Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, September 4, 2019

یوم اساتذہ۔”5 ستمبر“پر خاص پیشکش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خود کو جلایا ، ہمیں بنایا۔


سلیمان سعودرشیدی/صداٸے وقت۔عاصم طاہر اعظمی۔
=========================
ہمارا معاشرہ سال کے جن ایام کو خصوصی اہمیت دیتاہے ، ان میں سےایک یومِ اساتذہ بھی ہے، جو 5ستمبر کو ہر سال پورے ملک میں منایاجاتاہے۔ اس موقع پر جلسے ، مذاکرے اور اس نوعیت کے مختلف رنگا رنگ پروگراموں کا انعقاد کرکے ایک قابل احترام اور مقدس پیشہ میں مصروف اساتذہ کو خراجِ تحسین پیش کیا جاتاہے۔

آج ہم یقیناً یوم ِ اساتذہ 
تزک و احتشام کے ساتھ مناتے ہیں، اساتذہ کی حالت ضرور بہتر ہوئی ہے، ان کی ہر طرح مادی ترقی بھی ہوئی ہے مگر یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے، اس کا دوسرا پہلو اتنا ہی دھندلا اور قابل ِ غور ہے، جو ہمیں بتاتا ہے کہ استاد و شاگرد کا مستحکم رشتہ جو پہلے تھا وہ اب کافی کمزور ہوچکاہے ۔ ایک زمانہ وہ تھا جب استاد کو شخصیت ساز اور معمارِ قوم تصور کیا جاتاتھا اور حاکم ِ وقت بھی اپنے استاد کے احترام میں سرجھکا دیتے تھے۔ سکندر ِ اعظم کا واقعہ مشہور ہے کہ وہ اپنے استاد ارسطو کے ساتھ سفر کررہاتھا، راستے میں ایک دریا آیا تو دونوں میں یہ مشورہ ہوا کہ پہلے پانی میں اتر کر کون اس کی گہرائی کا اندازہ لگائے۔ سکندر اعظم کی ضد تھی کہ دریا کی گہرائی ناپنے کا اسے موقع دیا جائے ۔ ارسطو نے سکندر کو اس سے باز رکھتے ہوئے کہاکہ میں تمہار ا استاد ہوں ، تمہیں میری بات ماننی ہوگی۔ پانی میں پہلے میں اتروں گا۔ سکندر نے برجستہ جواب دیا کہ استاذ محترم اس عمل میں آپ کی جان بھی جاسکتی ہے۔ لہذا میں ہرگز یہ گوارہ نہیں کروں گا کہ دنیا آپ جیسے لائق استاد سے محروم ہوجائے۔ کیوں کہ سیکڑوں سکندر مل کر بھی ایک ارسطو پیدا نہیں کرسکتے، جب کہ ایک ارسطو سیکڑوں کیا ہزاروں سکندر پیدا کرسکتاہے۔ سکندر کا یہ قول بھی بہت مشہور ہے کہ میرے والدین نےمجھے آسمان سے زمین پر اتارا جب کہ میرے استاد نے مجھے زمین سے آسمان کی بلندی تک پہنچا دیا۔

معمار کی اہمیت:
استاد کو قوم کا معمار کہا اور روحانی والدین کا درجہ دیا جاتاہے۔ استاد کا پیشہ ایسا ہے جس کا تعلق پیغمبری سے ہے۔ اس پیشے کا مقصد ہی انسان سازی ہے جو ایک ایسی صنعت کا درجہ رکھتا ہے جس پر تمام صفات کا ہی نہیں بلکہ ساری زندگی کا دارومدار ہے۔ معلمین کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتے ہیں ، اساتذہ کی اہمیت اس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب نے اللہ کے حقوق کے ساتھ والدین اور استاد کے حقوق و احترام ادا کرنے کی تلقین کی ہے۔ ایک بچہ کی تربیت میں جو حصہ ماں ادا کرتی ہے ، وہی بعد میں ایک استاد نبھاتاہے۔ استاد صرف نصاب تعلیم نہیں پڑھاتا وہ شخصیت سازی (Personality Development)کاکام بھی کرتاہے۔ تعلیم کے ساتھ تربیت (Training) بھی دیتاہے ۔ آج کا بچہ کل کا مثالی شہری (Ideal Citizen)بنے گا۔ اسے پہلا سبق اپنے اساتذہ سے ہی لینا پڑتاہےاور ان کی نگرانی میں ہی بچہ جوانی کی سیڑھی پر قدم رکھتاہے۔ اُسے اپنے اساتذہ سے صرف نصابی علم نہیں ملتا بلکہ اخلاق، تہذیب اور ثقافت کابھی درس ملتاہے۔لیکن ہمارے معاشرے میں استاد کے بارے میں عموماً غیر سنجیدہ قسم کی رائے رکھی جاتی ہے اور انہیں وہ مقام نہیں دیا جاتا جس کے وہ حق دار ہیں۔ قومیں جب بھی عروج حاصل کرتی ہیں تو اپنے اساتذہ کی تکریم کی بدولت ہی حاصل کرتی ہیں۔کسی قوم پر زوال آنے کی سب سے بڑی وجہ بھی اساتذہ کی تکریم چھوڑ دینا ہے۔اساتذہ کی عظمت کے بارے میں دنیا بھر کی زبانوں میں بے شمار اقوال موجود ہیں اور مہذب معاشروں میں انہیں قدر و منزلت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ ترقی کی منزلیں تعلیم سے جڑی ہیں اور کون ہے جو تعلیم میں اساتذہ کے کردار سے انکار کرے۔ غالباً درس و تدریس کے شعبے میں سب سے زیادہ افراد کام کرتے ہیں۔اساتذہ کا عالمی دن ہر سال 5 ستمبر کو منایا جاتا ہے جس کی ابتداء 1994ء سے ہوئی تھی۔ یونیسکو، یونیسف اور تعلیم سے منسلک دیگر اداروں کی جانب سے اس دن جہاں اساتذہ کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے وہاں ان مسائل کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے جو انہیں درپیش ہیں۔ استاد ایک اچھے تعلیمی نظام کا بنیادی عنصر، اس کی روح ہیں اور جب تک اساتذہ کو معاشرے میں عزت نفس نہیں ملتی، وہ مقام نہیں ملتا جس کے وہ مستحق ہیں، وہ اپنے فرائض کو بخوبی انجام نہیں دے سکتے۔
معمارنے کیا کیا:
معاشرے اور ارباب اختیار کے رویے پر نظر ڈالی جائے تو اساتذہ سب سے مظلوم اور پسماندہ طبقہ معلوم ہوتے ہیں جو اپنے بنیادی حقوق سے محروم اور شدید ذہنی اذیت سے دوچار ہیں۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد جب کسی فرد کو کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی تب وہ تدریس کے شعبے سے وابستہ ہو جاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اساتذہ کے مسائل نشاندہی کے باوجود کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھتے ہی جارہے ہیں مگر پھر بھی وہ قوم کے مستقبل کو سنوارنے اور نکھارنے کے لئے اپنا آپ وقف کئے ہوئے ہیں۔ یہ استاد ہی ہے جس نے طالبعلم کو زندگی کا سلیقہ اور مقصد سکھایا ، سوچ اور فکر کی راہ متعین کی ، اعتماد دیا ، زندگی کی گٹھیاں سلجھانے کے گر بتائے ، محبتوں کے ساتھ اس وقت پہلا سبق پڑھایا جب ہم کچھ نہیں جانتے تھے ، ان پڑھ اور جاہل تھے ، ہمارے اساتذہ نے اپنی صلاحیتیں ہم پر صرف کیں اور ہمیں اس قابل بنایا کہ آج ہم مضبوط کردار اور مثبت روایات کے امین اور معاشرے میں ایک مقام رکھتے ہیں۔
معمار کے مسائل:
اساتذہ کے مسائل کیا ہیں ، انہیں دہرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس موضوع پر چیخنا چلانا تو کئی دہائیوں سے جاری ہے تاہم یہ بات دہرادینا لازمی ہے کہ وسائل کی عدم دستیابی اور معاشی طور پر مضبوط نہ ہونا اساتذہ کے اہم ترین بنیادی مسائل ہیں۔ جس شخص نے نسلِ نو کی تربیت کرنی اور ایک سلجھا ہوا معاشرہ پیدا کرنا ہے وہ حکومت کی طرف سے بنیادی سہولیات سے محروم ہے یہی وجہ ہے کہ آج کے اساتذہ میں ماضی کے اساتذہ جیسی خوبیاں نہیں ہیں۔ ہمارے اساتذہ نے ہماری تعلیم و تربیت کا بیڑہ اٹھایا تو اپنا فرض اس بھرپور طریقے سے نبھایا کہ صرف پڑھایا ہی نہیں بلکہ اخلاقی طور پر بھی مضبوط کیا۔ ہمیں صرف کتابی تعلیم ہی نہیں دی بلکہ دینی ، اخلاقی ، روحانی ، جسمانی ، ذہنی ، معاشرتی اور ہر طرح کی تعلیم و تربیت سے بھی ہمکنار کیا۔ زمانے کے اتار چڑھاؤ سے لے کر اپنے احتساب تک ، ہماری کردار سازی میں انہوں نے اپنا پورا حق یوں اداکیا کہ بے اختیار انہیں خراج تحسین پیش کرنے کو جی چاہتا ہے۔ ان کا نام ہی نہیں ، خیال بھی آئے تو ہم بے اختیار احترام میں کھڑے ہوجاتے اور اپنی قسمت پر ناز کرتے ہیں کہ ہمیں وہ استاد ملے جن کی تربیت پر ہمیں فخر ہے 5 ستمبر کا دن سیمینارز ، واک اور ایسی دیگر سرگرمیوں کے ذریعے حکام بالا تک وطن عزیز کے لاکھوں اساتذہ کی آواز پہنچائی جاتی اور یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ’’ استاد کے مسائل کا حل جلسوں ، مظاہروں ،قراردادوں ، سیمینارز اور کانفرنسوں میں ہونے والے مطالبات ، دعووں اور وعدوں میں نہیں بلکہ اب انہیں عملی جامہ پہنانے میں پوشیدہ ہے‘‘۔ بلاشبہ یوم اساتذہ جہاں اساتذہ کی تکریم کے احساس کا دن ہے وہیں اس عزم کے اعادے کا بھی دن ہے کہ اگر ایک بہترین قوم کی تشکیل درکار ہے۔
معلم ومتعلم سے گذارش:
طلبا کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ وہ اساتذہ سے فیض حاصل کرتے ہیں ، اساتذہ ان کی ذہنی پرورش کرتے ہیں، وہ ان کے محسن ہیں اور شرافت کا تقاضہ یہ ہے کہ اپنے محسن کے سامنے انسان کی نگاہیں جھکتی رہیں۔ دوسری طرف استاد کا یہ سمجھنا کہ ان معین گھنٹوں کے بعد شاگرد کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ میرے دروازے پر دستک دے، صریحاً غیر اخلاقی ہے۔ شاگرد ان کی معنوی اولا دہیں۔ وہ اپنی طالب علمانہ زندگی ہی میں نہیں بلکہ عمر بھر یہ حق رکھتاہے کہ جب بھی اسے کوئی الجھن پیش آئے تو وہ استاد کے دروازے پر دستک دے اور اس کا مشورہ چاہے۔ استاد اور شاگرد کے رشتے کی یہ ایک بنیادی کڑی ہے۔ مگر یہ جاننا چاہئے کہ شفقت و تعظیم لازم وملزوم ہیں ۔ کبھی تعظیم سے شفقت پیدا ہوتی ہے اور کبھی تعظیم شفقت کو جنم دیتی ہے ۔ شفقت و محبت وہ چیز ہے کہ اس سے برف کے سلوں اور پتھر کی چٹانوں کو پگھلتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ خلوص ومحبت ہمیشہ دلوں کو فتح کرتے ہیں اور جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح ِ زمانہ ۔ استاد وشاگرد کے رشتوں کی تمام پیچیدگیاں شفقت و تعظیم کے آزمودہ نسخے سے ہی دور ہوسکتی ہیں۔
آخری بات:
اساتذہ کرام کی اہمیت والدین کے بعد اک سرپرست کی ہے۔ اساتذہ قوم کا مستقبل بناتے ہیں اور ایک بہتر سماج کی تشکیل کرتے ہیں۔ مگر کیا ہم نے کبھی غور کیا انہیں بدلے میں کیا ملتا ہے؟
ایک سروے کے مطابق پورے بھارت میں اسکولی اساتذہ کی حالت کالج و یونیورسٹی سطحی اساتذہ کے مقابلے بد تر ہیں ۔ اس وقت خاص کرتلگانہ میں اردو اساتذہ کرام جن کی بحالی غیر مستقل ہے انہیں مشاہرہ بھی کم ملتاہے اور وہ بھی انہیں وقت پر نہیں مل پاتا ہے ۔ دوسرے ذرائع کے مطابق پورے بھارت میں پرائمری سطح سے لے کر یونیورسٹی سطح تک لاکھوں اسامیان خالی پڑی ہیں جسے پر کرنا محکمہ تعلیم کا فرض ہے اور وقت کی اہم ضرورت بھی ۔ لہٰذا میں محکمہ تعلیم سے یہی مطالبہ کروں گا کہ وہ بحال شد ہ اساتذہ کرام کی بدحالی پر رحم کریں و نئے اساتذہ کی بحالی کو بھی یقینی بنائیں۔