Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, August 5, 2019

مسلہ کشمیر و آرٹیکل 370 کے خاتمے پر پاکستانی وہ انڈیا کے سیاست دانوں کا ردعمل: ’‘

صداٸے وقت/ذراٸع/نماٸندہ۔
=========================
پا کستان نےجمو و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والی آئینی شق کے خاتمے کی مذمت کی ہے اور اس معاملے پر پارلیمان کا مشترکہ اجلاس منگل کو بلایا گیا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے زیرِ انتظام کشمیر کو انڈیا کے آئین میں دیے جانے والے خصوصی درجے اور اختیارات کو ختم کر رہی ہے۔
پاکستان کے وزیرِ خارجہ نے انڈین فیصلے کو سیاسی حماقت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انڈیا کشمیر میں ایک خطرناک کھیل، کھیل رہا ہے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے اس اقدام پر جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ 'پاکستان انڈیا کا اعلان مسترد کرتا ہے۔ کشمیر بین الاقوامی سطح پر متنازع علاقہ ہے (اور) کوئی یک طرفہ اقدام اس حیثیت کو بدل نہیں سکتا'
پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ اس ’غیر قانونی حکم کے خلاف تمام ممکنہ اقدامات اٹھائے گا۔'
انڈیا کی جانب سے اس فیصلے کا جائزہ لینے کے لیے منگل کو پاکستان کی پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بھی طلب کر لیا گیا ہے جبکہ کورکمانڈرز کانفرنس بھی منگل کو منعقد ہو رہی ہے۔

سعودی عرب میں موجود پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ’انڈیا بہت خطرناک کھیل کھیل رہا ہے جس کے علاقائی سلامتی پر بہت برے اثرات ہو سکتے ہیں‘۔
بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’پاکستان سمجھتا ہے کہ انڈیا نے بہت بڑی سیاسی حماقت کی ہے۔ انھوں نے تاریخی غلطی کی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ان کی رائے میں ہو سکتا ہے، بی جے پی سرکار کی رائے میں وہ اس عمل سے مسئلہ کشمیر کو دنیا کی نظروں سے اوجھل کرنا چاہ رہے ہوں لیکن پاکستان کی رائے میں یہ مسئلہ پہلے سے زیادہ سنگین ہو گیا ہے، پہلے سے زیادہ متنازع ہو گیا ہے اور اس میں پہلے سے زیادہ ردِ عمل کا امکان ہے۔‘
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں اس کا ردِ عمل ہوگا اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھی مجھے لوگوں کے جذبات کا اندازہ ہے۔
شاہ محمود قریشی کے مطابق ’عمران خان کے اس خطے کے لیے امن و استحکام کا جو وژن تھا، آج اس فیصلے نے اس پر ضرب لگائی ہے۔
’صدر ٹرمپ کی جو خواہش تھی کہ اس طویل مدتی جھگڑے کو وہ گفت و شنید سے یا ثالثی کا کردار ادا کرکے کسی حل کی طرف آگے بڑھیں تاکہ یہ علاقہ خوشحالی، ترقی کی طرف بڑھ سکے، میں سمجھتا ہوں اس فیصلے نے اس جذبے کو بھی ٹھیس پہنچائی ہے۔

خیال رہے کہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورۂ امریکہ کے موقع پر امریکی صدر ٹرمپ نے کشمیر کے مسئلے پر ثالثی کی پیشکش کی تھی جسے انڈیا نے یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ دو طرفہ معاملات پر صرف پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہی بات ہو گی اور اس میں تیسرے فریق کی گنجائش نہیں۔
حکومت کے علاوہ اپوزیشن کے رہنماؤں نے بھی انڈین اقدام کی مذمت کی ہے۔ قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف نے انڈین اعلان کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مودی حکومت کا فیصلہ 'اقوام متحدہ کے خلاف اعلان بغاوت اور جنگ ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'پاکستان فی الفور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کرے۔'
شہباز شریف نے مزید کہا کہ چین، روس، ترکی، سعودی عرب اور دیگر دوست ممالک سے فوری رابطہ اور مشاورت کی جائے۔
پاکستان میں اپوزیشن کی جماعت مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز نے اپنے بیان میں کہا ’جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کی تبدیلی کی کوشش سے انڈیا نے اقوام عالم، بین الاقوامی قانونی اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کو چیلنج کیا ہے۔‘
'لداخ کے الگ درجے اور جموں وکشمیر کو بھارتی وفاق کے ساتھ نتھی کرنا کھلم کھلا دھاندلی، قانون شکنی اور جنوبی ایشیا اور دنیا کے امن کو تباہی سے دوچار کرنے کی سازش ہے۔ تمام مہذب اور قانون وانصاف پسند اقوام اس جنونی سوچ کو روکنے میں اپنا فعال کردار ادا کرکے دنیا کے امن کو بچائیں۔'
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں مسلسل مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔
اس سلسلے میں پنجاب اسمبلی نے بھی ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں انڈین افواج کی جانب سے کشمیر میں ایل او سی کے پار مبینہ طور پر کلسٹر بم حملے کرنے کی مذمت کی گئی۔
قرارداد میں کہا گیا کہ 'کشمیر کی صورتحال کو اجاگر کرنے کے لیے وسیع سفارتی مہم شروع کی جائے'
دری اثنا وزیرِ داخلہ کی جانب سے آرٹیکل 370 کے خاتمے کا معاملہ انڈیا میں بھی زیر بحث ہے اور اپوزیشن کی اکثر جماعتیں مودی حکومت کے اس فیصلے کی مذمت کر رہی ہیں۔
انڈیا میں حزب اختلاف کے رہنما غلام نبی آزاد نے کہا کہ مودی سرکار نے جموں و کشمیر کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے۔ انھوں نے کہا: 'سیکولر نظریات کے لوگ ہمیشہ کشمیریوں کے لیے جدوجہد کریں گے۔‘
کانگریس رہنما اور سابق وزیر خزانہ پی چدمبرم نے کہا کہ 'یہ آئین کے لیے ایک سیاہ دن ہے۔ چدمبرم نے کہا کہ انھوں نے نہ صرف 370 ختم کیا بلکہ جموں و کشمیر کو بھی تقسیم کر دیا۔ چدمبرم نے کہا کہ ہندوستان کے تصور کا خاتمہ شروع ہوچکا ہے۔انھوں نے کہا کہ آج بی جے پی بھلےہی اپنی پیٹھ تھپتھپا لے مگر آنے والے دنوں میں بی جے پی پچھتانا پڑے گا۔۔دوسرے اسٹیٹ بھی الگ ہونے کی بات کریں گے۔
دلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے ٹویٹ کرکے حکومت کے فیصلے کی حمایت کی ہے۔ کیجریوال نے ٹویٹ کیا: 'ہم جموں و کشمیر سے متعلق حکومت کے فیصلے کے ساتھ ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ اس سے ریاست میں امن اور ترقی کی راہ ہموار ہو گی۔'
معروف تاريخ دان رام چندر گوہا نے کشمیر کے فیصلے پر اپنے زمانے کے معروف انقلابی رہنما جے پرکاش نارائن کا قول نقل کیا۔
پروفیسر گوہا نے لکھا کہ جے پرکاش نارائن نے سنہ 1966 میں کشمیر کے متعلق کہا تھا: اگر ہم طاقت کے زور پر حکومت کرتے رہے اور ان لوگوں کو دباتے رہے کچلتے رہے یا ان پر تسلط قائم کر کے یا کسی دوسری طرح ان کی ریاست کا نسلی یا مذہبی کردار بدلیں گے تو ایسا کرنا سیاسی طور پر سب سے زیادہ نفرت انگیز بات ہوگی۔' اس کے علاوہ سماج وادی پارٹی کے ابو عاصم اعظمی۔پنجاب کے وزیر اعلیٰ امریندر سنگھ۔سی پی ایم ۔اور دیگر جماعتوں و سیاسی رہنماوں نے اس بل کی مخالفت کی ہے۔

دوسری طرف بی جے پی اور ان کی اتحادی جماعتیں جشن منا رہی ہیں اور سوشل میڈیا پر 'بالآخر کشمیر کے ہندوستان میں الحاق' کا جشن منانے جیسی باتیں پوسٹ کی جا رہی ہیں۔