Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, July 7, 2019

سیاسی شناخت یا دینی شناخت۔؟

*مفتی اطھر شمسی*
*القرآن اکیڈمی کیرانہ*/ صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
20 جون 2019 کو راقم الحروف دہلی سے کیرانہ واپس لوٹ رہا تھا. راستہ میں ہوٹل سکھدیو مرتھل پر کچھ دیر کے لیے رکا. میں نے یہاں وضو کیا اور نماز پڑھی. میں نے یہ نماز یہاں کے پارکنگ ایریا میں پڑھی. نماز کے دوران میں نے نوٹ کیا کہ ایک نوجوان میرے سامنے نہایت الرٹ انداز میں کھڑا ہے. میں نے فرض کی ادائیگی کے بعد جیسے ہی دو رکعت کی نیت باندھی وہ نوجوان اور بھی زیادہ الرٹ ہو گیا.
اس دوران ایک غیر مسلم نے میرے سامنے سے گزرنے کی کوشش کی تو اس نوجوان نے اسے نہایت سختی سے روک دیا. معلوم ہوا کہ یہ نوجوان نماز کے ادب میں اس لئے کھڑا تھا تاکہ کوئی شخص نماز میں خلل نہ ڈال سکے. میرے پوچھنے پر اس نے اپنا نام نوجوت بتایا. اس نے بتایا کہ ہوٹل کے بالکل باہری حصہ میں اس کی کپڑے کی دکان ہے. نوجوت سنگھ نے کہا کہ آپ نماز کے لیے میری دکان میں کیوں نہیں آ گیے. اس نوجوان نے دعوت دی کہ آئندہ جب بھی آپ کو یہاں نماز پڑھنی ہو تو آپ میری دکان پر آ جایا کریں.
اس واقعہ میں ایک بہت بڑا سبق ہے. ملک میں عام طور پر مسلمانوں کے لئے ماحول خوشگوار نہیں ہے.ایک جانب انتہا پسند لوگ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں مصروف ہیں. لیکن دوسری جانب اسی نفرت بھرے ماحول میں ایک سکھ نوجوان ایک مسلمان کے ساتھ اکرام کا یہ معاملہ کرتا ہے کہ وہ ایک نمازی کی حفاظت کے لئے اپنی دکان تک تنہا چھوڑ کر چلا آتا ہے. آخر اس فرق  کی وجہ کیا ہے. وجہ بالکل صاف ہے. ملک بھر میں مسلمانوں کی امیج لوگوں کی نگاہ میں ایک سیاسی گروہ سے زیادہ کچھ نہیں ہے. ملک کی ایک بہت بڑی اکثریت کو محسوس ہوتا ہے کہ مسلمان ان کے ایک سیاسی حریف ہیں. جو کم و بیش ہزار سال تک ان کے دیش پر قابض رہے. ان کا خیال ہے کہ مسلمانوں نے ملک کی تقسیم کرائی وغیرہ وغیرہ. ان منفی احساسات نے مسلمانوں کی جو تصویر برادران وطن کے ذہن و دماغ میں قائم کی اس نے مسلمانوں کی وقعت اور اکرام کو ختم کر دیا. غور سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ مسلمانوں کی امیج لوگوں کی نگاہ میں سیاسی ایشوز سے طے ہوئی ہے.
راقم الحروف کے ساتھ جو تجربہ پیش آیا اس میں ایک غیر مسلم کی نگاہ میں ایک مسلمان کی امیج ایک دینی عمل نے طے کی نہ کسی سیاسی ایشو نے. یہ دینی  عمل اس قدر طاقتور تھا کہ ایک غیر مسلم اپنی دکان چھوڑ کر ایک مسلمان کی حفاظت کے لئے کھڑا ہو گیا. اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان اگر آپنی شناخت اپنے دین کے ذریعہ قائم کریں تو ان کے لئے موقع یہاں تک ہے کہ دشمن سمجھے جانے والے غیر مسلم بھی ان کے گارڈ بن کر کھڑے ہو جائیں. بد قسمتی سے ہم نے اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا. ہمیں ہر سیاسی ایشو پر ہنگامہ مچانے اور اظہار رائے کا شوق ہے مگر ہمیں یہ نہیں معلوم برادران وطن کے درمیان اپنی دینی تصویر پیش کرنا ہی ان کے دنیاوی و اخروی تحفظ کی سب سے سے طاقتور ضمانت ہے. آخر ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ ہم برادران وطن کے درمیان اسلام کو اپنی گفتگو کا موضوع بنائیں نہ کہ سیاست کو. ہمارے لئے بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم سیاست کو کچھ باشعور ذمہ دار حضرات کے حوالہ کریں اور ایک عام مسلمان ایک غیر مسلم کے ساتھ دینی موضوعات پر گفتگو کا آغاز کرے. اس سے مسلم غیر مسلم کی خلیج  دور ہو گی. لوگوں کی غلط فہمیاں دور ہوں گی. اور ایک وقت آئے گا کہ ایک "نوجوت سنگھ" ایک "اطھر شمسی" کی حفاظت پر کھڑا نظر آئے گا. وہ جن کو ہم دشمن سمجھتے تھے ہمارے سب سے بڑے دوست دکھائی دیں گے. مسلمانوں میں اعتماد پیدا ہوگا اور انتہا پسندوں کی انتہا پسندی ناکام ہو کر رہ جائے گی. اس وقت بھگوا طاقتوں کو جواب دینے کی اس سے بہتر کوئی صورت نہیں.