Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, June 26, 2019

بریلی کے بازار میں۔۔۔۔۔بارہویں قسط۔


✏ فضیل احمد ناصری / صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*مولانا محمد منظور نعمانی اور بریلی*
بریلی کا ذکر آئے اور مولانا محمد منظور نعمانیؒ کا ذکر نہ چھڑے تو ایسی ہر گفتگو اور ہر تحریر ادھوری ہی رہے گی۔ مولانا نعمانی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے بریلوی فرقے کے بے دانت کے شیروں سے کچھار سے باہر بھی دو دو ہاتھ کیے اور کچھار کے اندر بھی۔ مجددِ بدعات صاحب تو 1921 میں ہی آں جہانی ہو گئے تھے، مگر ان کے لائق و فائق فرزند حامد رضا خاں حیات تھے اور اپنے والد کی جگہ بدعت نوازی کا مورچہ سنبھالے ہوئے تھے۔ ملک بھر میں مناظرے کا ماحول برپا تھا۔ بریلوی فرقہ اپنے بانی کے ایجنڈے پر مسلسل کاربند تھا اور ہندوستان بھر میں مناظرے کے نام پر اپنی جہالت کا پرچم لہرا رہا تھا۔ علمائے دیوبند، جو ابتدا میں اس گوبر میں لات مارنا نہیں چاہتے تھے، وقت ایسا آن پڑا کہ گندگی کے اس پل سے انہیں بھی گزرنا پڑا۔ اس سلسلے میں سب سے بڑا اور پہلا نام حضرت مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوریؒ کا آتا ہے، انہوں نے نہ صرف پوری پا مردی اور مستعدی سے نہ صرف یہ کہ مناظرے کیے، بلکہ مجدد صاحب کے خلاف کتابیں بھی لکھیں، ایسی ایسی کتابیں کہ دیوبندی طبقہ بریلویت کو مات دینا چاہے تو انہیں کتابوں کا مطالعہ اس کے لیے کافی ہوگا۔

اس سلسلے کا دوسرا نام حضرت مولانا محمد منظور نعمانی کا آتا ہے، یہ سنبھل مراد آباد کے رہنے والے تھے۔ امام العصر علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ کے شاگردِ رشید۔ دارالعلوم کے ممتاز اور جید فاضل۔ اس کی مجلسِ شوریٰ کے رکنِ رکین۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں چار برس شیخ الحدیث بھی رہے ۔ درجنوں کتابوں کے مصنف، جن میں معارف الحدیث کئی جلدوں میں ہے اور شاہ کار ۔ 1903 کے آس پاس پیدا ہوئے اور 1997 میں وفات پائی۔
مولانا کی کل عمر 95 برس ہوئی، اس میں سے 50 پچاس سال تو صرف مناظروں میں گزر گئے۔ کبھی آریہ سماج سے مناظرہ۔ کبھی رضا خانیوں سے مناظرہ۔ کتابیں لکھ رہے ہیں۔ رسائل ترتیب دے رہے ہیں۔ پمفلٹ تیار کر رہے ہیں۔ بدعات کے خلاف نہایت گرم۔ بے باکی کا کوہِ ہمالہ۔ حکیم الامت حضرت تھانویؒ سے انتہائی مضبوط مراسم۔ کئی مناظروں میں ان کے وکیل بھی رہے۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ دل اچاٹ ہو گیا اور مناظروں سے تاحیات دامن کش رہنے لگے۔
*مولانا نعمانیؒ مدرسہ مصباح العلوم میں*
یہ دسمبر 1932 کی بات ہے، حضرت مولانا نعمانیؒ کا بریلی سے براہِ راست تعلق ابھی قائم نہیں ہوا تھا، ان کے استاذ مولانا کریم بخش صاحب سنبھلی [سابق استاذ مدرسہ عبدالرب، دہلی] کے فرزند حضرت مولانا عبدالحق صاحب مصباح العلوم میں صدر المدرسین کی حیثیت سے تشریف لائے اور تعلیمی سال کے اختتام پر مدرسے کا سالانہ اجلاس منعقد ہوا تو انہوں نے مولانا نعمانیؒ کو بھی خطاب کے لیے دعوت دی۔ مولانا ایک اجلاس کی نیت سے آئے تھے، مگر یہاں صورتِ حال دوسری پیدا ہو گئی۔ *حضرت محمدﷺ کی صداقت اور قرآن کا وحی الہی ہونا* کے موضوع پر ان کی تقریر تھی ۔ خطاب کے دوران ہی ایک صاحب کھڑے ہو گئے اور سوالات کرنے لگ گئے، پھر آگے کیا ہوا؟ انہیں کی زبانی سنیے:
*ان کے اعتراض نے بتایا کہ یہ آریہ سماجی ہندو ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ میری تقریر کے بعد مجھ سے ملیں اور اپنی بات کہیں، تب میں جواب دوں گا* ۔
*آریہ سماجی مناظر سے چھ روزہ مناظرہ*
یہ صاحب بلدیو پرشاد سوزن تھے۔ کسی اسکول وغیرہ کے ماسٹر بھی تھے۔ ان کے طرزِ کلام سے معلوم ہو رہا تھا کہ یہ آریہ سماجیوں کے نمائندے ہیں اور مسلمانوں سے مناظرے کے لیے اتاؤلے ہو رہے ہیں۔ پرشاد سوزن مولانا سے ملے اور باتوں باتوں میں مناظرے کا چیلنج دے دیا۔ آگے کی کار روائی خود مولانا کے قلم سے سنیے:
*شہر کے دو معزز مسلمانوں نے ان سے بات چیت کر کے میری منظوری سے چھ دن کا مناظرہ طے کیا، جس میں پہلے تین دن میں قرآنِ پاک کا وحیِ الہی ہونا موضوعِ بحث ہوگا اور دوسرے تین دن میں وید کے بارے میں یہی بحث ہوگی، مگر اللہ تبارک و تعالیٰ کی مدد سے پہلے تین دن میں یہ صورتِ حال ہوئی کہ خود ماسٹر صاحب طرف کے صدرِ جلسہ کو، جو خود ہندو ایک کالج کے پرنسپل تھے، چوتھے دن ماسٹر صاحب پر رحم کھا کر یہ کہنا پڑا کہ: مولانا صاحب! آپ کا اور ماسٹر صاحب کا کوئی مقابلہ نہیں ہے، اس لیے مناظرے کے مزید جاری رکھنے میں کوئی فائدہ نہیں۔ مناسب ہے کہ اب ختم کر دیا جائے۔ اس طرح چوتھے دن ہی یہ مناظرہ خود ماسٹر صاحب کے اپنے صدرِ جلسہ کی فرمائش پر ختم ہو گیا* ۔
*ماہنامہ الفرقان کا بریلی سے اجرا*
مناظروں میں مولانا نعمانیؒ کی سرگرمیاں اور کامیابیاں دیکھ کر اہلِ حق کا تقاضا تھا کہ ایک ماہنامہ ردِ رضاخانیت کے لیے جاری کیا جائے۔ مولانا اس کے لیے آمادہ تو تھے، مگر عملی جامہ پہنانے میں انہیں دشواری پیش آ رہی تھی۔ پھر خدا خدا کر کے وہ وقت آہی گیا، جس کا ملتِ اسلامیہ حقانیہ کو بے صبری سے انتظار تھا۔ ذی الحجہ 1352ھ میں استخارہ کے بعد اعلان کر دیا گیا کہ آئندہ محرم 1353ھ سے الفرقان جاری ہوگا اور اس کا سارا نظام بریلی سے چلے گا، چناں چہ اعلان کے مطابق وقتِ مقررہ پر رسالہ جاری ہوا اور امید و نا امیدی کے درمیان یہ برابر نکلتا رہا ۔ اس رسالے نے علمائے دیوبند کا دفاع اس شان سے کیا کہ بقول مدیر الفرقان:
*اس کے ذریعے بندگانِ خدا کو مختلف طریقوں سے دینی فائدہ پہونچتا رہا۔ اس کے اول دور میں کتنے ہی مسلمان اس کی بدولت مشرکانہ رسوم و عقائد سے تائب ہو کر اخلاصِ توحید و اتباعِ سنت کے راستے پر آئے۔ ہندوستان میں جن اہلِ علم بزرگوں کے دم سے توحید و سنت کا فروغ اور اس کی حفاظت و حمایت تھی، یعنی حضرت شاہ اسماعیل شہید دہلویؒ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ اور حضرت مولانا خلیل احمد سہارن پوریؒ وغیرہ، ان کے بارے میں بدعقیدگی اور بدگوئی سے اپنا نامۂ اعمال سیاہ کرنے والوں کو ان سے عقیدت و محبت کی دولت نصیب ہوئی اور بریلی کے رضا خانی فتنے کی حقیقت و اصلیت واضح کرنے میں جو کام الفرقان کے ذریعے انجام پایا، اس کے بارے میں تو یہ کہنے میں کوئی مضائقہ ان شاءاللہ نہیں ہوگا کہ وہ ابھی تک یکتا و یگانہ ہے۔ اور یہ سب بلاشبہ محض اللہ کی توفیق اور نصرت سے ہوا، ورنہ ایک تنِ تنہا پردیسی بندے کی کیا طاقت تھی کہ وہ عین بریلی ہی میں بیٹھ کر یہ کام انجام دیتا* [تحدیث نعمت، 67]
*بریلی سے لکھنؤ منتقلی*
رسالہ الفرقان پوری آب و تاب اور تام جھام سے بریلی سے نکلتا رہا اور دنیائے بریلویت کو للکارتا رہا۔ رسالہ عموماً *الیکٹرک پریس بریلی* سے ہی طبع ہوتا اور وہیں سے اس کی ترسیل ہوتی۔ 1934 سے 1946 تک لگاتار 12 سال بریلی سے اس کی خدمات جاری رہیں۔ اس دوران اس نے مجدد الفِ ثانی نمبر اور شاہ ولی اللہ دہلوی نمبر سمیت کئی اہم نمبرات شائع ہوئے۔ رسالہ جب تک بریلی میں رہا، محلہ شاہ آباد گھیر مولوی عبدالقیوم میں اس کا دفتر رہا۔
[اگلی قسط میں پڑھیں: الفرقان کا پس منظر اور مناظرۂ لاہور]