Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, July 19, 2019

بریلی کے بازار میں۔۔۔۔۔۔۔٢٢ ویں قسط۔

✏ فضیل احمد ناصری /صداٸے وقت۔
=========================
*ندوہ کے اجلاسِ بریلی کی اہمیت*
....................................................
تیسرا اجلاس ہزار مخالفتوں کے باوجود بریلی میں ہوا۔ یہ ندوے کی تاریخ کا سب سے اہم اجلاس تھا۔ بریلی کے دیوبندی منتظمین نے مہمانانِ مکرمین کا وہ استقبال کیا کہ دیکھنے والی ہر آنکھ پھٹی کی پھٹی رہ گئی۔ رضاکار کئی کئی حصوں میں بٹے ہوئے تھے۔ ان کی ایک ٹکڑی ریلوے اسٹیشن کے قریب خیمے لگائے بیٹھی تھی۔ ایک دم مستعد اور چاق و چوبند۔ جہاں گاڑی آتی، یہ لوگ مہمانوں کے لیے پلیٹ فارم پر جاتے، بہ آرامِ تمام خیموں میں لاتے اور وہاں سے گاڑیوں پر سوار کر کے قیام گاہ تک پہونچا دیتے تھے۔ یہ رضاکار مہمانوں کے لیے پانی کی صراحیاں، آب خورے، لوٹے، جانماز، فرش، پلنگ، کرسیاں وغیرہ سامانِ ضرورت، سواری کے لیے گاڑیاں، بار برداری کے لیے قلی سب کا انتظام رکھتے تھے۔ ان کی ایک ٹکڑی مدارات کے لیے بھی تھی۔ کھانا پکانے لیے ایک الگ جماعت تھی، کھلانے کے لیے ایک دوسری جماعت کا انتظام تھا، غرضیکہ انتظام اتنا شان دار اور منظم تھا، معلوم ہوتا تھا کہ انسان نہیں، مشینیں کام کر رہی ہیں۔

جلسہ کی دوسری اور بڑی خاص بات یہ تھی کہ اس میں ہندوستان کی چوٹی کی شخصیات جمع ہوئیں، جن میں حیدر آباد سے مولانا لطف اللہ عدالتِ عالیہ، دہلی سے مولانا عبدالحق حقانی اور مولانا عزیز الدین صاحب، بہار سے مولانا عبدالوہاب صاحب اور مولانا شاہ محمد سلیمان صاحب پھلواروی، یوپی سے مولانا حبیب الرحمن شیروانی، مولانا ابوالقاسم فضلِ رب، مولانا شفقت اللہ صاحب بدایونی، مولانا سید محمد شاہ محدث رامپوری اور علامہ شبلی نعمانی بطورِ خاص قابلِ ذکر ہیں، اجلاس کے صدر مولانا لطف اللہ صاحب تھے۔
*دارالعلوم ندوۃ العلماء کے قیام کی پر زور وکالت*
...................................................
بریلی اجلاس کی سب سے اہم کڑی *دارالعلوم ندوۃ العلماء* کے قیام کی تائید تھی۔ ندوے کے تحت دارالعلوم کے قیام کا تخیل اگرچہ پہلے ہی پیش کیا جا چکا تھا، مگر کسی اجلاس میں اس پر بحث نہیں ہوئی تھی۔ بریلی کے اجلاس کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس تخیل پر باقاعدہ اراکین کا اظہارِ رائے ہوا۔ تاریخِ ندوہ میں ہے:
*مولانا محمد لطف اللہ صاحب صدرِ انجمن نے ایک مختصر و موزوں صدارتی تقریر فرمائی، اس کے بعد ندوۃ العلماء کے زیرِ انتظام مجوزہ دارالعلوم کی ضرورت پر مولانا عبدالحق حقانی دہلوی، مولانا شبلی نعمانی، مولانا شاہ سلیمان صاحب پھلواروی اور مولانا سید محمد شاہ صاحب محدث رامپوری نے تائیدی تقریریں کیں* ۔ (ص 161)
*مجوزہ دارالعلوم کیسا ہوگا؟*
....................................................
اس موقع پر مولانا شبلی نعمانی نے پرمغز اور مدلل تقریر میں ندوۃ العلماء کے مجوزہ دارالعلوم کا نقشہ یوں پیش کیا:
ظاہری شان و شوکت سے اس کا مکان نہایت شان دار اور مضبوط ہوگا اور اس میں ہر کام کے لیے جدا جدا کمرے ہوں گے۔
اس دارالعلوم میں ایک عظیم الشان کتب خانہ ہوگا، جس میں ہر طرح کی کتابیں موجود ہوں گی، تاکہ جو طالب علم تکمیل کے بعد مطالعۂ کتب سے اپنی علمی لیاقت بڑھانا چاہے وہاں رہ کر کتب بینی سے اپنے علم کو بڑھا سکے (ایضاً، ص 163)
یہی وہ اجلاس ہے جس میں ندوۃ العلماء کا دستور العمل بھی پہلی بار منظور کیا گیا۔
*مختلف انجمنوں کی طرف سے تہنیتی پیغامات*
...........,.........................................
اس اجلاس سے علمائے حق ہی کیا، عوام اہلِ حق کو بھی اتنی خوشی تھی کہ قابلِ بیان نہیں۔ ان کے کارکنان نے نہ صرف یہ کہ شرکت کی، بلکہ اخیر میں بھاری بھرکم مضامین پر مشتمل سپاس نامے بھی پیش کیے۔ ان میں انجمن اسلامیہ جبل پور، انجمن اسلامیہ امرتسر، انجمن آلِ ہاشم رائے بریلی، انجمن حامئ ندوۃ العلماء سلطان پور، اسلامیہ بدایوں، مسلمانانِ فتح پور ہسوہ، مسلمانانِ اعظم گڑھ سمیت اہلِ اسلام بریلی شامل ہیں۔ ان سپاس ناموں میں سے ایک طویل منظوم سپاس نامے کے یہ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
حبّذا فصلِ گل و شادابئ صحنِ چمن
مرحبا جوشِ بہار و زیب و نسرین و سمن
اہلِ ایماں جوق جوق آئے ہیں اور دل شاد ہیں
شاد ہیں اہلِ زمیں، رنجور ہے چرخِ کہن
غنچۂ دل کھل گئے، سب ہیں خوشی سے باغ باغ
آج ہے شہرِ بریلی ایک روح افزا چمن
ندوہ کی شان میں ایک فارسی قطعہ بھی تھا، جس سے اجلاس کا سن 1313 نکلتا ہے:
در شہرِ بریلی شدہ ندوہ علما را
زو دینِ نبی را بود آثارِ ترقی
گفتند بمن سال کدام است سلاما
گفتم کہ مشرف شدہ زیں ندوہ بریلی
ترجمہ: شہرِ بریلی میں علما کا اجلاس ہوا، جس سے دینِ نبوی کی ترقی کے آثار ظاہر ہوں گے۔
لوگوں نے مجھ سے پوچھا: تم پر سلامتی ہو، یہ اجلاس کس سن میں منعقد ہوا، تو میں کہوں گا کہ *مشرف شدہ زیں ندوہ بریلی*، یعنی اس اجلاس سے بریلی کو شرف حاصل ہوا۔ آخری مصرعے سے اجلاس کے انعقاد کی تاریخ نکلتی ہے۔
*ندوے کی مخالفت کرنے والے*
....................................................
ندوہ کے بریلی اجلاس کی مختصر روداد آپ نے ملاحظہ فرما لی ہے۔ اس اجلاس نے جہاں علمائے اہلِ حق کو ترقی کی نئی نئی شاہ راہیں دیں، وہیں ملک کے محدود حلقے میں کچھ لوگ وہ بھی تھے جو ندوے کی برق رفتار ترقی سے برابر بھنے جا رہے تھے۔ انہوں نے اس تحریک کو کچلنے کے لیے وہ سب تدبیریں اختیار کر لیں جو ان کے ذہنِ رسا نے مرتب کر کے دی تھیں۔ کتابیں لکھیں، رسائل لکھے، اشتہارات جاری کیے، بلکہ وہ آخری حربہ بھی استعمال کیا جو بے موقع و محل بس یہی ٹیم کر سکتی تھی۔ تاریخِ ندوہ میں ہے:
*ندوۃ العلماء کی مخالفت کی قیادت جو حضرات کر رہے تھے، ان میں پیش پیش مولانا احمد رضا خان، مولانا عبدالقادر بدایونی اور مولانا نذیر احمد خاں رامپوری تھے، مسلم ہندوستان کی تاریخ میں یہ گروہ وصل کی بجائے فصل کی بنیادوں کی تلاش و جستجو، مخالفت برائے مخالفت میں ممتاز و معروف ہے۔ ان پر ان مصالحانہ کوششوں کا کوئی اثر نہیں ہوا اور مخالفت کا طوفان برابر بڑھتا گیا۔ مہذب گالیاں دی گئیں۔ علمائے ندوہ کی تکفیر کی گئی اور مخالفت و بہتان طرازی کی مہم کو چالیس سے زائد مخالف کتابچے شائع کر کے تیز کیا گیا۔ محض ندوہ کی مخالفت کے لیے ہزاروں روپے کا وقف قائم کیا گیا۔ مخالفین کے رسائل کا نام اور ان میں تحریر نظم و نثر سے ان کے ذوق و وجدان اور مذاقِ لطیف کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، رسائل میں چند کے نام یہ ہیں: جثوہ، جذوہ، سطوہ، خدوہ* ۔ (ایضاً، ص 173)
جذوہ لرجوم احزاب الندوہ (ص 32) کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:
جو ہو خود عینِ ضلالت یہ بنائے ندوہ
کیا زمانہ کو رہِ راست پہ لائے ندوہ
پیرِ نیچر کی یہ ہے شعبدہ بازی ساری
آگ لگ جائے اسے، بھاڑ میں جائے ندوہ
*خان صاحب کا مولانا محمد علی مونگیری کو خط*
یہ آپ پہلے پڑھ چکے ہیں کہ ندوہ کے پہلے اجلاس میں ہی مجددِ بریلوی شریک تھے، بلکہ اس میں اپنا مقالہ بھی پڑھا تھا۔ اس اجلاس میں بھی شیعہ، نیچری اور وہابی شریک تھے۔ سب کچھ ان کی آنکھوں کے سامنے تھا۔ اس اجتماعیت پر انہیں اعتراض ہی کرنا تھا تو اسی اجلاس میں کر دیتے، یا وہاں ہمت نہیں تھی تو کم از کم اجلاس سے واپس آتے ہی خط لکھ کر اپنا مدعا رکھتے، مگر ایسا نہیں ہوا، ان سب کے باوجود وہ دوسرے اجلاس میں بھی گئے ۔ ان کی ساری مخالفتیں دوسرے اجلاس کے بعد ہی شروع ہوئیں۔ اب ان سے کیا سمجھا جائے! ابطالِ باطل؟ یا محض بغض و حسد؟ اس سلسلے میں مجددِ بریلوی کے خط کا یہ اقتباس بھی دیکھیں:
*اب تمام کتبِ ندوہ مفصلاً بالاستیعاب ملاحظہ ہوں، آپ پر خود عیاں ہو جائے گا کہ آشکارا و نہاں کس قدر مخالفاتِ شدیدہ اہلِ سنت سے کی گئیں، ترکِ مذہب و اختیارِ دہریت کی کھلی کھلی دعوتیں دی گئیں۔ مذہب و سنت و ائمۂ اہلِ سنت کی صریح توہین کی گئی* ۔
[اگلی اور آخری قسط میں پڑھیں: علمائے ندوہ کا جواب اور مسلکِ بریلویت کا آغاز]