Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, July 30, 2019

اگر اب بھی نہ جاگے تو !!!!

*از:- مولانا سید بلال عبد الحی حسنی ندوی /صداٸے وقت
                =================
       
(وَلَنُذِیْقَنَّہُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَی دُونَ الْعَذَابِ الْأَکْبَرِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ)(السجدۃ: ۲۱)(اور ہم ضرور ان کو بڑے عذاب سے پہلے قریبی عذاب کا مزہ چکھائیں گے شاید وہ پلٹیں)
یہ آیت موجودہ حالات میں مسلمانوں کے لیے تازیانۂ عبرت بھی ہے اور راہِ نجات بھی، عالم اسلام کی بات لمبی ہے، اس ملک میں مسلمانوں کے حالات کیا تھے اور کیا ہیں؟ آزادی کے بعد سے کیا ہوا اور ادھر چند سالوں سے کیا ہورہا ہے؟ ہجومی تشدد (Mob lynching) مدرسوں پر حملے اور پورے ملک کی ناموافق فضا، اس سے مسلمانوں نے کیا سبق لیا؟ مایوسی مسئلہ کا حل ہے یا خواب غفلت؟ واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا عمومی مزاج اس وقت دین سے دوری کا ایسا بن چکا ہے کہ سوچنے کا انداز بدل گیا ہے، نہ وہ قرآن مجید کی آیتوں سے سبق لینے کو تیار ہیں، اور نہ سیرت کے واقعات سے، غور و فکر کرنے والوں کا حال بھی یہ ہوچکا ہے کہ اگر وہ سامان حفاظت تلاش بھی کرتے ہیں تو وہ سامان غفلت ثابت ہوتا ہے.
زندہ قومیں تاریخ سے سبق لیتی ہیں، جس کے پاس روشن تاریخ ہو، حقائق و واقعات کا ایک سلسلہ ہو، جس قوم کے اسلاف نے دنیا کو زیر و زبر کیا ہو، وہ جہالت کی تاریکیوں میں ہاتھ پاؤں مارے، وہ ذلت و پستی کے غار میں گرتی چلی جائے، تابناک تاریخ کی کرنیں اس کے لیے صحیح روشنی کا سامان نہ کرسکیں اور وہ مایوسی کے بادلوں میں گھرتی چلی جائے، اس کا سبب ایک ہے اور صرف ایک، اس قوم نے سلف سے رابطہ توڑ لیا، صحابہ کی زندگی اس نے ازکارِ رفتہ سمجھ لی، وہ بھول گئی کہ اس کی ترقی کا راز کیا تھا؟
اللہ کے رسولﷺ نے فاران کی چوٹیوں سے جب حق کی آواز لگائی تو کس نے آپ کا ساتھ دیا، وہ صحابہ جو ہر طرح تمدن سے خالی تھے، پورے مکہ میں قلم تلاش کیا جاتا تو شاید ہی چند قلم دستیاب ہوتے، ان کے پاس کون سی حکومت یا طاقت تھی، یا انہوں نے کون سی سائنسی ترقیاں کرلی تھیں، ان کو جس طاقت نے زمین نے آسمان پر پہنچایا، اونٹوں کے چرانے والوں کو عالم کا گلہ بان بنایا، اور ساری دنیا کا ان کو معلم قرار دیا گیا، وہ صفت صرف ایمان و اخلاق کی تھی، اسی ایمان و اخلاق کی طاقت نے تاج خسروی ان کے قدموں میں ڈالا، یہی ایمانی طاقت تھی جس نے ربعی بن عامر کو رستم کے دربار میں ایسا جری کردیا کہ انہوں نے بھرے دربار میں دودھ کا دودھ پانی کا پانی کردیا، یہ وہی اخلاق کی طاقت تھی جس نے سخت سے سخت دلوں کو موم کردیا، آج سب کچھ ہے لیکن یہی نہیں، یہ وہ بنیاد تھی جس پر سائنس کی فلک بوس عمارتیں تعمیر ہوئی تھیں، اسی بنیاد پر مسلمانوں نے آٹھ سو سال تک پورے کر و فر کے ساتھ دنیا پر حکومت کی تھی اور دنیا کو علم و حکمت اور امن و امان سے بھردیا تھا.
اس بنیاد کو پھر سے استوار کرنے کی ضرورت ہے، اس ملک میں بھی اسی ایمان و اخلاق کو دہرانے کی ضرورت ہے، جو خواجہ خواجگان فاتح ہندوستان حضرت خواجہ اجمیری کی وراثت ہے، تاریخ میں واقعہ لکھا ہے کہ حضرت خواجہ صاحب ہندوستان تشریف لارہے تھے اور شہاب الدین غوری واپس جارہا تھا، راستے میں ملاقات ہوئی تو سلطان نے کہا: حضرت! کہاں تشریف لے جارہے ہیں، زمین بڑی سنگلاخ ہے، حضرت نے فرمایا: تم جسموں کو فتح کرنے گئے تھے، میں دلوں کو فتح کرنے جارہا ہوں، پھر دنیا نے دیکھا ؎
*جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ*
اس بنیاد کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، موجودہ حالات میں اگر کوئی راستہ ہے تو صرف یہی ایک راستہ!
ان ہی حالات کے پیش نظر کسی عارف نے یہ بات کہی تھی "میری آنکھیں دیکھ رہی ہیں، اس ملک کو اسپین بنانے کا پورا نقشہ تیار ہے" اگر ہمارے علماء کھڑے نہ ہوئے اور انہوں نے اسلام کی حقیقت لوگوں کے سامنے نہ کھولی، برادران وطن کی غلط فہمیوں کو دور نہ کیا تو انتہائی خطرہ کی بات ہے، آج وہ خطرہ سروں پر منڈلا رہا ہے، مرد حق آگاہ نے یہ بات اس وقت کہی تھی جب سمجھنے والے انگلیوں پر گنے جاسکتے تھے، آج یہ ایک حقیقت بن چکی ہے، مگر افسوس یہ ہے کہ قدم نہیں اٹھتے، ضرورت اس بات کی تھی کہ اپنی ساری مصروفیات اور شدید مصروفیات کو کچھ وقت کے لیے بالائے طاق رکھ کر لوگ دوڑ پڑتے، جاگتے اور جگاتے، اب وقت غفلت کا نہیں رہا، غیر ضروری چیزوں میں پڑنے کا نہیں رہا، خدانخواستہ اب بھی نہ جاگے تو آگے خدا ہی حافظ ہے، نہ مدرسوں کی خیر ہے نہ مسجدوں کی، نہ دکانیں سلامت رہیں گی نہ یہ بازار، یہ ملک جس کو جنت نشاں سمجھا جاتا تھا، یہ جہنم کدہ بن سکتا ہے، پھر کسی کی خیر نہیں، نہ اپنوں کی نہ غیروں کی، پانی سر سے اونچا ہو رہا ہے، پورے ملک میں آگ لگائی جارہی ہے، اس کو صرف ایمان و اخلاق سے بجھایا جاسکتا ہے؛
*عالم یہ جل رہا ہے برس کر بجھائیے*
انسان انسان ہے، اس کے اندر دھڑکتا ہوا دل ہے، وہ کچھ سمجھے نہ سمجھے، انسانیت کی بات آج بھی سمجھتا ہے، یقینا ایسے دل بھی ہیں جو پتھر کی سل ہوچکے، لیکن اکثریت وہ ہے جس کے سینوں میں آج بھی انسانوں کے دل دھڑک رہے ہیں، ان کو دستک دینے کی ضرورت ہے، اس کے لیے ہم سب کو میدان عمل میں آنا ہوگا، اپنی افادیت ثابت کرنی پڑے گی، ایک نمونہ پیش کرنا ہوگا، اسلام کی پیشانی پر ہم نے بد اخلاقیوں سے جو داغ دھبے ڈالے ہیں، ان کو صاف کرنا ہوگا، یہی اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے اور اسی سے غبار آلود مطلع صاف ہوسکتا ہے. فہل من مجیب!