ہمارے ذہنوں میں اس طرح بسا دی گئی تھی کہ ہم کسی بریلوی یا بریلوی زادے کو آتے ہوئے دیکھتے تو زور زور سے اس طرح چڑاتے: *بریلی بیل کا بچہ، دیوبندی دین کا سچا* ۔ جب کہ ہم میں شعور کہیں سے کہیں تک نہیں تھا۔ آغازِ زندگی سے ہی بریلویت کی مخالفت نے مجھے اس کا آسان شکاری بنا دیا ہے۔ اب تو برائے نام ہی اس کے رد میں قلم چلاتا ہوں، لیکن ایک دور وہ بھی گزرا ہے کہ میں اس کے خلاف شمشیر برہنہ رہتا تھا۔
*بانئ بریلویت کی قبر پر*
جناب احسن رضا نے جب اپنی شادی میں شرکت کے لیے مجبور کر دیا تو میں نے ایک شرط یہ رکھی کہ *بانئ بریلویت* کی قبر پر بھی جاؤں گا، جسے وہ مان گئے تھے۔ نکاح میں ابھی خاصا وقت تھا۔ لڑکی کے کئی اہم مہمان ابھی گھر نہیں آئے تھے، ان کا انتظار تھا۔ میں نے احسن رضا [دولہے میاں] سے کہا کہ نکاح ہوتے ہوتے شاید دو بج جائیں گے اور تین چار بجے بہار کو روانگی بھی ہے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ اس دو گھنٹے کے وقت کو کام میں لے آیا جائے، چناں چہ بانئ بریلویت کے کوچے کا قصد کر لیا گیا۔ مجھ سے کہا گیا کہ آپ اپنا پائجامہ ٹخنے سے ملا لیں اور ایک مخصوص رومال گردن میں لٹکا لیں جس کے دونوں کنارے کرتے کے دامن کے آخری حصے کو چھو رہے ہوں۔ یہ اس لیے، تاکہ لوگ آپ کو *بیگانہ* نہ سمجھ لیں۔ میں نے کہا کہ عزیزم! آپ فکر نہ کریں، یہ تشخصات ہمارا عظیم سرمایہ ہیں، میں جہاں بھی جاتا ہوں ان سے سمجھوتہ نہیں کرتا، ان کے بغیر گھر سے باہر میرا وجود نہیں۔ میں تو انہیں تشخصات کے ساتھ جاؤں گا۔ اللہ میری مدد کرے گا۔میری ضد دیکھ کر دولہے میاں مان گئے، البتہ یہ کہا کہ مسلکی گفتگو بالکل نہیں کرنی۔ میں نے کہا: ٹھیک ہے۔ پھر ہمارا سات نفری قافلہ رواں دواں ہوا اوربڑا بازار نامی علاقے میں کچھ چل کر ایک کوچے کو ہم مڑ گئے۔ یہ سیتارام نامی محلہ تھا۔ تھوڑا اور چلے تو ہمارے رہبر [یعنی دولہے میاں] نے بتایا کہ یہ *اعلیٰ حضرت* کا مکان ہے اور یہ ازہری میاں کا گھر۔ میں نے پوچھا کہ یہی *محلہ سودا گران* ہے؟ تو بولا: جی۔ بانئ بریلویت کے نسل کے مکانات راستے کی دونوں طرف تھے۔ میں نے اپنی عادت کے برخلاف موبائل سے ان مکانات کے فوٹو لیے اور سب کے ساتھ آگے بڑھ گیا۔ اب ہم ایک پتلی گلی میں تھے۔ بمشکل چالیس قدم چلے ہوں گے کہ درگاہ آگئی۔ اس کے دو دروازے تھے، ایک دروازہ سب سے بڑا اور شاہ در، جب کہ دوسرا بائیں طرف ذیلی جیسا۔ دونوں دروازوں پر موٹی موٹی پنّیاں لٹکی ہوئی تھیں، جو اس طرف مشیر تھیں کہ اندر اے سی کا انتظام ہے۔ شاہ در کو دیکھا تو اس پر ایک مصرع بہ زبانِ فارسی درج تھا:

*بے ادب پا منہ ایں جا کہ عجب درگاہست*
یعنی اس مقام پر بے ادبی کے ساتھ پاؤں نہ رکھنا، کیوں کہ یہ عجیب درگاہ ہے۔ میں چھوٹے دروازے سے جوں ہی داخل ہوا تو درگاہ واقعی عجیب لگی، بلکہ بہت عجیب۔
دروازے سے جاتے ہی دو نامعلوم قبریں راستے کے دائیں بائیں تھیں۔ چار قدم آگے بڑھا تو ایک نمایاں قبر دکھائی دی، جس پر پھولوں کے نذرانے تھے، کتبہ بھی لگا ہوا تھا، میں نے پڑھا تو معلوم ہوا کہ یہ تو بانئ بریلویت کے فرزند حامد رضا خاں [ولادت: 1875،وفات 1943] کی قبر ہے۔ وہی حامد رضا خاں، جنہیں ان کے حلقے میں حجۃ الاسلام اور نہ جانے کن کن القاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ قبر دیکھی تو بے ساختہ مولانا ظفر علی خان مرحوم یاد آگئے:
اوڑھ کر حامد رضا خاں آئے بدعت کا غلاف
ذات ان کی ہے مجدد، بات ان کی لام کاف
مانچسٹر کے کفن سازوں سے لایا ہے ادھار
شرک کی انٹی، بریلی کا یہ بڈھا نور باف
بیچ میں کھٹمل بھرا گودڑ ہے پھیلایا ہوا
گرچہ آتا ہے نظر اجلا، رضائی کا غلاف
پیکرِ طاغوت ہے یا ہے رضائے مصطفےٰ
باپ تھا اس لاش کا سر اور بیٹا اس کی ناف
مشغلہ ان کا ہے تکفیرِ مسلمانانِ ہند
ہے وہ کافر جس کو ہو ان سے ذرا بھی اختلاف
جب سے پھوٹی ہے بریلی سے کرن تکفیر کی
دید کے قابل ہے اس کا انعکاس و انعطاف
جو حریف اسلام کا ہو، آپ ہیں اس کے حلیف
اس کے دشمن آپ ہیں جو ہو نصاریٰ کے خلاف
ہم مٹا دیں گے زمانے سے نشاں اسلام کا
بندہ پرور! کہہ نہیں دیتے یہی کیوں صاف صاف
زندگی ہے اس کی ملت کے لیے پیغامِ موت
کر رہا ہو جو بجائے کعبہ، قبروں کا طواف
بانئ بریلویت کی نرینہ نسل انہیں سے چلی۔ ان کے بیٹے ابراہیم رضا ہیں اور ان کے پوتے منانی میاں، ازہری میاں وغیرہ۔
[جاری]