Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, July 20, 2019

ہاتھی نے ساٸیکل کو کچلا۔۔۔اور کمل کے وارے نیارے۔


ڈاکٹر سلیم خان/صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اتر پردیش کے اندر ضمنی انتخابات کی تیاری کا آغاز ہوگیا ہے۔ قومی انتخابی مہم میں بی جے پی کو سب سےبڑا جھٹکا اتر پردیش میں اس وقت لگا جب اکھلیش اور مایا وتی ساتھ آگئے ۔ اس پر قابو پانے کے لیے پلوامہ اور ائیر اسٹرائیک کا کھیل ہوا ۔ ایس پی بی ایس پی اتحاد کو بی جے پی نے موقع پرستی اور ذات پات کا فروغ قرار دیا تھاحالانکہ خود اس کےمتحدہ قومی محاذ میں شامل اپنا دل جیسی اکثر جماعتیں خالص ایک مخصوص ذات کی پارٹیاں ہیں ۔ایک طرف یہ الزام لگایا جارہا تھا اور دوسری جانب مختلف طبقات کو ذات پات کی عصبیت بھڑکا کر اکھلیش اور مایا وتی سے الگ کیا جارہا تھا ۔ کہیں دیگر پسماندہ ذاتوں کے غیر یادو لوگوں کو الگ کیا جارہا تھا تو کہیں دلتوں کو جاٹو سماج سے دور کرنے کی کوشش کی جارہی تھی ۔ اس حرکت کے لیے سنگھ پریوار کے دانشوروں نے سوشیل انجنیرنگ کی خوبصورت نام دے رکھا ہے۔ یہ ایسا ہی جیسے طوائفوں کو سیکس ورکر کہہ کر پکارا جانے لگے اور اس سے نفس واقعہ پر کوئی اثر نہیں 
ہو لیکن لوگ بہل جائیں ۔

بی جے پی کے وزیراعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ نے حال میں کئی او بی سی طبقات کودرج ذیل ذاتوں کی فہرست میں شامل کرنے کا فرمان جاری کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ان میں اور ملائم سنگھ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ۲۰۰۵؁ کے اندر جس طرح ملائم سنگھنے مختلف پسماندہ ذاتوں کو شیڈیول کاسٹ(ایس سی) میں شامل کرنے کا فیصلہ اسی کو یوگی نے دوہرا دیا۔ ملائم کے بعد جب اکھلیش نے یہ حرکت کی توعدالت نے اس فیصلے پر روک لگا دی تھی۔ عدالتی رکاوٹ کے دور ہونے پر سارے کمشنر اور کلکٹروں سےکہا گیا کہ الٰہ آباد ہائی کورٹ میں دائر مفاد عامہ عرضی کے عبوری حکم پرعمل کرتے ہوئے ان طبقات کو صحیح دستاویزوں کی بنیاد پر ایس سی کا سرٹیفکیٹ فراہم کرنے کا حکم دیا گیا لیکن بی جے پی کےہی مرکز ی وزیر سماجی فلاح وبہبود کے وزیر تھاور چند گہلوت نےاس اقدام کو غیر آئینی قرار دیا ۔ ان کے مطابق یہ اختیار صوبائی حکومت تو دور صدر مملکت کو بھی نہیں ہے ۔ یہ کام صرف مرکزی حکومت کرسکتی ہے ۔ اس طرح ضمنی انتخاب سے خوفزدہ یوگی سرکار ذات پات کی سیاست میں ملائم سنگھ یادو کو پیچھے چھوڑ دیا۔

جنوری ۲۰۱۹؁ میں جب سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی نےمتحد ہوکر پارلیمانی الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تھا تو بی جے پی کے خیمہ میں کھلبلی مچ گئی ۔ اس موقع پر مایاوتی نے کہا تھا کہ دونوں پارٹیوں کے درمیان 26 سال بعد اتحاد ہو رہا ہے۔ سماج میں نفرت وانتشار پھیلانے والی بی جے پی کو ہرانا گیسٹ ہاوس کانڈ کو یاد رکھنے سے زیادہ ضروری ہے ۔مایا وتی نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ دیر پا اتحاد اسمبلی الیکشن میں بھی قائم رہے گا۔اس کے جواب میں اکھلیش یادو نے بی جے پی پر مذہب و ذات برادری کی سیاست کرنے کا الزام لگاکر اس کو اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت پر زور دیاتھا۔انھوں نے سماجوادی کارکنان سے کہا تھا کہ مایا وتی کی عزت کریں کیونکہ ان کی عزت میری عزت ہے اور ان کی بے عزتی میری بے عزتی ہے۔ اس خوش آئند تبدیلی سے بی جے پی کو ۵۲ نشستوں کے نقصان کی قیاس آرائی کی گئی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ایس پی پہلے کی طرح ۵ سے آگے نہیں بڑھ سکی الٹا کانگریس دو سے ایک پر آ گئی ۔
اس سیاسی الحاق کا سب سے بڑا فائدہ بی ایس پی کو ملا جو صفر سے دس پر جا پہنچی لیکن افسوس کہ اس کو توڑنے کی پہل مایا وتی نے کی اور ناکامی کا الٹا الزام ایس پی کے سر منڈھ کراپنے ہی ہاتھی سے فوج کو روند دیا۔ اس ناکامی کی اصل وجہ ایس پی نہیں بلکہ بی ایس پی کے ووٹ کا منتقل نہ ہونا تھا وگرنہ سماجوادی کی نشستوں میں بھی اضافہ ہوتا۔ دوران ِمہم للن ٹاپ چینل کی ایک ویڈیو ٹیم نے اترپردیش کےکسی دلت گاوں کے باشندوں سے پوچھا کس نشان پر مہر لگاوگے توان لوگوں نے جواب دیا ہاتھی پر ۔ نامہ نگار نے دریافت لیکن یہاں تو ای وی ایم پر ہاتھی موجود ہی نہیں ہوگا تب کیا کروگے ؟ جواب ملا تب پھر کمل پر مہر
 لگادیں گے۔

 بی جے پی کی 
دوبارہ کامیابی اسی دلت ووٹ کی بدولت تھی جو ایس پی کے بجائے اس کو ملا تھا کیونکہ یا تو مایا وتی نے قصداً اپنے رائے دہندگان کو اتحاد سے واقف کرانے کی زحمت نہیں کی تھی یا سہواً اس میں ناکام رہی تھیں ۔
اپنی اس کوتاہی کا اعتراف کرکے تلافی کرنے کے بجائےجون ۲۰۱۹؁ میں بہوجن سماج پارٹی نے سماجوادی پارٹی کو اندرونی طور پر دھوکہ دہی کا ملزم ٹھہراکر اتحاد ختم کردیا ۔ انہوں نے کہا کہ ایس پی سازش کے تحت اپنا بنیادی ووٹ بنک بھی سنبھال نہیں سکی ۔ مایا نے یادو اکثریتی نشستوں مثلاً قنوج میں ڈمپل یادو، بدایوں میں دھرمیندر یادو اور فیروز آباد میں رام گوپال یادو کے بیٹے كی شکست پر تشویش ظاہر کیا۔مایا وتی نے الزام لگایا کہ سماج وادی پارٹی کی جانب سے بہوجن سماج پارٹی کو ووٹ نہیں‌ دیےم گئے لہٰذا بہوجن سماج پارٹی آئندہ ضمنی اسمبلی انتخابات اکیلے لڑے گی ۔ گزشتہ پارلیمانی انتخاب میں سپڑا صاف ہوجانے کے بعد بی ایس پی کے ٹکٹ کا بھاو گر گیا تھا اس لیے مایا وتی نے ضمنی انتخاب سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی ۔ اب پھر اس کی طلب بڑھی ہے ایسے میں اگر ایس پی کے ساتھ مل کر انتخاب لڑا جائے تو مایا وتی صرف ۶ یا ۷ ٹکٹ بیچ سکیں گی لیکن تنہا لڑنے کی صورت میں پورے ایک درجن ٹکٹ بیچ کر بڑی رقم کمائی جاسکتی ہے۔ اسی مایا جال نے اتر پردیش میں ایس پی اور بی ایس پی اتحاد کا گلا گھونٹ دیا۔ جس دولت کی لالچ میں مایاوتی اپنا عزت و وقار پامال کردیتی ہیں وہ بھی ان کے ہاتھ نہیں آتی ۔ انکم ٹیکس محکمہ نے بی ایس پی سربراہ مایاوتی کے بھائی اور پارٹی نائب صدر آنند کمار اور ان کی بیوی کے خلاف بڑی کارروائی کرتے ہوئے نوئیڈا میں 400 کروڑ روپے کا ایک بے نامی پلاٹ کو ضبط کرلیا ہے۔ دنیابھر میں اسباب و عوامل کی مدد سے نتائج اخذ کیے جاتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں گنگا الٹی بہتی ہے یہاں پر نتیجے کو دیکھ کر سبب ایجاد کیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی اختراع ہوتی ہے جس کا حقائق سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔یہی کھیل اتر پردیش میں چل رہا ہے.