Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, July 15, 2019

پردیسیوں کے دکھ !!!

از/ اولین فراہی/ حال مقیم شارجہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ اکثر صبح ناشتہ بھی نہیں کرتے کہ کہیں گاڑی ہی چھوٹ نہ جائے ۔ ناشتہ نظر انداز کر کے کہتے ہیں کام کی جگہ پر پہنچ کر کچھ کھا لیں گے جب کام کی جگہ پر پہنچ جاتے ہیں تو کام کے دباؤ کی وجہ سے ناشتہ کرنا پھر بھول جاتے ہیں ۔ سوچتے ہیں چلو دوپہر لنچ ٹائم ہی کچھ کھا لیں گے ۔ لنچ ٹائم بھی اکثر یہ بیچارے پردیسی مزدور بھوکے رہ جاتے ہیں کہ اکثر کام کے لوڈ کی وجہ سے اوور ٹائم کا لالچ بیچ میں آ جاتا ہے کہ اس بار چلو گھر کچھ ہزار زیادہ چلے جائیں گے ۔ گھر کے معاملات اور خوش اسلوبی سے طے پا لیں گے ۔
بریک ٹائم یہ مزدور جن پر آپ کو ناز ہوتا ہے کہ وہ دبئی ، شارجہ ، بحرین ، سعودیہ ، قطر ، کویت دنیا کے کسی کونے میں ہی کیوں نہ ہوں جن پر آپ کو فخر ہوتا ہے کہ میرا بھائی تو بیرونِ ملک ہوتا ہے بریک ٹائم یہ کوئی کارٹون کا پیس اٹھا کر ، کوئی پلاسٹک کچرے کے ڈیرے سے اٹھا کر اس کو جھاڑ کر وہی بچھاتے ہوئے سو جاتے ہیں ۔ کچرے کے ڈھیر میں پڑا گندہ بدبودار پلاسٹک یا کارٹون کا پیس ۔
*جی ہاں  .!!*
وہ خود گھتوں  پہ سوتے ہیں اور آپ کو گدوں پر سلاتے ہیں ۔

صبح 7 بجے سے لے کر شام 8 بجے تک مسلسل خون پسینے کا ایک ایک قطرہ بہایا جاتا ہے درھم ، ریال ، دینار کیلئے ۔
جلا دینے والی گرمی دماغ کو اُبال کر رکھ دیتی ہے ۔
پینے کو گرم پانی ، گرم ترین ہوا جیسے کی تندور سے اُٹھی ہو ۔ صحراؤں میں گرد و غبار کے خوفناک ترین طوفان میں زندگی اور موت سے لڑ رہے ہوتے ہیں ۔
یہ جنگ لڑتے ہیں تو صرف درھم دینار اور آپ کی خوشی کے لئے ۔
یہ جنگ پردیس میں ہر دن ، ہر صبح ، ہر وقت ، ہر سیکنڈ لڑی جاتی ہے ۔
پردیس میں ایک پردیسی پر کیا گزرتی ہے آپ اس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے ۔
نہایت طاقتور جسمانی وجود کے مالک کو ایک معمولی دبلا پتلا انسان بنا کسی بات کے سو سو باتیں سنا دیتا ہے ۔ پردیس میں رہنے والا کوئی ایک ایسا مزدور نہیں جو کسی فکر ، کسی غم اور کسی پریشانی سے آزاد ہو ۔
کبھی اقامے کی فکر ، کبھی کفالے کی بھاگ دوڑ ، کبھی کفیل کی ٹینشن ، کبھی جوازات کے مسائل ، کبھی کمپنی کی مصیبتیں ، کبھی تبادلے کی تشویش ، کبھی تنخواہ وقت پر نہ آنا ، کبھی کام ہونے نہ ہونے کی تکالیف ، کبھی کھانا نہ بنانے پہ لڑائی جھگڑے ، کبھی روم رینٹ کی فکر ، کبھی روم سے نکالنے کی دھمکیاں اور کبھی آپ سب کی فرمائشیں ۔
یہ جو پردیسی ہیں نا ! یہ ایک ایک پیسہ ( اماراتی ، عمانی ، سعودی ،بحرینی ، قطری ، کویتی ) بچاتے ہیں ۔
ان کا بہت من کرتا ہے کہ کچھ اچھا سا کھا لیں ، کچھ اچھا سا پی لیں لیکن !
گھر کا خیال آتے ہی جیب اجازت نہیں دیتا تو یہ بیچارے واپس ہو جاتے ہیں ۔ انہوں نے ایک ایک روپے بچا کر اپنے لیے بھی کچھ بچت کی ہوتی ہے کہ زندگی کا کیا بھروسہ یہ سارا وقت اسی بچت کو دیکھ کر مزدوری کرتے ہیں کہ چلو اس ماہ گھر پہنچنے اور خرچہ نکال کر میرے پاس 40/50 درھم بچ رہے ہیں ۔ یہ اسی کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں ۔ ایک ایک روپے جوڑ کر جب کچھ آس بن جاتا ہے تو انڈیا آنے کی تیاری کرتے ہیں ۔ ٹکٹ کی معلومات کرتے ہیں ہیڈ آفس بات کرتے ہیں پتہ چل جاتا ہے کہ صاحب کی چھٹی برابر ہونے والی ہے ۔
پھر وہ اپنا پروگرام بناتا ہے کب جانا ہے ؟ کہ اچانک گھر سے کسی کی فرمائش آجاتی ہے کہ اس کو فلاں کام کے لئے اتنے پیسے چاہیئے ۔
تب ایک طرف انڈیا اور دوسری طرف گھر والوں کی خواہشات
کس کو منتخب کرے ؟؟
تب وہ سوچتا ہے کہ چلو کوئی مسئلہ نہیں ایک سال اور لگا دیتا ہوں ۔ اچھا جی میں پیسے بھیج دوں گا ایک سال کی ہی تو بات ہے میں اگلے سال آ جاتا ہوں چھٹی پہ اور وہ اپنی وہی بچت شام کو روانہ کر دیتا ہے ۔یہ جو پردیسی ہوتے ہیں نا !
یہ آپ کے لیئے روز موت کا سامنا کرتے ہیں ۔
پل پل جی کر مرتے ہیں ۔ اکثر رات کو کمبل میں بھی رو لیتے ہیں ۔ دکھ درد کس کو سنائیں ؟
یہی سوچ کر کہ چلو میں تکلیف میں ہوں میرے پیچھے گھر والے تو سکھی اور خوش ہیں نا میری وجہ سے ۔
اپنے پردیسیوں کو بے جا فرمائشیں کر کے تنگ نہ کریں ۔
انکے اعصاب پہلے ہی پریشانیوں کی وجہ سے تباہ ہو چکے ہیں ۔
ان سے کوئی شئے مانگنی ہو تو بے حد قیمتی شئے کی ڈیمانڈ بالکل نہ کریں ۔
ایک آئی فون 盧 کی قیمت ایک مزدور کی 3 ماہ کی تنخواہ ہوتی ہے ۔
یہ 3 ماہ کی تنخواہ وہ سوچ کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا اچھا چمڑا اور خون جلا کر وصول کرتے ہیں ۔
آپ کی ایسی فضول کی فرمائشیں ان کو مزید پریشان کردیتی ہیں ۔ ان کو مزید سوچوں میں ڈال دیتی ہیں ۔
اور آپ کو دبئی ، سعودی ، قطر میں سورج کی تپش کی طاقت کا اندازہ نہیں
وہ انسان کو کوئلہ بنا دیتی ہے ۔
کوئلہ کوئلہ ۔
*اولین فراہی*