Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, June 15, 2019

افغانستان میں منشیات کی کاشت اور اسمگلنگ کے مراکز۔


عمیر کوٹی ندوی/صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منشیات کی وسیع پیمانے پر افغانستان میں کاشت اور یورپ وامریکہ میں اس کی اسمگلنگ کے تعلق سے ایران کی باتوں پر دنیا نے بھلے ہی کان نہ دھرا ہولیکن بات بہت اہم ہے۔ امت مسلمہ کے درمیان ہزار اختلافات اور گروہ بندیوں کے باوجود منشیات کی قباحت، مضرات، اس کی حرمت کے بارے میں کوئی قیل وقال نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شراب کو  گندا اور شیطانی کام قرار دیا ہے۔"اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہ شراب اور جوا اور یہ آستانے اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو"(المائدہ-90)۔جب شراب پینے والا شراب پیتا ہے تو ایمان اس سے جدا ہو جاتا ہے" شراب پینے والا شراب پیتے وقت مومن نہیں ہوتا ہے"(بخاری-202)۔ شراب ہی نہیں اسلام نے ہر نشہ آور چیز کو حرام قرار دیا ہے"ہر نشہ لانے والی خمر ہے اور ہر خمر حرام ہے "(مسلم-5221)۔ اس کی ہرچھوٹی بڑی مقدار حرام ہے"جس کی زیادہ مقدار نشہ آور ہے تواس کا ایک قطرہ بھی حرام ہے"(جامع المسانید والسنن،633، ج28)۔نشہ آور اشیاء کااستعمال ہی نہیں اس کی پیداوار اور تجارت میں کسی بھی قسم کی شرکت اور حصہ داری بھی حرام ہے۔اسلام میں صاف طور پر نشہ آور اشیاء کوبنانے،اس کی  پیداور، کاشتکاری،اس کے فروغ میں کسی بھی طرح سے ذریعہ بننے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔اس تفصیل کے بعد موضوع کے مرکزی نکتہ پر نظر ڈالنا ضروری ہوجاتا ہے۔یہ بات صد فیصد درست ہے کہ افغانستان بیسویں صدی کے اوائل سے اب تک دنیا میں افیون کو سب سےزیادہ  پیدا کرنے والا ملک ہے۔

وائس آف امریکہ کے مطابق 2016ء میں افغانستان میں پوست کی پیداوار 201000 ہیکٹر پر کی گئی جس کی وجہ سے 4700 ٹن افیون پیدا ہوا،نتیجتاً اس برس2015ء کے مقابلے میں 46 فی صد تک کا اضافہ ہوا۔  اس کے بعد اقوام متحدہ کے منشیات اور جرائم کے ادارے یواین او ڈی نے ایک سروے کی بنیاد پر کہا کہ  افغانستان میں افیون کی پیداوار میں 87 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ اس کے مطابق افغانستان میں اس سال افیون کی 9 ہزار ٹن ریکارڈ پیدا ہوئی ہے جوماضی کے مقابلے میں 87 فی صد زیادہ ہے۔ اس کے بعد 22 مئی2018ء میں شائع ایک خبر میں اقوام متحدہ کے حوالے سےکہا گیا کہ 2017 ء کے دوران افغانستان میں افیون کی کاشت میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ2017 ء میں 3 لاکھ 28 ہزار ہیکٹر رقبے پر جبکہ 2016ء میں 2 لاکھ ایک ہزار ہیکٹر رقبے پر افیون کاشت کی گئی تھی۔افغانستان کی وزارت برائے انسدادِ منشیات اور جرائم کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ادارے کی جانب سے کیے گئے سالانہ مشتر کہ سروے "افغانستان افیون سروے 2017ء" کے مطابق دو ہزار سولہ اور سترہ کے درمیان افیون کی کاشت کے رقبے میں ایک لاکھ ستائیس ہزار ہیکٹر کا اضافہ ہوا ہے۔اقوام متحدہ ميں منشيات کی روک تھام کے ادارے کے سربراہ اينتونيو ماريہ کوستا کے مطابق پچھلے 100 برسوں ميں دنيا کے کسی ملک ميں اتنے بڑے پيمانے پر منشيات کی کاشت نہيں کی گی جتنی کہ افغانستان ميں کی گئی ہے۔ 100 سال پہلے يہ "مقام" چين کو حاصل تھا۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ منشیات کی کاشت  اور اس میں اضافہ کا سلسلہ وہیں پر رکا نہیں ہے بلکہ مسلسل  تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔
منشیات کا ایک پہلو اور بھی ہے وہ یہ کہ  اس کی کاشت اور پیداوار افغانستان میں تو ہوتی ہے لیکن  کہاں جاتی ہے اور کہاں استعمال ہوتی ہے، عالمی ادارے اور عالمی میڈیا بار بار اس حقیقت کو بیان کرتے رہے ہیں کہ جس طرح دنیا میں سب سے زیادہ منشیات کی کاشت افغانستان میں ہوتی ہے اسی طرح دنیا میں اس کا سب سے  زیادہ استعمال امریکہ اور یورپ  میں ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں منشیات کی کاشت خوب پھل اور پھول رہی ہے اور راست طور پر یورپ 
وامریکہ میں اسمگل ہو رہی ہے۔اس کام کے لئے افغانستان میں 
'امنِ عامہ کی خراب صورتحال' اور 'سیاسی عدم استحکام' کا ہونا ضروری تھا۔ منشیات کے تعلق سے اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بھی اسے بنیادی اسباب میں تسلیم کیا گیا ہے۔ اس اعتبار سے افغانستان کو  دیکھیں تو  سوویت یونین اور امریکہ کے مابین سرد جنگ کے دوران اور اس کے بعد بھی  جس میں یہ پورا علاقہ امریکہ کے زیر اثر رہا یہاں منشیات کی کاشت کا کام زور وشور سے چلتا رہا۔ اس کے بعد جب طالبان نے افغانستان پر کنٹرول حاصل کیا تو بڑی حد تک  امنِ عامہ کی خراب صورتحال اور  سیاسی عدم استحکام پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ  منشیات کی کاشت کاری پر بھی اس نے قابو پالیا تھا۔ عالمی میڈیا اور ادارے اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ طالبان حکومت نے منشیات کی کاشت کو حرام قرار دیا تھا۔1996 ميں طالبان حکومت نے يہ فيصلہ کيا تھا کہ منشيات کا کاروبار خلاف اسلام ہے اور  طاقت کے ذریعہ اسے ختم کر دیا تھا، اس کی کاشت کو صفر 
تک پہنچا دیا تھا۔

ليکن 2001 ميں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان میں منشيات کی کاشت کا کام دوبارہ شروع کر ديا گيا۔ان تمام تفصیلات کے بعد اور اس امکان کو تسلیم کرنے کے باوجود کہ ایران کی اس بات کے دوسرے معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ " ایران افغانستان سے یورپ تک منشیات اسمگلنگ کرنے کے راستے میں واقع ہونے کی وجہ سے اس لعنت کی روک تھام کی فرنٹ لائن پر ہے اسی لے" ایران کو منشیات کے خلاف لڑائی میں سب سے زیادہ جانی اور مالی نقصان کا سامنا ہے"۔ اس کے باوجود  ایران کا یہ انتباہ بلاوجہ نہیں ہے کہ" یورپ منشیات کے خلاف جنگ میں اپنی ذمہ داری کو پورا کرے۔ا ور اگر اس نے ایسا نہ کیا تواسے اپنے ملکوں کے اندر منشیات سے مقابلہ کرنا ہوگا جو کہیں زیادہ مشکل ہو گا"۔اس کا اندازہ حال ہی میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے جو یورپ میں منشیات سے ہونے والے نقصانات کو بیان کرتی ہے۔ یورپی ڈرگ رپورٹ کے مطابق منشیات کی زیادہ مقدار لنے  کی وجہ سے 2018ء کے دوران یورپ میں آٹھ ہزار سے زائدافراد مارے گئے،2017ء کے مقابلے میں یہ تعداد تقریبا تین سو سے زائد بنتی ہے، تاہم امریکہ کے مقابلے میں یہ تعداد دس گنا سے بھی کم ہے۔ یہ اس بات کا ادنیٰ سا ثبوت ہےکہ  لالچ، عناد اور برائی  خود اسے سہارا دینے والے ہاتھوں کو بھی تباہی سے ہمکنار کردیتی ہے اس لئے اس سے باز آنا عقل مندی ہوگی۔