Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, July 17, 2019

بریلی کے بازار میں۔۔۔20 ویں قسط۔

✏ فضیل احمد ناصری / صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*عطاری فرقہ اور اس کی علامات*
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔
یہ فرقہ ایک جدید فرقہ ہے، جو رضاخانیت سے کٹ کر بنا ہے۔ اس کے بانی جناب الیاس عطار قادری ہیں۔ یہ آج بھی خود کو فدائے احمد رضا خاں کہتے ہیں، مگر دھیرے دھیرے انہوں نے عملاً خود کو الگ کر لیا ہے۔ ان کی تعلیمات بھی الگ ہیں۔ شناخت بھی سب سے جدا۔ ان کی یہ جماعت پاک و بیرونِ پاک سمیت بریلی میں بھی ہاتھ پاؤں مارنے میں مصروف ہے۔ بریلی کے جس علاقے میں اس کا غلبہ ہے وہاں الیاس قادری کا رنگ و آہنگ پوری طرح لیے رہتی ہے۔ جہاں کس نمی پرسد کی صورتِ حال سے دو چار ہے وہاں اس کا پورا رنگ و روپ اور چال ڈھال رضاخانیوں والا ہے۔ بریلی میں اس فرقے کا ظہور کب ہوا کہنا مشکل ہے، تاہم خیال یہی ہے کہ 1982 کے بعد یہاں اس نے قدم رکھا ہوگا۔ پرانا شہر اس کا صدر مقام ہے، پرانا شہر کو شامت گنج بھی کہتے ہیں۔

*الیاس عطار قادری کا تعارف*
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔
عطاری فرقہ جس بندے کی طرف منسوب ہے، اس کا نام الیاس عطار قادری ہے۔ یہ جناب میمن برادری سے ہیں۔  اصلاً ہندوستان کے گجرات سے تعلق رکھتے ہیں۔ تقسیمِ ہند کے موقعہ پر ان کے والد حاجی عبدالرحمن جونا گڑھ سے پاکستان کے شہر حیدرآباد اور پھر وہاں سے کراچی منتقل ہو گئے۔ وہیں 1950 میں جناب نے آنکھیں کھولیں۔ قادری صاحب ایک سال کے ہی تھے کہ داغِ یتیمی جھیلنا پڑا۔ اس وقت ان کی عمر 69 سال ہے۔
انہوں نے باقاعدہ دینی ادارے سے نہیں پڑھا، بلکہ درسِ نظامی کی کوئی کتاب انہوں نے چھوئی تک نہیں۔ ان کا سارا علم ان کے معتقدین کے بقول: لدنی اور وہبی ہے۔ رضاخانی فرقے کے مشہور رہ نما اور اس نو زائیدہ جماعت کے مفتئ اعظم پاکستان جناب مفتی وقار الدین کے پاس 22 سال تک استفادے کی غرض سے پڑے رہے۔ قادری صاحب ان کے شاگرد بھی ہیں اور ان کے اکلوتے خلیفہ بھی۔
*عطار کیوں لکھتے ہیں؟*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الیاس قادری کے معتقدین *عطار* کو ان کا تخلص سمجھتے ہیں، جب کہ ایسا ہے نہیں۔ یہ جناب معاشی استحکام کی تلاش میں جن جن وادیوں سے گزرے ان میں سڑک چھاپ کی چلتی پھرتی دکانیں بھی شامل ہیں۔ قادری صاحب نے پھیرے لگا کر کبھی سبزیاں بیچیں، ان میں فیل ہوئے تو قلفی فروشی میں لگ گئے۔ قسمت نے یہاں بھی یاوری نہ کی تو اسے چھوڑ کر چنے، چھولے اور مربے کا رواں دواں کاروبار کیا۔ وہاں بھی ناکامیوں نے تعاقب نہ چھوڑا تو اگربتیاں اور عطر بیچنے لگے ، اسی عطر فروشی کی مناسبت سے عطار کہلائے اور ان کے غالی عقیدت گزیدوں نے *عطار* کو تاجرانہ لقب سے شاعرانہ تخلص بنا دیا۔
*الیاس قادری کی دعوتِ اسلامی*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علمی شدبد نہ ہونے کے باوجود بانئ عطاریہ عوام کی اصلاح کے لیے کود پڑے اور امیرِ اہلِ سنت کہلائے۔ 1981 میں احمد شاہ نورانی کے گھر *قیامِ دعوتِ اسلامی* کا مشورہ ہوا تو قادری صاحب کے استاذ مفتی وقار الدین نے انہیں ہی امیر نامزد کر دیا۔ اس مجلس میں احمد سعید کاظمی اور ارشد القادری بھی موجود تھے۔ دعوتِ اسلامی 1981 سے برابر کام کر رہی ہے۔ 1996 میں اس کی اپنی ویب سائٹ بنی اور 2009 میں ٹیلی ویژن پر چینل کا آغاز ہوا۔ یہ چینل اب مدنی چینل کہلاتا ہے، ان کے مخالفین مدنی چینل کو *آمدنی چینل* کہتے ہیں۔
*فیضانِ سنت*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت مولانا الیاس کاندھلویؒ کی طرز پر الیاس قادری نے بھی اپنے مشن کو فروغ دیا اور اسے *مدنی قافلہ* نام دیا۔ یہ قافلہ تحریکِ الیاسی کے طریقے پر لوگوں کو اپنے فرقے سے جوڑ رہا ہے۔ اس کی دعوت کو عام کرنے کے لیے فضائلِ اعمال کی طرح فیضانِ سنت کے نام سے دو جلدوں میں ضخیم کتاب تیار کرائی۔ یہ کتاب *مدنی قافلے* میں اسی قدر مقبول ہے، جس طرح الیاسی تحریک میں فضائلِ اعمال۔
*بانئ عطاریہ کے القاب*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بانئ عطاریہ قادری صاحب نے اگرچہ کچھ نہ پڑھا ہو، مگر ان کے عقیدت مندوں کے نزدیک وہ فقید النظیر عالمِ ہیں۔ ان کے القاب و خطابات کی لائن لگی ہوئی ہے۔ کچھ لوگ انہیں *بانئ دعوتِ اسلامی* بھی کہتے ہیں۔ عام طور پر *باپا جانی* کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔ ان کے القاب آپ دیکھیں گے تو حیران رہ جائیں گے کہ پڑھے لکھے بغیر بھی ایسی عظیم شخصیت ہمارے سامنے موجود ہے۔ دیکھیے ان کے یہ القاب:
*عالمِ نبیل، فاضلِ جلیل، عاشقِ رسولِ مقبول، یادگارِ اسلاف، نمونۂ اسلاف، مبلغِ اسلام، رہبرِ قوم، عاشقِ مدینہ، فدائے مدینہ، فدائے غوث الوریٰ، صاحبِ تقویٰ، ترجمانِ اہلِ سنت، محسنِ اہلِ سنت، حامئ سنت، شیخِ وقت، پیر طریقت وغیرہ۔
*عطاری فرقے کی لازمی علامتیں*
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بانئ عطاریہ کا حلیہ بہت مخصوص ہے اور عام بدعتیوں سے بالکل الگ تھلگ۔ یہ جناب بالعموم ہری پگڑی باندھتے ہیں۔ اوپر سے سفید چادر اوڑھتے ہیں۔ پگڑی کی پیشانی پر نقشِ نعل لگاتے ہیں۔ سر اور داڑھی میں لال مہندی کا خضاب کرتے ہیں۔ ان کا یہ حلیہ ان کے ماننے والوں میں بڑا مقبول ہے۔ اس فرقے کے لوگ عموماً *ہری پگڑی والے* کہے جاتے ہیں۔ عطاری فرقہ اپنے بانی کے طریقے پر اس درجہ کاربند ہے کہ جب یہ لوگ کسی جگہ اکٹھے ہوں تو ایسا معلوم ہوگا کہ ان کے سر پر طوطے بیٹھے ہیں۔ سربراہ سے ایسی کلی محبت کسی بھی بدعتی فرقے میں نہیں پائی جاتی۔ یہ لوگ دور سے ہی پہچان لیے جاتے ہیں۔ اپنی وضع قطع سے کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے۔ ہاں لبرل عطاریوں میں یہ باتیں نہیں پائی جاتیں۔
*بانئ عطاریہ کی تعلیمات*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الیاس قادری نے مدنی چینل کو اپنے مشن کے فروغ کا سب سے مضبوط ذریعہ بنا رکھا ہے۔ وہ اس چینل کے ذریعے عوام سے مخاطب ہوتے ہیں اور اپنی تعلیمات سے نوازتے ہیں۔ اپنے مریدوں کو *میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو* اور خواتین کو *میٹھی میٹھی اسلامی بہنو* کے ذریعے خطاب کرتے ہیں۔ وہ سمجھاتے ہیں کہ کیلے کس طرح رکھنے چاہییں۔ ان کا منہ قبلہ کی طرف ہو یا مشرق کی طرف؟ کھیرا چھیلنے کا مدنی طریقہ کیا ہے اور چھیل کر دکھاتے بھی ہیں۔ نقشِ نعلِ رسولﷺ کے فضائل اس قدر بتاتے ہیں گویا اس کے بغیر عطاریت کا کوئی وجود نہیں۔ اس نقش پر حضورﷺ کا اسمِ مبارک بھی لکھتے ہیں۔ ان کی تعلیمات میں وہ سارے عناصر موجود ہیں جو ایک تھکے ہوئے غیر عطاری کو گدگدا دیتے ہیں اور ساری تکان ایک پل میں کافور جاتی ہے۔ مجھے جب کبھی ذہنی الجھن دور کرنی ہو تو بانئ عطاریہ کے *ملفوظاتِ گرامی* ویڈیو سے سن لیتا ہوں۔ ایک ہفتہ تک زیرِ لب مسکراتا رہتا ہوں۔
*بانئ عطاریہ کی عنداللہ مقبولیت*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الیاس قادری صاحب اللہ کے یہاں اتنے مقبول ہیں کہ باقاعدہ ان کے خواب میں رسولﷺ بھی تشریف لاتے ہیں۔ ایک خواب انہوں نے خود سنایا کہ میں خانۂ کعبہ کے اندرونی حصے میں بیٹھا تھا، اچانک دیکھتا کیا ہوں کہ پیغمبرﷺ میری طرف تشریف لا رہے ہیں، آپ کے ساتھ سیدنا ابوبکرؓ، سیدنا عمر فاروقؓ سمیت متعدد صحابہؓ ہیں۔ خواجہ عبدالقادر جیلانیؒ بھی ہیں۔ فرمایا: یہ میرا سب سے پسندیدہ غلام ہے۔ میں اسی سے ملاقات کے لیے یہ قافلہ لے کر آیا ہوں۔ اتنا سب کچھ ہوا۔ حضورﷺ آئے بھی اور گئے بھی، مگر میں اپنی جگہ بیٹھا رہا۔ ہلا تک نہیں۔
بانئ عطاریہ نے اپنی فضیلت کے لیے یہ خواب تو سنانے کو تو سنا دیا، مگر یہ سنانا بڑا مہنگا پڑ گیا۔ انہیں کی جماعت کے رہ نماؤں نے ان پر کفر کا فتویٰ لگا دیا۔ یہ فتویٰ آج بھی ان کی پیشانی سے لگا ہوا ہے۔
[اگلی قسط میں پڑھیں: دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ اور بریلی کے تعلقات]