Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, July 5, 2019

راہل گاندھی کا راہ فرار کیوں؟؟

از / ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔ ۔۔۔ مدیر اعلیٰ ۔۔۔صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راہل گاندھی

۔۔۔۔۔
کانگریس پارٹی کے قومی صدر راہل گاندھی نے پارلیمانی الیکشن 2019 کی شرم ناک شکست کے بعد ذمے داری قبول کرتے ہوٸے عہدہ صدارت سے مستفیٰ ہونے کی پیشکش کی۔مگر کانگریس کی ورکنگ کمیٹی نے ان کے استعفیٰ کو نامنظور کرتے ہوٸے ان سے حالات کا مقابلہ کرنے کو کہا۔تقریباً ایک ماہ سے چل رہے اس ڈرامے پر اب مہر لگ چکی ہے اور راہل گاندھی نے اپنا حتمیٰ فیصلہ سنا دیا ہے کہ اب وہ کانگریس کے صدر نہیں رہیں گے اور ورکنگ کمیٹی سے کہا ہے کہ جلد ازجلد کوٸی صدر منتخب کر لیں۔یہاں تک کہ انھوں نے ٹویٹر سے بھی اپنے عہدہ صدر کا لفظ بھی ہٹا دیا ۔ راہل گاندھی نے کٸی صفحات پر مشتمل اپنے استعفے کیساتھ ایک خط بھی منسلک کیا ہے اور اسکو عام بھی کردیا ہے۔اس خط میں سیدھے طور پر بی جے پی اور أر ایس ایس پر  الزام لگاتے ہوٸے کہا گیا ہے کہ أر ایس ایس اپنے ایجنڈے اور اپنے مقصد میں کامیاب ہوگٸی ہے۔بی جے پی پیسوں کی بدولت الیکشن جیتی ہے۔اس کا سبھی أٸینی اداروں پر قبضہ ہے عدلیہ سے لیکر الیکشن کمیشن تک سبھی بی جے پی سرکار کے اشاروں پر کام کرتے ہیں۔انھوں نے اس طرف بھی اشارہ دیا کہ ملک میں جمہوریت ختم ہو جاٸے گی اور الیکشن محض ایک خانہ پوری ہو کر رہ جاٸے گا۔۔دلت ، اقلیت،کسانوں و خواتین کو بہت نقصان اٹھانا پڑے گا۔راہل گاندھی کے خط میں کل دس نقطے ایسے ہیں جو واقعی میں اگر وقوع پزیر ہوٸے تو ہندوستان خطرے میں پڑ جاٸے گا۔ملک کی جمہوریت ختم ہو جاٸے گی تانا شاہی کا دور شروع ہوجاٸے گا ملک میں انارکی پیدا ہوجاٸے گی اور ملک خانہ جنگی میں مبتلا ہو جاٸے گا اور فوجی حکومت بھی أسکتی ہے۔
مضمون نگار ڈاکٹر شرف الدین اعظمی

ان حالات میں راہل گاندھی کا کانگریس پارٹی کے صدر کے عہدہ سے استعفیٰ دینا ”راہ فرار “ ہے۔راہل گاندھی کو جب ان خطرات کا اندیشہ ہے تو ان کو مقابلہ کرنا چاہٸیے ۔۔ایسا تو نہیں ہے کہ کانگریس کا وجود ختم ہوگیا ہے ابھی ملک کے کٸی صوبوں میں پارٹی بر سراقتدار ہے۔لیکن راہل گاندھی کے راہ فرار سے پارٹی کے وجود کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
راہل گاندھی کو سیاسی حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے اگر ان کو یہ لگتا ہے کہ الیکشن فٸیر نہیں ہوا تو انھیں قبول کرکے مبارکباد دینے کے بجاٸے اسی وقت اعلان کرنا چاہٸیے تھا کہ وہ الیکشن کے نتیجہ سے متفق نہیں ہیں اور اگر انھیں یقین ہو کہ الیکشن میں گڑبڑی ہوٸی ہے تو ثبوتوں کیساتھ عدالت کا رخ کرنا چاہٸیے تھا۔اپنی بات عوام کے سامنے لانا چاہیٸے تھا۔اور بی جے پی کے خلاف تمام جمہوری طریقے اپنا کر عوام کے درمیان رہنا چاہٸیے نہ کہ دل برداشتہ ہو کر ملک اور قوم کو ، اپنے کارکنان کو بیچ مجھدار میں چھوڑ کر بھاگنا  ہی ایک راستہ بچا تھا یہ راہل گاندھی کو زیب 
نہں دیتا۔

راہل گاندھی کو اپنے نانا،دادی، والد و والدہ سے سبق لینا چاہٸیے۔ جواہر لال نہرو نے ملک کو اسوقت سنبھالا جب حالات بہت ہی خراب تھے۔أزادی اور تقسیم ہند کے بعد کٸی طرح کے اندرونی اور بیرونی خطرات ملک کو درپیش تھے جسکو نہرو نے اپنی صلاحیتوں کو بروٸے کار لاتے ہوٸے حل کیا اور ملک کو ترقی کیطرف گامزن کیا۔اندرا گانھی اور راجیو گاندھی نے بھی بہت سیاسی نشیب و فراز دیکھے حالات اچھے بھی رہے اور خراب بھی ۔۔جٕسے بھی رہے ہوں ان لوگوں نے مقابلہ کیا۔۔۔۔سونیا گاندھی نے ذہنی اذیتیں برداشت کیں اور دو بار کانگریس کو اقتدار سے ہمکنار کیا۔
راہل گاندھی کے راہ فرار کیوجہ سمجھ سے باہر ہے۔جواہر لال نہرو نے ایک موقع پر کہا تھا کہ” ہندوستان کو اشتراکیت سے نہیں بلکہ أر ایس ایس سے خطرہ ہے۔“ اس بات کو راہل گاندھی نے بھی تسلیم کرلیا کہ أر ایس ایس اس وقت ملک پر قابض ہے اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگٸی ہے۔۔۔مگر شاید راہل گاندھی نے ان وجوہات ہر غور نہیں کیا جسکہ وجہ سے اس سیکولر ملک میں أر ایس ایس جیسی فرقہ پرست تنظیمیں کامیاب ہوگٸیں ۔۔۔
اس کی وجہ بھی گانگریس ہی ہے اور۔کانگریس کی پالیسی ہے۔۔أج کانگریس کا گراف گرتا جارہا ہے وجہ کیا ہے ؟مسلمانوں نے أزادی کے بعد ہی کانگرٕیس کا دامن تھام لیا تھا  مسلمانوں اور دلتوں کیوجہ سے ہی کانگریس زاٸد از ٥٠ سال بلا شرکت غیر ہندوستان کے اقتدار پر قابض رہی۔
أج مسلمان کانگریس سے دور ہوتا جارہا ہے مسلمان یہ جان گیا کہ أزاد ہندوستان میں مسلمانوں کے تمام تر مساٸل کی دین کانگریس ہے۔تقسیم ہند کی ذمےداری مسلمانوں پر تھوپی گٸی، ان کا ریزرویشن چھینا گیا، مادری زبان چھینی گٸی، تعلیمی اداروں پر حملہ ہوا ،مسلم کش فسادات کا لامتناہی سلسلہ شروع  کیا گیا مسلمانوں کی سیاسی، معاشی، تعلیمی ، ہر میدان میں پیچھے دھکیلنے کی ہر ممکن کوشش کی گٸی ۔حد تو تب ہوگٸی جب ان کے عبادت خانوں پر بھی سیاست کی گٸی اور أخر میں بابری مسجد کی شہادت۔یہ سب ایسے اسباب ہیں جسکیوجہ سے مسلمان کانگریس سے دور ہوا اور اگر کہیں پر مسلمان کانگریس کے ساتھ ہے تو وہ مجبوری میں۔اور حالات یہ ہوٸے کہ سچر کمیٹی بنا کر مسلمانوں کو ان کی اوقات بتادی اور اپنے برہمن وادی نذریعے کے چلتے کانگریس نے فرقہ پرست طاقتوں کو یہ کہکر خوش کردیا کہ جو کام تملوگ ترشول اور تلوار سے نہیں کر سکے وہ کام ہم نے ووٹ لیکر کردیا۔
دلتوں کٕساتھ بھی کانگریس کا رویہ غیر مناسب رہا ۔ان کو دس فیصد ریزرویشن کا جھنجھنا دیکر بہلاٸے رکھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک کا دلت بھی کانگریس سے دور ہوگیا۔
راہل گاندھی کو ان سب اسباب پر غور کرنا چاہٸیے۔نرم ہندوتو کی سیاست کے بجاٸے صحیح معنوں میں سیکولر نظریعے کو اپنا کر ہی وہ کامیاب ہوسکتے ہیں۔
راہل گاندھی کو عوامی مساٸل کو لیکر ملک کے عوام کیساتھ ایمانداری و دیانت داری سے کھڑے ہونا چاہٸے۔۔کانگریس پر جو دھبے لگے ہیں ان کو صاف کرکے ایک نٸیے سیکولر و جمہوری ملک کی قیادت سنبھالنی چاہیۓ۔اس راہ فرار کے بجاٸے ڈٹ کر مقابلہ کریں۔اور اپنی ماضی سے سبق لیتے ہوٸے ملک کی فلاح  و ترقی کا کام کریں اور راہ فرار سے باز أٸیں ورنہ تاریخ ان کو کبھی معاف نہیں کرے گی ، ان کانام ایک نا کام رہنما میں شمار ہوگا۔