Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, July 20, 2019

کیا این آٸی اے بل ، پوٹا (pota) نہیں بنے گا ؟؟؟


از/شاہد حبیب/ صداٸے وقت۔
========================
آخر کار نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کو مزید قوت دینے والا بل راجیہ سبھا سے بھی پاس ہو گیا. 


لوک سبھا میں جس طرح کی منصوبہ بندی اور فضا بندی وزیر داخلہ امت شاہ نے کی تھی، اس سے یہ صاف ظاہر ہو گیا تھا کہ ملک کو پولیس اسٹیٹ کی طرف دھکیلنے والے اس بل کو راجیہ سبھا میں بھی کوئی خاص مزاحمت نہیں ہوگی لیکن اتفاق  رائے سے پاس ہو جائے گا، یہ توقع نہیں تھی.
لوک سبھا میں اس بل کی مخالفت میں صرف چھ ووٹ پڑے تھے. اس میں بھی دو نام مسلم ممبران پارلیمنٹ کے تھے، این سی پی کے مجید میمن اور اسد الدین اویسی. یہ صورت حال ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں. وزیر داخلہ بار بار یہ کہتے سنے گئے کہ این آئی اے کو مزید بااختیار بنانے سے کسی کو ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس کا غلط استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا. لیکن جب ہم ٢٠٠٩ سے لیکر اب تک کی این آئے کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ابھی کے محدود اختیارات کے باوجود اس کی شفافیت کو لے کر کئی سوال اٹھتے دیکھے گئے ہیں. اس ایجنسی نے اب تک 244 معاملوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا ہے اور گزشتہ دس سالوں میں صرف 37 معاملوں میں ہی اب تک سزا سنائی جا سکی ہے. اس میں بھی مالیگاؤں اور مکہ مسجد کے مجرموں کو ثبوت کی عدم فراہمی کی بنیاد پر کورٹ کو رہا کرنے پر مجبور ہونا پڑا. آخر کیا وجہ ہے کہ 2014 میں صرف ایک سرکار کے بدلتے ہی این آئی اے ثبوتوں اور گواہوں کے معاملے میں اپنے ہی حلف نامے سے پیچھے مڑتی نظر آنے لگتی ہے. کیا صرف اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ملزمان کا تعلق ملک کے "ایک خاص طبقے" سے نہیں تھا!! ایسے میں این آئی اے کی غیر جانبداری کے فلسفے پر کیسے یقین کیا جا سکتا ہے! بات اتنی سی ہوتی تو بھی ہمیں زیادہ پریشانی نہیں تھی لیکن بات اس سے بھی بہت آگے بڑھ چکی ہے. گزشتہ چند مہینے پہلے کی ہی بات ہے کہ این آئی اے اور اتر پردیش پولیس کا چھاپہ امروہہ کے ایک معصوم امام صاحب کے گھر پر پڑتا ہے اور تہائی رات کو انہیں اور ان کے ساتھیوں کو عظیم دہشت گرد اور ماسٹر مائنڈ کہہ کر گرفتار کر لیا جاتا ہے. پوری دنیا نے این آئی اے کے اس مضحکہ خیز ڈرامے کا مشاہدہ کیا تھا. دربھنگہ، سرائی میر اور ملک کے دیگر کونوں سے جس ڈرامائی انداز میں این آئی اے مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرتی رہی ہے، اس کا علم ایک دنیا کو ہے. ایسے میں وزیر داخلہ کے اس بیان کو کیسے سچ مان لیا جائے کہ این آئی اے کا غلط استعمال 
نہیں ہونے دیا جائے گا.

اس ترمیمی ایکٹ کے ذریعے این آئی اے کے دائرے کو وسعت دیتے ہوئے دہشتگردی کے بشمول سائبر کرائم، ہیومن ٹریفکنگ اور دنیا بھر میں پھیلے بھارتیوں کی حفاظت کو بھی شامل کیا گیا ہے. یہ سننے میں بڑا اچھا لگتا ہے لیکن سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم نے بی بی سی کو دیئے ایک انٹرویو میں  کہا تھا کہ "میں نے 2008 میں ہوئے ممبئی حملوں کے بعد این آئی اے کی جب کلپنا کی تھی تو میرے پیش نظر اسکاٹ لینڈ یارڈ اور ایف بی آئی کی طرز کی ایک وفاقی جانچ ایجنسی کی سوچ تھی. لیکن آج جو این آئی اے ہے وہ کچھ اور ہی بن گئی ہے". ظاہر ہے 649 افراد اور 16 ملین ڈالر کے معمولی بجٹ سے یہ ایجنسی کیسے ایف بی آئی اور اسکاٹ لینڈ یارڈ جیسی مشہور زمانہ ایجنسیوں کی برابری کر سکتی ہے! نتیجے میں ہوتا یہ ہے کہ اپنی ساکھ بچانے کے لیے وہ اصل مجرموں کو ثبوتوں کی بنیاد پر گرفتار کرنے کے بجائے ازمپشن اور گمان کی بنیاد پر ایک خاص کمیونٹی کے لوگوں کو گرفتار کر لیتی ہے اور خود کی پیٹھ ٹھونکنے لگتی ہے. اور پھر یہی ماسٹر مائنڈ کے نام سے مشہور ملزم ہزاروں میڈیا ٹرائل اور پولیس ٹرائل کے بعد سپریم کورٹ سے باعزت بری کر دیئے جاتے ہیں.

 اس پر مستزاد یہ کہ سائبر کرائم جیسے نازک اور حساس مسئلے کو بھی اس ایجنسی کے حوالے کر دیا گیا ہے جبکہ ہم آئے دن دیکھتے ہیں کہ معمولی فیس بُک پوسٹ پر نوجوانوں کو "دیش دروہی" کہہ کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا جاتا ہے. اور پھر جب سرکار کو ہی ملک کہا جائے اور ملک کو سرکار، تو ایسے میں اب بات بات پر لوگوں پر دیش دروہ کا مقدمہ نہیں چلے گا. اس بات سے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے! بہتر ہوتا کہ این آئی اے کو مزید اختیارات دینے کے بجائے ان کی افرادی قوت میں اضافہ کیا جائے اور ان کو خاطر خواہ بجٹ الاٹ کیا جائے. ہم بالکل بھی نہیں چاہتے کہ وطن عزیز پر دہشت گردی کا سایہ ہمیشہ منڈلاتا رہے! جو لوگ بھی ملک میں دہشت کی فضا بناتے ہیں اور معصوم لوگوں کی جانیں لیتے ہیں، انہیں قطعی نہیں بخشا جانا چاہیے. لیکن اس حساس مسئلے میں بھی جب دھرم کے آدھار پر پکڑ دھکڑ ہوتی ہے تو لوگوں کو لگتا ہے کہ این آئی اے بھی اسی راہ پر چل پڑی ہے جس میں کبھی پوٹا چلا کرتی تھی.
لیکن وزیر داخلہ نے یہاں پر بھی اپنی متعصب سیاسی سوچ کی وجہ سے غلط بیانی سے کام لیا اور کہہ دیا کہ 2002 سے 2004 کے بیچ میں نافذالعمل "پوٹا (پریوینشن آف ٹریرزم ایکٹ) کا کبھی بھی غلط استعمال نہیں ہوا اور اس کو ختم کرنے کی وجہ اس کا غلط استعمال نہیں تھا بلکہ اس کو ختم کرنے کی وجہ ووٹ بینک کی راجنیتی تھی". اب اس سوچ پر کیا تبصرہ کیا جائے. ایک ایسا قانون جو پارلیمنٹ کے جوائنٹ سیشن کے ذریعے وجود میں لایا جاتا ہے اور صرف ڈھائی سال تک نافذالعمل رہتا ہے، اس قلیل مدت میں بھی کم و بیش جن ہزار لوگوں کو گرفتار کیا جاتا ہے، اس میں سے ننانوے فیصدی افراد "ایک خاص طبقے" کے ہوتے ہیں. جن میں سے بیشتر وہ افراد جن کو شفاف قانونی مدد مل پاتی ہے، وہ سالوں کی بے گناہی کی سزا کاٹنے کے بعد سپریم کورٹ سے باعزت بری ہو جاتے ہیں. فاروس میڈیا کا شائع کردہ کتاب "بے گناہ قیدی" میں عبدالواحد شیخ نے ایسے دسیوں چونکانے والے  حقائق پیش کر رکھے ہیں. کیا اس کے بعد بھی یہ کہنے کی گنجائش رہ جاتی ہے کہ پوٹا کا خاتمہ اس کے غلط استعمال کی وجہ سے نہیں بلکہ ووٹ بینک کی راجنیتی کے لیے کیا گیا تھا اور این آئی اے کو اس تازہ ایکٹ کے ذریعے دیا گیا یہ اختیار کسی معصوم کی زندگی کو برباد نہیں کرے گا؟ اللہ کرے ایسا نہ ہو لیکن ارباب اقتدار کو اس معاملے میں غور تو کرنا پڑے گا.