Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, June 27, 2019

خطاب رکن پارلیمان ماہوا موٸنترہ۔

صداٸے وقت/ خصوصی نماٸندہ۔
_________________________
تقسیم کی سیاست انڈیا کی سالمیت خطرے میں ڈال رہی ہے۔

انڈیا میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر پہلی مرتبہ منتخب ہو کر پارلیمان میں آنے والی رکن ماہوا موئترا کی اس حالیہ تقریر کی دھوم مچی ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ انڈین ریاست میں فسطائیت کی ابتدائی علامات موجود ہیں۔
ان کی تقریر، جس میں انھوں نے فسطائیت کی سات علامات کی نشاندہی کی ہے، کو اس برس کی ’سب سے عمدہ تقریر‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
فسطائیت (فاشزم) ایسی قوم پرستی ہے جو آمریت کے طور طریقوں کی جانب جھکاؤ رکھتی ہو۔
ماہوا موئترہ کا تعلق حزبِ اختلاف کی جماعت ترینامول کانگریس پارٹی سے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے فسطائیت کی ابتدائی علامات کی فہرست امریکہ کے ہالوکاسٹ میموریل میوزیم میں موجود ایک پوسٹر پر پڑھی تھی۔
موئترا کے مطابق اپنی تقریر میں ان علامات کو دہرنے کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ انڈیا کا آئین خطرے میں ہے اور حکمراں جماعت کی ’تقسیم کی سیاست کی ہوس‘ ملک کی سالمیت کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔
انھوں نے اپنی تقریر کا آغاز حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو حالیہ عام انتخابات میں ملنے والی شاندار کامیابی کی مبارک باد دینے سے کیا۔
حالیہ عام انتخابات میں عوام نے ملک کے طول و عرض سے اپنے ووٹ کے ذریعے یہ واضح کیا کہ وہ بی جے پی اور نریندر مودی کو دوبارہ برسراقتدار دیکھنا چاہتے ہیں۔
مودی اور بی جے پی کو ملنے والی ناقابل یقین کامیابی نے حزب اختلاف، جو کہ سخت مقابلے کی توقع لگائے بیٹھی تھی، کو ششدر کر دیا۔
اپنی تقریر کے آغاز میں ماہوا موئترہ کا کہنا تھا ’حاصل ہونے والا مینڈیٹ اس بات کا متقاضی ہے کہ اختلاف رائے رکھنے والوں کو بھی سنا جائے۔‘
اور اس کے بعد حکمراں جماعت کی سرزنش کرتے ہوئے انھوں نے فسطائیت کی سات ’ابتدائی مگر خطرناک علامات‘ بتانا شروع کیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’طاقت ور اور متواتر جاری رہنے والی قوم پسندی ہماری قومی ساخت کو دغدار کر رہی ہے۔ یہ سطحی، نفرت پر مبنی اور محدود ہے۔ یہ تقسیم کرنے کی ہوس ہے نا کہ اکٹھا کرنے کی خواہش۔‘
انھوں نے 'انسانی حقوق کو کمتر درجے' پر رکھنے کی حکومتی پالیسی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ انڈیا میں سنہ 2014 سے سنہ 2019 کے درمیان نفرت پر مبنی جرائم میں دس گنا اضافہ دیکھا گیا۔
موہوا موئترہ نے حکومت کو ’ذرائع ابلاغ پر ناقابل تصور تسلط` قائم کرنے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انڈیا کے ٹی وی چینلز ’نشریات کا زیادہ تر وقت حکمراں جماعت کی جانب سے دیے گئے پراپیگنڈے کو نشر کرنے میں صرف کرتے ہیں۔‘
انھوں نے ’قومی سلامتی کو لے کر ذہنی ہیجان‘ میں مبتلا انڈین حکومت پر تنفید کرتے ہوئے کہا کہ ’ڈر کی ایک فضا‘ ملک پر مسلط ہے جس کے تحت آئے روز ایک نیا دشمن تخلیق کیا جاتا ہے۔
’حکومت اور مذہب کو باہم یکجا کر دیا گیا ہے۔ کیا مجھے اس بارے میں بات کرنے کی بھی ضرورت ہے؟ میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ ہم نے شہری ہونے کی تعریف بدل کر رکھ دی ہے۔' انھوں نے کہا کہ مسلمانوں کو ہدف بنانے کے لیے قوانین میں ترامیم کی گئی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’ذی شعور افراد اور آرٹس کو مکمل طور پر حقیر جاننا اور اختلاف رائے کو دبانا‘ سب علامتوں میں سے خطرناک ترین علامت ہے۔ اور یہ چیز ’انڈیا کو تاریک دور (ڈارک ایجیز) کی طرف واپس دھکیل رہی ہے۔‘
فسطائیت کی آخری علامت بتاتے ہوئے موہوا موئترہ نے کہا کہ یہ ’ہمارے انتخابی عمل میں حاصل آزادی کی فرسودگی‘ ہے۔
ماہوا موئترہ کی یہ تقریر لگ بھگ دس منٹ دورانیے پر مبنی تھی جس کے دوران انھیں حکمران جماعت کے ممبران کی جانب سے کیے گئے شور و غوغا کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
مگر اس کے باوجود وہ کھڑی رہیں اور پارلیمان میں سپیکر سے یہ استدعا کی کہ وہ 'پیشہ ور مداخلت کرنے والوں' کو لگام دیں
اقتدار میں آنے کے بعد مودی کی سربراہی میں بی جے پی پر اقلیتوں پر مظالم ڈھانے اور ریاستی اداروں کو کمزور کرنے جیسے الزامات لگتے رہے ہیں تاہم بی جے پی ان تمام الزامات کی تردید کرتی ہے۔
انگریزی میں کی گئی ان کی تقریر میں نہ صرف حقائق اور اعداد و شمار بلکہ ہندی کی کئی نظمیں بھی شامل تھیں۔
ان کی مادری زبان بنگالی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہندی نظمیں پڑھنے پر ان کی سوشل میڈیا پر تعریف کی گئی۔
موئترہ لندن میں جے پی مورگن بینک میں انویسٹر بینکر کے طور پر کام کر رہی تھیں تاہم سنہ 2009 میں انڈیا میں سیاست میں قدم رکھنے سے قبل انھوں نے اس نوکری کو خیر آباد کہہ دیا۔
وہ اپنی پارٹی ٹی ایم سی کی ترجمان بھی رہ چکی ہے اور پرائم ٹائم ٹی وی شوز میں شمولیت کرتی رہتی ہیں۔
حالیہ انتخابات میں بی بی سی نے دو دن ان کے ساتھ مغربی بنگال کی ریاست کرشنا نگر میں ان کی الیکشن مہم کو کور کرتے گزارے۔
اپنی تقاریر میں انھوں نے بات کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی کو براہ راست ہدف تنفید بنایا تھا۔ انھوں نے الزام عائد کیا تھا کہ بی جے پی ہندوؤں اور مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ایک ایسے وقت میں جبکہ بی جے پی کو سادہ اکثریت حاصل ہے اور حزب اختلاف پارلیمان میں اپنی موجودگی کا احساس دلانے کی کوشش کر رہی ہے موئترہ کی تقریر کو اہم گردانا جا رہا ہے۔
اس خاتون ممبر پارلیمان کی تقریر کی اہمیت اس وجہ سے بھی ہے کہ انڈیا میں ابھی تک سیاست پدر شاہی کے گرد گھومتی ہے۔ پارلیمان میں خواتین کی تعداد صرف 14 فیصد ہے۔
اگرچہ کئی خواتین رکن پارلیمان کاروائی میں حصہ لیتی اور تقریریں کرتی ہیں مگر کافی وہ بھی ہیں جو خاموشی سے سائیڈ پر بیٹھنا پسند کرتی ہیں۔
بدھ کے روز ماہوا موئترا نے بی بی سی ہندی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم اپوزیشن میں ہیں اور یہ ہمارا کام ہے کہ مسائل کو سامنے لائیں۔ ہمیں آواز بلند کرنی چاہیے اور نشاندہی کرنی چاہیے۔ ہم ہر نوعیت کے مسائل پر آواز بلند کریں گے۔'
'اپوزیشن کا کام حکومت کی ناکامیوں اور ان مسائل کی نشاندہی کرنا ہے جن پر حکومت کی توجہ نہیں ہوتی۔ یہ میرا کام ہے اور میں اس کو بااحسن و خوبی سرانجام دوں گی