Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, July 4, 2019

ہجومی تشدد اور ملک کے بگڑتے حالات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسباب و تدارک

✍ از: محمد عظیم قاسمی فیض آبادی خادم دارالعلوم النصرہ دیوبند
       9358163428
صداٸے وقت/ عاصم طاہر اعظمی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت ملک کے جو حالات ہیں ، اور دن دبدن بد سے بد تر ہوتے جارہے ہیں وہ ہر شخص کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے اقلیتیں ظلم کا شکار ہیں کبھی عیسائوں کو اور ان کے مذاہب وعبادت خانوں،  چرچوں کو نشانہ بنایاجاتاہے تو کبھی دلتوں پر طرح طرح کےظلم کے ڈھائے جاتے ہیں،  کہیں مسلمانون کو زدوکوب کیا جاتاہے، اور اس کے لئےایک ہجوم اور بھیڑ کو 
استعمال کیا جاتاہے، 

اخلاق کی فریج میں رکھا ہوا مٹن بیف بنادیاگیا اورپھر بیف کا الزام ٹھوک کر ہمیشہ ہمیش کے لئے اخلاق کو موت کی نیند سلادیاگیا معصوم حافظ جنید کو شہید کردیاجاتا ہے تو کہیں بھیڑ گائے کے نام پر پہلو خان پر ٹوٹ پڑتی ہے اور موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے ، نجیب کی ماں دلی کی گلیوں میں در در  بھٹکتی رہی لیکن اس کا کہیں کوئی سراغ نہیں لگا،  سنبھولا افراز الحق کو بے دردی سے قتل کرکے ویڈیو بناکر شوشل میڈیا کی نظر کوتاہے اور جیل سے اپنا نفرت بھراپیغام شوشل میڈیاکے حوالے سے پھیلاتاہے اور ایک مخصوص طبقہ اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ،کبھی تو مجرم کی رہائی کے وقت بڑاپرتپاک استقبال کیا جاتاہے جھارکھنڈ کے نوجوان تبریز کو چوری کا الزام دے کر ستون سے باندھ کر اس قدر بے دردی سےپیٹا جاتاہے کہ اس کی موت واقع ہوجاتی ہے 
   ہجومی تشدد کے ذریعہ موت کا یہ سلسلہ کسی طرح رکنے کا نام نہیں لے رہاہے تبریز کے بعد یکے بعد دیگرے درجنوں واقعات مزید پیش آچکے ہیں ابھی کلکتہ میں بیس سالہ ثناء اللہ کو بھیڑ نے پیٹ پیٹ کر مارڈالا ایک کے بعد ایک حادثہ پیش آتاجارہاہے نہ صدر جمہوریہ اس کے خلاف بولنے پر آمادہ ہے نہ وزیر اعظم کے من میں اس تعلق سے کوئی بات ہے نہ وزیر داخلہ کوئی نوٹس لیتا ہے نہ وزرائے اعلیٰ اس پر کوئی قدغن لگاتے نطر آتے ہیں
افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہماری قیادت بھی کوئی قابل قدر لائحہ عمل طے کرنے کےلئے فکر مند نہیں
     اس طرح سے ظلم کا شکار لوگوں کو معاوضہ یا ان کے مقدمات کی پیروی کے مستحسن قدم ہونے میں کوئی شک نہیں اس سے وقتی مرحم ضرور لگ جاتاہے لیکن ظلم کا یہ سلسلہ اور ہجومی تشدد و بھیڑ کے ذریعہ نوجوانوں و اقلیتوں کے قتل کی یہ وارداتیں اس طرح تھمنے والی نہیں
  اس کی روک تھام کے لئے ہماری قیادت کا فکر مند ہونا ضروری ہے
    اور یہ بھی ضروری ہے کہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں
بلاتفریق مذہب وملت تمام اقلیتوں اور مسلمانوں کے تمام مسالک کے نمائندوں کو جوڑ کر کوئی لائحہ عمل طے کریں اور اجتماعی طورپر
  صدر جمہوریہ، وزیر اعظم،  وزیر داخلہ،  صوبے کے وزرائے اعلیٰ کے سامنے بات رکھیں اور معاملہ کی سنگینی سے واقف کرائیں                                 اس کے لئےسخت سے سخت قانون بنانے ، ماب لنچنگ اور ہجومی تشددکو دہشت گردی کے زمرے میں شامل کرنےکی مانگ کی جائے
   کسی بھی طرح ان کی حوصلہ افزائی کرنے والوں کے لئے بھی سزاکا تعین کیاجائے
نیز تمام سیکولر پارٹیوں کے ممبران پارلیمنٹ سے ملاقات کی جائے یا خطوط لکھ کر پارلیمنٹ میں اس مسئلےکو پرزور انداز میں اٹھانے کی بات کی جائے
   اس کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں پرامن احتجاج کو جاری رکھا جائے
اورآخر میں عرض ہے کہ
   اوراگرکوئی شخص اس طرح کےتشدد کا شکار ہوجائےتو ایسےموقع پرصبروتحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے حتی الامکان حکمت عملی سے اس کودفع کرنے کی کوشش کے جائے اور اگر اس میں کامیابی کی توقع مفقود ہوجائے تو پھر پوری جوانمردی کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے جام شھادت نوش کرے بزدلی کی موت نہ مرے
اللہ اس ملک کی ،ملک کے مسلمانوں کے جان مال عزت آبرؤ کی حفاظت فرمائے