Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, September 23, 2019

حکیم کبیر الدین بحیثیت مترجم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از ڈاکٹر فیاض احمد علیگ۔

از/ ڈاکٹر فیاض احمد (علیگ)
دارالشفا فرینک اسلام روڈ۔سرائمیر۔اعظم گڈھ
dr.faiyaz.alig@gmail.com.
=============================
حکیم محمد کبیرالدین (۱۳؍اپریل۱۸۹۴ء۔۹ ؍جنوری ۱۹۷۶ء ) (۱)کو طبی دنیا میں جو شہرت و مقبولیت حاصل ہے وہ ہند و پاک کے دیگر مصنفین و مترجمین کو بہت کم حاصل ہوئی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ حکیم ْمحمدکبیرالدین کے ذریعہ طب یونانی کی درسی و غیر درسی عربی و فارسی طبی کتب کے تراجم ہیں جن سے آج تک لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حکیم کبیرالدین سے قبل چند عربی و فارسی طبی کتب کے اردو تراجم موجود تھے لیکن وہ سب لفظی ترجمے تھے۔ ان تراجم کی زبان انتہائی مشکل، جملے بے ربط اور اسلوب پیچیدہ تھا،جن کا سمجھنا ایک طالب علم کے لئے مشکل تھا۔ دوسرے طب یونانی کی بیشترنصابی کتب اردو میں ناپید تھیں۔انہیں مشکلات کو دیکھتے ہوئے حکیم کبیر الدین نے اس وقت کے طبی نصاب کے مطابق طبی درسگاہوں میںرائج کتب کو عام فہم اور آسان زبان میں منتقل کرنے کی کوشس کی اور اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی رہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ روز اول سے آج تک ان کے تراجم طبی درسگاہوں کے طلبہ و اساتذہ میں سب سے زیادہ مقبول و معروف ہیں۔
عربی و فارسی طبی کتب و رسائل کو اردو میں منتقل کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ؟اس کے محرکات و عوامل کیا تھے ؟۔ اس کے بارے میں حکیم کبیرالدین صاحب خود لکھتے ہیں کہ
’’ ہر زمانے کی ایک ضرورت اور ضرورت کے ایفاء کے لئے ایک موزوں وقت ہے۔۱۹۱۰ء سے قبل ہی جو میری تعلیم کا زمانہ تھا ،علوم عربیہ کی کساد بازاری کا احساس ہونے لگا تھا اور علم طب کو عربی زبان میں حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد روز بروز گھٹ رہی تھی۔وہ زمانہ گذرچکا تھا جب کہ ہندوستان میں فارسی زبان تقریباً مادری زبان کے برابر سمجھی جاتی تھی اور عربی زبان کا جانناتعلیم یافتہ ہونے کے لئے ضروری شرط متصور ہوتا تھا۔نبض شناسان زمانہ تشخیص کر چکے تھے کہ اگر طب قدیم کو ہندوستان میں زندہ رکھنا اور ترقی دینا مقصود ہے تو اس کو اردو زبان میں منتقل کرنا ناگزیر ہے۔‘‘ (۲)
ان کے اس احساس اور جذبہ شوق کو حکیم اجمل خاں نے مزید تقویت بخشی اور ان کو تصنیف و تالیف کا میدان اپنا نے کا مشورہ دیا۔بقول حکیم کبیرالدین :۔
’’جب میں نے اپنا دور تعلیم ختم کر کے کسی مستقل میدان میں قدم رکھنے کا ارادہ کیا تو حضرت استاد مسیح الملک مرحوم نے بکمال شفقت مجھے ایماء فرمایا کہ کسی دوسرے طبی شعبہ کو اختیار کرنے کے بجائے تالیف و تراجم کی اہم خدمت میں اپنی زندگی کو مصروف کروں اور عہد حاضر کی ضرورت تعلیم و تعلم کے ایفاء میں مشغول ہو جائوں جو حالات موجودہ کے لحاظ سے طب کی 
ایک بڑی خدمت ہو گی۔‘‘ (۳)
ڈاکٹر فیاض احمد علیگ

چنانچہ ذاتی دلچسپی اور طبعی ذوق کی بناء پر حکیم کبیرالدین نے اپنے استاد محترم کے مشورہ کو ان کا حکم سمجھ کر تسلیم کیا اور تمام عمر تصنیف و تالیف اور ترجمہ نگاری میںمصروف رہے جیسا کہ وہ خود لکھتے ہیں کہ
’’اس مشعل ہدایت کی روشنی میں تائید ایزدی کے ساتھ اس دشوار گذار و پر خطر راستہ پر قدم رکھ کر عزم صمیم کے ساتھ میں نے اپنی علمی زندگی کو اس علمی خدمت میں مصروف کر دینے کا تہیہ کر لیا جس پر زمانہء تلمذ سے آج تک گامزن ہوں۔‘‘ (۴)
حکیم کبیر الدین کا فطری میلان و ذہنی رجحان ابتداء سے ہی تصنیف و تالیف کی طرف تھا ،اس لئے تعلیم کی تکمیل کے بعد مطب کے جھمیلوں میں نہ پڑ کر سب سے پہلے پنڈت ٹھاکر دت شرما، موجد امرت دھارا کے یہاں ترجمہ و تالیف کے شعبہ میں ملازمت کی۔ بعد ازاں شمس الاطباء حکیم و ڈاکٹر غلام جیلانی کے شعبہء تالیف و تصنیف میں ملازمت کی۔ (۵)
مذکورہ دونوں ملازمتوں سے خاظر خواہ مطمئن نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے ملازمت کا ارادہ ترک کر دیا۔اس کے بعد انہوںنے لاہور میں (ریلوے کے نزدیک) ’’فیض کبیر ‘‘ کے نام سے اپنا ذاتی مطب قائم کیا۔ (۶) لیکن طبیعت اور مزاج مطب کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں تھے۔ مطب کی مصروفیات ان کے ذوق طبع کے منافی تھیں اور وہ خاطر خواہ مطمئن نہیں تھے۔وہ تصنیف و تالیف کا کام کرنا چاہتے تھے اور حالات مطب کرنے پر مجبور کر رہے تھے۔ ان کی یہ الجھن اس وقت دور ہوتی نظر آئی جب ۱۹۱۴ء کے اوائل میں انہیں مختلف ذرائع سے پتہ چلا کہ مسیح الملک حکیم اجمل خاں کے ذہن میں طبیہ کالج دہلی (جس کا سنگ بنیاد قرول باغ دہلی میں رکھا جا چکا تھا) کے نصاب تعلیم اور شعبہ ء ترجمہ و تالیف کے بارے میں اسکیم زیر غور ہے۔ اس خبر کے ملتے ہی حکیم کبیرالدین کو اپنا خواب شرمندہء تعبیر ہوتا نظر آیا اور بقول حکیم راجندر لال ورما ’’انہوں نے شرح اسباب کی چار جلدوں میں سے دو جلدوں کا اردو ترجمہ نہایت برق رفتاری سے طبع کرانے کے بعد اسے استاد محترم اجمل اعظم کی خدمت میں پیش کیا ‘‘ْ (۷)جن کے معزز نام پر شرح اسباب اردو ترجمہ (طبع اول) معنون کی گئی ہے۔اس ترجمہ کی سرسری ورق گردانی کے بعدمسیح الملک کا یہ ارشاد ہوا کہ :۔
’’جدید تنظیم کے تحت ترجمہ و تالیف کا ایک شعبہ کھولا جا رہا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم اس شعبہ میں مولف اول کے طور پر کام کرو۔‘‘(۸)
اس شعبہ تصنیف و تالیف سے منسلک ہونے کے بعد حکیم کبیرالدین نے اس وقت کے طبی نصاب کے مطابق تین اہم کتابیں تصنیف کیں۔ بقول مختار احمد اصلاحی:۔
’’آپ نے پہلی کتاب تیمارداری پر ،دوسری تشریح پر اور تیسری منافع الاعضاء پر تحریر فرمائی۔‘‘(۹)
مذکورہ کتب کی کامیاب اشاعت و مقبولیت کے بعد جراحیات(Surgery) پر ایک معیاری کتاب کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی تھی۔ چنانچہ مسیح الملک حکیم اجمل خاں کی ہدایت کے مطابق قدیم و جدید سرجری کی کتب سے استفادہ کرتے ہوئے دو جلدوں میں ’’ علم الجراحت ‘‘ تالیف کی جیسا کہ وہ خود لکھتے ہیں کہ
’’جدید طبی نصاب کی تکمیل کے لئے اردو زبان میں جراحیات پر معیاری کتاب کی شدید ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔ چنانچہ مسیح الملک مرحوم کی تحریک و ہدایت کے مطابق ’’سرجری رولز اینڈ کارلس‘ ‘، ’’جراحیات زہراوی‘‘ اور دیگر مستند کتب کی مدد سے میں نے علم الجراحت دو جلدوں میں تالیف کی‘‘۔(۱۰)
حکیم کبیرالدین کے صاحبزادے ڈاکٹر محمدجمال الدین کے مطابق ۱۹۱۶ء؁ سے ۱۹۲۱ء؁ کے درمیان والد صاحب نے ایک علمی ماہنامہ ’’المسیح ‘‘ اپنی زیر ادارت شائع کیا لیکن گوناگوں مصروفیات کی بناء پر اس رسالہ کی اشاعت ۱۹۲۱ء ؁ کے بعد جاری نہ رکھی جا سکی۔ اسی زمانہ میں ادارہ نشر و اشاعت ’’دفتر المسیح ‘‘ کی داغ بیل ڈالی۔ (۱۱)
مذکورہ ادارہ کے قیام کا مقصد طبی کتب کی فراہمی تھا۔ اس میں حکیم محمدعبدالواحد، حکیم محمد صدیق ،حکیم محمد یوسف نیر اور حکیم حبیب اللہ شامل تھے،جنہوں نے ’’المسیح ‘‘سے کتب شائع کرائیں۔ (۱۲)

اس ادارہ کے تحت اس وقت تقریباً تمام درسی و غیر درسی کتب و رسائل کے تراجم شائع ہوئے۔ بقول ظل الرحمن:۔
’’حکیم صاحب کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ادارہ ’’المسیح ‘‘ کے ذریعہ اردو زبان میں طب کی نصابی کتابوں کی تیاری و اشاعت کی طرف خصوصی توجہ دی اور ان کی مساعی سے طب کا جامع نصاب مرتب ہو سکا۔‘‘(۱۳)
اسی طرح حکیم کبیرالدین کی طبی خدمات اور ادارہ ’’المسیح ‘‘ کے تعلق سے حکیم حسان نگرامی صاحب رقمطراز ہیں کہ ’’اس ادارے کے ذریعہ حکیم صاحب نے یقیناًیونانی طب کو ایک بار پھر حیات نو بخشی اور عربی اور فارسی کتابوں کو اردو میں منتقل کر کے وہی کارنامہ انجام دیا جو بغداد میں عہد عباسی کے بیت الحکمت نے انجام دیا تھا ْ۔ بلا شبہ اگر یہ تراجم اور تالیفات نہ ہوتیں تو طبی کتابوں کے سمجھنے والے
انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔‘‘(۱۴)
اس طرح ۱۹۲۵ء تک حکیم اجمل خاںاور ان کے رفقاء و تلامذہ کی کوشسوں سے ادارہ ’’المسیح ‘‘ کے تحت نہ صرف طبیہ کالج کے نصاب کی تکمیل ہو چکی تھی بلکہ قدیم و جدید مضامین کی کتابیں بھی ادارہ ’’المسیح ‘‘ کے تحت شائع ہو چکی تھیں۔اس عظیم کام سے فراغت کے بعد حکیم اجمل خاں اصلاح نصاب کی طرف متوجہ ہوئے۔اس کام کے لئے ۱۹۲۶ءمیں ایک مجلس علمی کی تشکیل ہوئی اور دہرہ دون و مصوری کے درمیان واقع قصبہ راجپوری میں طب یونانی کے عظیم رہنما حکیم اجمل خاں کی نگرانی میں اس کام کی ابتدا کی گئی اور ایک عہد نامہ تیار ہوا جو معاہدہ اجمل کے نام سے منسوب ہے۔ اس عہد نامہ کے الفاظ یہ ہیں۔
’’ہم آج ۲ ؍ جولائی ۱۹۲۶ء؁ کو جمعہ کے دن ’’اصلاح طب‘‘ کا کام جو حقیقت میں یونانی طب کے لئے بمنزلہ اساس کے ہے ،شروع کیا اور ہم خدا وندتعالی سے دعا کرتے ہیں کہ ہم اس جلیل القدر خدمت کو اپنی استطاعت کے مطابق برابر انجام دیتے رہیں۔(۱۵)
دستخط:۔ اجمل، فضل الرحمن،محمد الیاس ،محمد کبیرالدین،عبد الحفیظ و سیدنا صر عباس
اس عہد نامہ پر سب سے پہلے حکیم اجمل خاں نے اپنے دستخط کئے اس کے بعد دیگر اراکین مجلس سے ارشاد ہوا کہ وہ وصیت اجملی پر دستخط کر کے آخری لمحات تک اس علمی عہد و پیمان کے پابندہو جائیں۔
اس عہد نامہ کے بعد دیگر اراکین مجلس کے علاوہ دیگر اطباء میں بھی یونانی کی اصلاح و فروغ کا جذبہ پیدا ہوا۔ ان کے ارادوں اور حوصلوں کو تقویت ملی اور تصنیف و تالیف نیز تراجم کا سلسلہ تیز ہو گیا۔اس مجلس علمی کے اراکین و دیگر ہم عصراطبا نے اپنی اپنی بساط کے مطابق طب یونانی کی اصلاح اور تصنیف و تالیف میں حصہ لیا اور گراں قدر خدمات انجام دیں لیکن ان اطبا اور مصنفین میں جو شہرت و مقبولیت حکیم کبیر الدین کو حاصل ہوئی وہ کسی اور کو نہ مل سکی۔اس کی بنیادی وجہ نصابی کتب کے تراجم اور ان کی بسیار نویسی ہے۔سوانح نگاروں کے مطابق انہوں نے اپنی عمر کے برابر کتابیں لکھ ڈالیں۔ حکیم مختار اصلاحی کے مطا بق وہ چھوٹی بڑی تقریباً ۸۰ کتابوں کے مصنف ہیں۔ (۱۶) جبکہ حکیم حافظ حبیب الرحمن کے مطابق آپ نے ۸۲ سال کی عمر میں ۸۲ کتب تحریر کیں۔ (۱۷) حکیم برکت اللہ ندوی نے بڑی عرق ریزی و جانفشانی کے بعد ان کی کل ۸۷ کتب و رسائل کی فہرست پیش کی ہے (۱۸)جو حسب ذیل ہے:۔
۔اصول حمیات (معالجات حمیات)
۲۔رسالہ سل و دق(معالجات حمیات)
۳۔رسالہ سوزاک(معالجات)
۴۔رسالہ ذیابیطس(معالجات)
۵۔رسالہ دیدان امعا(معالجات)
۶۔رسال غاشیہ غامیہ (معالجات) (ٹائیفائڈ فیور)
۷۔موتی جھرہ و حمی ہذیانیہ(معالجات)
۸۔رسالہ آتشک(معالجات)
۹۔رسالہ ہیضہ(معالجات)
۱۰۔رسالہ بواسیر (معالجات)
۱۱۔رسالہ جدری (معالجات)
۱۲۔رسالہ طاعون(معالجات)
۱۳۔حمیات اجامیہ(معالجات)
۱۴۔آسان نسخے (مجرب چٹکلے)(معالجات مطب)
۱۵۔ترجمہ کبیر (شرح اسباب کا ترجمہ)حصہ اول(معالجات امراض راس و صدر)
۱۶۔ترجمہ کبیر(شرح اسبا ب کا ترجمہ)حصہ دوم(معالجات امراض معدہ و ہضم)
۱۷۔ترجمہ کبیر (شرح اسبا ب کا ترجمہ)حصہ سوم(معالجات امراض کلیہ و مثانہ)
۱۸۔ترجمہ کبیر(شرح اسباب کا ترجمہ)حصہ چہارم(معالجات تولید و تناسل و اورام و بثور)
۱۹۔حمیات قانون۔ حصہ اول(معالجات حمیات)
۲۰۔حمیات قانون۔حصہ دوم(معالجات حمیات)
۲۱۔میزان الطب اردو ترجمہ مع فرہنگ
۲۲۔تدابیر دق(معالجات)
۲۳۔رسالہ ناسور وباصور (قبض و بواسیر)
۲۴۔رسالہ وبال ونکال (آتشک و سوزاک)
۲۵۔زاد غریب (مخزن التعلیم کا اردو ترجمہ)
۲۶۔ترجمہ و شرح کلیات نفیسی۔حصۃ اول(اصول طب)
۲۷۔ترجمہ و شرح کلیات نفیسی۔حصہ دوم(اصول طب)
۲۸۔ترجمہ نفیسی۔علم الادویہ۔حصۃ اول(ادویہ)
۲۹۔ترجمہ نفیسی۔علم الادویہ۔حصہ دوم(ادویہ)
۳۰۔افادہ کبیر (قانون شیخ کا خلاصہ ،موجزالقانون کا ترجمہ)
۳۱۔افادہ کبیر مجمل (شرح موجز)
۳۲۔افادہ کبیر مفصل
۳۳۔موجز القانون (اردو ترجمہ)
۳۴۔ترجمہ و شرح کلیات قانون۔حصہ اول
۳۵۔ترجمہ و شرح کلیات قانون۔حصہ دوم
۳۶۔کلیات کے مباحث ضروری (نفیسی و اقسرائی کے اہم مضامین)
۳۷۔کتاب الاخلاط (کلیات اصول طب)
۳۸۔رسالہ قارورہ (قدیم طب سے) اصول تشخیص
۳۹۔طب یونانی کی پہلی کتاب
۴۰۔برہان۔براہین قاطعہ
۴۱۔رسالہ مسماع الصدر(اصول تشخیص)
۴۲۔رسالہ مقیاس الحرارت
۴۳۔طب قدیم و جدید کی معرکۃ الااراء علمی جنگ
۴۴۔کتاب التشخیص۔حصہ دوم
۴۵۔رسالہ جراثیم و طب قدیم
۴۶۔رسالہ جراثیم اور طبیعت
۴۷۔کتاب الادویہ تکملہ۔حصہ اول (ادویہ)
۴۸۔کتاب الادویہ۔حصہ دوم (مخزن المفردات)
۴۹۔بیاض کبیر۔حصہ اول (معالجات امراض و علاج)
۵۰۔بیاض کبیر۔حصہ دوم (ادویہ (مرکبات)
۵۱۔بیاض کبیر۔حصہ سوم(صیدلہ و دواسازی)
۵۲۔رسالہ مدار بوٹی (ادویہ)
۵۳۔ارمغان (تحقیقی مقالہ)
۵۴۔منافع کبیر(نافع الاعضاء)
۵۵۔رسالہ نبض(اصول تشخیص)
۵۶۔دوران خون اور طب قدیم(مبادی طب)
۵۷۔علاج الامراض۔حصہ اول(معالجات)
۵۸۔علاج الامراض۔حصہ دوم (معالجات)
۵۹۔مجموعہ کبیر مسمی بہ قانون نسل(معالجات)
۶۰۔تشریحی تصاویر(تشریح)
۶۱۔تشریح صغیر۔اول(تشریح)
۶۲۔تشریح صغیر۔دوم(تشریح)
۶۳۔تشریح صغیر۔سوم(تشریح)
۶۴۔تشریح کبیر۔حصہ اول(تشریح)
۶۵۔تشریح کبیر۔ حصہ دوم (تشریح)
۶۶۔رسالہ اسمائے امراض۔اول (یونانی سے ڈاکٹری)
۶۷۔رسالہ اسمائے امراض۔ دوم (ڈاکٹری سے یونانی)
۶۸۔رسالہ بحران(معالجات)
۶۹۔رسالہ اخلاط()صول وکلیات
۷۰۔رسالہ سم الفار (ادویہ)
۷۱۔رسالہ کچلہ (ادویہ)
۷۲۔الاکسیر (اکسیر اعظم کا ملخص اردو ترجمہ) (معالجات)
۷۳۔معالجات امراض نسواں(معالجات)
۷۴۔القابلہ(علم القبالۃ)
۷۵۔صدری مجربات(مطب و نسخہ جات)
۷۶۔القرابادین( ادویہ)
۷۷۔ترجمہ علاج الامراض(معالجات
۷۸۔علم الجراحت (جراحت(سرجری)
۷۹۔امراض صبیان(معالجات)
۸۰۔عمل احتقان (انجکشن کے طریقے)(معالجات)
۸۱۔کتاب التکلیس (دواسازی و کشتہ سازی)(صیدلہ)
۸۲۔فرہنگ طبی (لغت (ڈکشنری)
۸۳۔لغات کبیر۔حصہ اول(طبی اصطلاحات)
۸۴۔لغات کبیر۔حصہ دوم(لغات ادویہ)
۸۵۔تشریحی اصطلاحات(لغت)
۸۶۔طبی لغاتچہ
۸۷۔رسالہ اوزان طبی مع فہرست دارالکتب المسیح(اوزان ادویہ)
مذکورہ فہرست میں تمام کتب و رسائل حکیم کبیرالدین صاحب کے لکھے ہوئے نہیں ہیںبلکہ بعض کتب و رسائل کو محض غلط فہمی کی بنیاد ْپر ان سے منسوب کر دیا گیا ہے۔خاص طور سے ’’دفترالمسیح ‘‘ کی مطبوعات کو۔اس لئے کہ اس وقت ’’دفتر المسیح ‘ ‘ْسے مطبوعہ کتب پر عموماً مصنف یا مولف کا نام نہیں لکھا جاتا تھا بلکہ صرف ناشر کا نام ہوتا تھا جیسا کہ حکیم حافظ حبیب الرحمن صاحب لکھتے ہیں۔
’’لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ ان کتب میں ایک تاریخی غلطی یہ کی گئی ہے کہ صرف ناشر کا نام ہے۔ مصنف ،مرتب یا مولف کا نام نہیں ہے۔‘‘ (19)
اس غلطی کا نقصان یہ ہوا کہ بعد میں حکیم کبیرالدین کے معتقدین نے ’’المسیح ‘‘ کی تمام تصانیف کو ان کے نام سے منسوب کردیا۔جیسا کہ برکت اللہ ندوی کا خیال ہے کہ
’’ان کے بارے میں مشہور یہ ہے کہ دفتر’’المسیح‘‘ سے شائع شدہ کتابیں سب ان کی تصنیف کی ہوئی ہیں اور ان کے ترجمے و تالیفات ہیں۔ جبکہ یہ بالکل غلط ہے۔‘‘(۲۰)
اپنے اس دعوی کے ثبو ت میں دلیل کے طور پر برکت اللہ ندوی نے ’’رسالہ جدری ‘‘ اور ’’رسالہ سوزاک‘‘ کو پیش کیا ہے جو دراصل حکیم محمد عبداللہ ناظم و نائب مدیر ’’المسیح ‘‘ کے تحریر کردہ ہیں۔اسی طرح حکیم وسیم احمد اعظمی نے بھی تحقیق کے بعد چند کتب ورسائل کی نشان دہی کی ہے جو حکیم کبیرالدین کے بجائے کسی اور کے تحریر کردہ ہیں یا پھر ان کا تعاون شامل رہا ہے۔(۲۱)
بڑی عجیب بات یہ ہے کہ برکت اللہ ندوی نے جن رسالوں کو حکیم کبیرالدین کے بجائے حکیم محمد عبداللہ کے تحریر کردہ بتائے ہیں ان کو بھی حکیم کبیرالدین کی تصانیف میں شامل کردیا ہے۔ اب اس کوان کی لاشعوری غلطی سمجھا جائے یا حکیم ْمحمدکبیرالدین سے ان کی عقیدت پرمحمول کیا جائے ؟ اس کا جواب وہی دے سکتے ہیں۔
بہر کیف۔۔۔۔۔۔۔۔مذکورہ اختلافات کے باوجود حکیم کبیرالدین طب یونانی کے مقبول و معروف مولف و مترجم ہیں جن کی تصانیف یونانی دنیا میں سب سے زیادہ مقبول ہیں اور آج تک لوگ ان ْکی تصانیف سے مستفید ہو رہے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ نظام حیدرآباد نے ان کو ’’ شہنشاہ تصانیف ‘‘کے خطاب سے نوازا اور کلیات ادویہ کی تصنیف پر توصیفی نوٹ تحریر کیا تھا۔(۲۲)
حکیم محمد کبیر الدین

حکیم کبیرالدین جیسے بسیار نویس مصنف و مترجم کی تمام تصانیف کا ایک مضمون میں تجزیہ کرنا ممکن نہیں۔اس لئے ’’دیگ کے چند چاول‘‘کے مصداق اس وقت صرف ترجمہ کبیر (شرح اسباب) پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں جو طبی دنیا میں سب سے زیادہ مقبول و معروف ہے اور اسی کتاب سے انہوں نے نہ صرف ترجمہ کا آغاز کیا تھا بلکہ اسی کے سہارے وہ حکیم اجمل خاں کے مقرب اور ان کے شعبہ تصنیف و تالیف کے مولف اول بننے میں کامیاب ہوئے تھے۔اس کتاب کی غرض و غایت بتاتے ہوئے وہ ترجمہ کبیر (جو پہلی بار ۱۹۱۶ء میں شائع ہوا تھا ) کے دیباچہ میں لکھتے ہیں کہ
’’شرح اسباب کا ترجمہ اب تک شائع نہیں ہوا تھا۔ اردو فارسی خواں اطباء اس کے فوائد سے بالکل محروم تھے۔اس لئے میں نے ارادہ کیا کہ اس کا ایک سہل،سلیس اور عام فہم ترجمہ کروںتاکہ عربی نہ جاننے والے اس سے متمتع ہو سکیں۔‘‘(۲۳)
حکیم کبیرالدین کے مذکورہ بیان کی روشنی میں شرح اسباب کی زبان ،اس کا اسلوب اور انداز بیان یقیناً عربی فارسی داں طلبہ و اساتذہ کے لئے سلیس اور عام فہم ہے لیکن وہیں اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ جو لوگ عربی و فارسی سے نابلد ہیں اور صرف اردو انگریزی سے واقف ہیں ان کے لئے انتہائی پیچیدہ اور مشکل ہے۔
شرح اسباب کو جب ہم مطالعہ کے لئے اٹھاتے ہیں تو سب سے پہلے صفحہ پر لکھا ہوا یہ جملہ ’’اغلاط سے مبراء‘‘ ذہن کو بری طرح کھٹکتا ہے۔پتہ نہیں یہ جملہ مصنف کا لکھا ہوا ہے یا ناشرین کا اضافہ ؟ کسی انسان کی کوئی تخلیق یا تصنیف اغلاط سے مبراء نہیں ہو سکتی۔ دوسرے شرح اسباب میں زبان و بیان کی بے شمار غلطیوں کے ساتھ ساتھ پروف کی بھی اتنی غلطیاں ہیں کہ پوری کتاب اغلاط کا مجموعہ ہے۔ اس کے باوجود سر ورق پر ’’اغلاط سے مبراء‘‘ لکھنا ،چہ معنی دارد ؟
س کے بعد جب ہم شرح اسباب کا تفصیلی مطالعہ کرتے ہیں تو اس کی زبان، اس کے اسلوب اور انداز بیان میں دو متضاد صورتیں نظر آتی ہیں۔کہیں تو اس کا اسلوب انتہائی سادہ ،زبان فصیح اور انداز بیان بالکل سلیس ملتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ عبارت ملاحظہ ہو
’’کبھی بہرہ پن کان کے سوراخ کے مسدود ہونے سے پیدا ہوتا ہے کیونکہ وہ ہوا جس میں آواز ہوتی ہے، عصبہ سامعہ تک پہنچنے نہیں پاتی۔ ‘‘ (۲۴)
وہیں دوسری جگہ ان کی زبان اور ان کا اسلوب بالکل برعکس اور سطحی نظر آتا ہے۔ یہ انداز بھی ملاحظہ ہو ’’دہلیز اور کان کے ڈھول کے درمیان مصنوعی کھڑکی کے ذریعہ تعلق ہے اور قوقعہ اور اس ڈھول کے درمیان گول کھڑکی لگی ہوئی ہے۔ غرض کان کے اندر ونی حصہ میں انہیں دونوں کھڑکیوں کے ذریعہ اس ڈھول میں سے گزر کرآواز اندر پہنچتی ہے اور کان کے اندرونی پٹھے انہیں سن لیتے ہیں۔‘‘(۲۵)
مذکورہ عبارت کو پڑھتے ہوئے کہیں سے بھی ایسا نہیں لگتا کہ کوئی ماہر طبیب یا ماہر فن ،تشریح (Anatomy) جیسے سنجیدہ موضوع پر گفتگو کر رہا ہے بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی الو کا پٹھا اپنے گھر کے کھڑکی ودروازے کا نقشہ بتا رہا ہے۔اسی طرح دوسری جگہ Vocal Cord کی تشریح کرتے ہوئے یوں لکھتے ہیں کہ
’’آواز کی ڈوریاں: دو رباطات یا بند ہیں ،جو غضروف طرجھالی اور غضروف تبرسی کے مابین واقع ہیں،یہ کل چار ہیں۔دو اوپر کی ڈوریاں جھوٹی کہلاتی ہیں اور دونیچے کی سچی سچی ڈوریوں کو گاہے لسان المزمار بھی کہتے ہیں۔مزمار باجہ کو کہتے ہیں۔ لسان المزمار باجہ کا وہ
حصہ کہلاتا ہے جہاں آواز بنتی ہے۔‘‘(۲۶)
اس عبارت کو پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے جیسے کوئی ماہرطبلہ ساز ،طبلے کی ساخت اور اس کی تیکنک سمجھا رہاہے۔ شرح اسباب میں جگہ جگہ اس طرح کی عبارتیں موجود ہیں جو قاری کے ذہن کو بوجھل کر تی اور اس کی حس لطیف پر گراں گذرتی ہیں۔ اس طرح سے دو متضاد اسلوب اور زبان کودیکھ کر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ ترجمہ ایک آدمی کا کیا ہوا ہے یا کئی لوگوں نے مل کر کیا ہے اور پھر انہیں یکجا کردیا گیا ہے ؟دوسرے یہ ترجمہ انہوں نے طب یونانی کے طلبہ و اساتذہ کے لئے کیا ہے یا کم پڑھے لکھے عام افراد کے لئے ؟ مزید برآںیہ بات بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ انہوں نے اس طرح سے طب کو جدید میڈیکل سائنس سے ہم آہنگ کرنے کی کوشس کی ہے یا عام آدمی کے ذہن و دماغ سے ہم آہنگ کرنے کی کوشس کی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کا موخرالذکر اسلوب اور زبان کسی کے بھی پلے نہیں پڑ سکتی۔
ترجمہ ایک مشکل فن ہے خاص طور سے دوسری زبان کے محاوروں اور اصطلاحات کا ترجمہ بسا اوقات مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں ان اصطلاحات کو بعینہ استعمال کیا جاتا ہے۔اردو زبا ن تو اس قدر وسیع اور کشادہ دل ہے کہ دوسری زبانوں کے الفاظ و اصطلاحات کو اپنے اندر اس طرح جذب کر لیتی ہے کہ اجنبیت کا احساس ہی نہیں ہوتا۔لیکن علامہ کبیرالدین نے اصطلاحات سازی میں بڑی عرق ریزی سے کام لیا ہے۔اس سلسلسہ میں وہ لکھتے ہیں کہ
’’اس کو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو تصنیف و تالیف کے معرکہ شناس ہوں۔ایک اصطلاحی لفظ وضع کرنے کے لئے جس موزونیت کا خیال رکھنا پڑتا ہے اس کے لئے ہفتے اور مہینے درکار ہوتے ہیں اور کسی ایک اختلافی مسئلہ پر جرح و تعدیل یا تنقید و محاکمہ سیکڑوں اوراق کے مطالعہ اور مہینوں کے مذاکرہ و مباحثہ کا نتیجہ ہوتا ہے۔‘‘ (۲۷)
انہوں نے بات تو بڑی پتے کی کہی لیکن افسوس کہ خود اس پر عمل نہیںکیا۔ کسی بھی اصطلاحی لفظ کو وضع کرنے میں نہ تو انہوںنے موزونیت کا خیال رکھا اور نہ ہی جرح و تعدیل اور مذاکرہ و مباحثہ کرنا مناسب سمجھا۔ انہوں نے تمام اصطلاحات تن تنہا خود ہی گڑھیں، استعمال کیں اور بعد کی نسلوں کے لئے ایک معمہ کی صورت چھوڑ گئے۔ جس کو اب نہ کوئی سمجھنے والا ہے نہ سمجھانے والا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے اصطلاحات سازی میں بڑی محنت سے کام لیا ہے لیکن اس میں انہوں نے جو ذہنی اختراعات کی ہیں وہ کہیں کہیں فنی و معنوی لحاظ سے بالکل بھی موزوں نہیں ہیں۔ اردو کے نام پرکہیں عربی سے ہندی تو کہیں انگریزی سے عربی میں لفظی ترجمہ کرکے مشہور و معروف اور عام فہم الفاظ واصطلاحات کو بھی مضحکہ خیز بنا دیا ہے۔میری یہ بات ہوسکتا ہے ان کے معتقدین و عمائدین طب کو ناگوار لگے اور ان کی طبع نازک پر گراں گذرے۔ان سے معذرت کے ساتھ یہ کہنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ شرح اسباب میں جدید مضامین کے ترجمہ میں مستعمل الفاظ و اصطلاحات دور حاضر کے لحاظ سے نہ صرف غیر معروف بلکہ انتہائی بھونڈی اور مضحکہ خیز ہیں۔مثال کے طور پر اس کتاب میں ہر جگہ انجکشن کے لئے ’’پچکاری‘‘کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے جبکہ جدید میڈیکل سائنس ہی نہیں بلکہ عرف عام میں بھی انجکشن کو انجکشن ہی بولا اور سمجھا جاتا ہے۔پچکاری محض ایک کھلونا ہے اور لفظ پچکاری سے کسی کا بھی ذہن انجکشن کی طرف نہیں جا سکتا اور نہ ہی کوئی انسان لفظ پچکاری سے مراد انجکشن لے سکتا ہے۔اتنی تنگ نظری تو اس دور کے ان مدارس میں بھی نہیں تھی جہاں انگریزی پڑھنا کفر سمجھا جاتا تھا۔
طبی اصطلات کو وضع کرنے میں حکیم کبیرالدین نے اپنی اختراعات کے جو جوہر دکھائے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ان ہی کا کارنامہ ہے لیکن اس کارنامے کے چکر میں انہوں نے عام فہم اور مروجہ اصطلاحات کو بھی مشکل اور پیچیدہ بنا دیا ہے۔خاص طور سے عام فہم انگریزی اصطلاحات کا اردو کے نام پر عربی میں جو ترجمہ کیا ہے وہ اساتذہ کے لئے نہ سہی لیکن طلبہ کے لئے انتہائی مشکل ہے۔
اسی طرح جدید ادویہ (ایلوپیتھک میڈیسن) جن کا یونانی میں کوئی تصور بھی نہیں ہے ان کو بھی اردو کے نام پرعربی الفاظ و اصطلاحات کا استعمال کر کے انتہائی مشکل بنا دیاہے۔ مثلاً ،مخدرہ(کوکین)، مخدرہ کا سیال،کبریت آگیں، (کونین سلفیٹ) ،حامض صفصافی (سیلی سلیک ایسڈ)، صفصافین (سیلی سیلین)، ضد حرین (اینٹی پائرین)، ضد الحمی (انیٹی فیبرین )، فلین جاوی ( فیناسی ٹین)، برکین کبریت آگیں (سلفیٹ آف کوئینین) ، نفسین (ایسپرین) وغیرہ وغیرہ۔(۲۸)ان اصطلاحات کو طلبہ تو دور کی بات ہے طب یونانی کے جغادری اور نام نہاد پروفیسر حضرات بھی نہیں سمجھ سکتے۔
اسی طرح معروف عربی اصطلاحات کو غیر معروف بلکہ بالکل ٹھیٹھ بھاشا میں بدل کر ان اصطلاحات کو انتہائی بھونڈا بنا دیا ہے۔ مثلاً جوع البقر (بیل کی بھوک) ص ۴۵۱، ضفدع (مینڈک) ص ۳۲۵ ،ذراقہ (پچکاری) ص ۳۰۲، جوبہ (ڈھول) ص ۳۹۵، صدفۃ الاذن (کان کی سیپ) ص۲۸۷، عصبہ سامعہ (کان کے پٹھے) ص ۲۹۰، صمامہ (کواڑی) ص۴۰۶، صمامہ کے معنی کواڑی ،ذوالراسین ص۴۰۶ ،اورطی کی کواڑیوں کے امراض ،ص۴۲۰، ورید شریانی کی کواڑیوں کے امراض،ص۴۲۱، مسمار باجہ کو کہتے ہیں ،ص۳۷۱ وٖغیرہ وغیرہ۔
صرف اتنا ہی نہیں انہوں نے جدید ادویہ (ایلوپیتھک میڈیسن) کی مقدار خوراک اور طریقہ استعمال کی بھی ایسی تیسی کر دی ہے۔ ایلوپیتھک دوائیں جن کی مقدار خوراک عالمی سطح پر ملی گرام یا ملی لیٹر میں متعین ہوتی ہے۔ ان کو بھی انہوں رتی ،ماشہ، قطرہ، بوند اور شعیرہ میں بدل کر رکھ دیا ہے جو نہ صرف غیر معیاری بلکہ بسا اوقات مریضوں کے جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہے۔چند مثالیں ملاحظہ ہوں
۱۔ جوہر کچلہ ؍اذراقین (اسٹریکنین)کا محلو ل دو تین قطرہ سے پانچ قطرہ تک دن میں دو تین بار بصورت احتقان تحت الجلد۔
۲۔قہوین (کیفین) بصورت احتقان عضلی (عضلی پچکاری کی صورت میں
۳۔کافور تین سے پانچ شعیرہ تک روغن زیتون میں حل کر کے بصورت احتقان عضلی
۴۔ جوہر کلاہ گردہ ؍کظر (ایڈرینالین) بصورت احتقان عضلی
۵۔نفسین (ایسپرین )نامی دوا کو قہوین(کیفین) کے ساتھ ملا کر دو تین رتی کی مقدار میں کھلاتے ہیں۔(۲۹)
یہ صرف چند مثالیں ہیں اور اس طرح کی مثالوں سے شرح اسباب بھری پڑی ہے۔ اول تو طب یونانی میں ابھی تک کوئی ایسی دوا ایجاد ہی نہیں ہو ئی جو انجکشن کی صورت میں کسی بھی طرح دی جا سکے۔ مذکورہ تمام انجکشن ایلوپیتھک ْمیڈیسن کے ہیں اور ان کا استعمال اسی طرح مناسب ہے جس طرح ایلوپیتھک میڈیسن میں استعمال ہوتا ہے بصورت دیگر ان کا استعمال مریض کی جان لینے کے مترادف ہے لیکن حکیم کبیرالدین صاحب نے تمام انجکشن کو تولہ و ماشہ اور پچکاری کی صورت میں دے کر میڈیکل سائنس کو مذاق بنا دیا ہے۔
ستم بالائے ستم یہ کہ آج تک تما م اطباء کرام،اساتذہ و مصنفین انہیں اصطلاحات کو معیاری مانتے ہوئے اسی روش پر قائم ہیں اور آج بھی تمام طبیہ کالجز کی نصابی کتا بوں میں شرح اسباب ہی سب سے زیادہ معتبر و مقبول ہے۔ارے بھائی ! انگریزی الفاظ و اصطلاحات کا استعمال کرنے سے نہ تو کفر صادق آتا ہے اور نہ ہی ان کی ہیئت و معنویت بگاڑ کر ثواب ملنے والا ہے۔علم طب کوئی قرآن یا حدیث تو ہے نہیں کہ ایمان خطرے میں پڑ جائے گا یا اسلام پر آنچ آ جائے گی۔اگر ترجمہ کرنا ضروری ہے تو کم از کم اس اصطلاح کی معنویت تو برقرار رہے اور اس کو پڑھتے یا سنتے وقت قاری و سامع کے ذہن میں اسی کی تصویر ابھر کر آئے۔ایسا نہ ہو کہ اس کی ہیئت و معنویت دونوں بدل جائے۔مثلاً لفظ مینڈک سن کر سامع کا ذہن فوری طور پر مینڈک کی طرف ہی جائے گا نہ کہ ضفدع نامی بیماری کی طرف۔ لفظ پچکاری سے ذہن میں ایک کھلونے کی تصویر ابھر کر آئے گی نہ کہ انجکشن یا سیرینج۔ اس لئے ضروری ہے کہ جو بھی ترجمہ کیا جائے وہ عام فہم اور رائج الوقت ہو اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو اصل اصطلاح کو ہی بعینہ استعمال کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہئے۔
ا یک اور پہلو جو شرح اسبا ب کے مطالعہ کے دوران بار بار کھٹکتا ہے وہ یہ ہے کہ اس میں جو اضافات ہیں خاص طور سے طب جدید سے جو استفادے کئے گئے ہیں ان کے حوالے موجود نہیں ہیں۔خواہ جدید تشریح ہو یا منافع الاعضاء ،علم البصر ہو یا جنرل سرجری ،کسی کا کہیں کوئی حوالہ موجود نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ یہ معلومات ،اضافات یا طریقے کسی یونانی طبیب یا مصنف کے ہیں یا طب جدید سے ماخوذ ہیں۔جبکہ اصول تحقیق و تصنیف کے مطابق اگر آپ کوئی خیال،کوئی اقتباس یا کوئی ٹیکنیک کہیں سے اخذ کرتے ہیں تو ایمانداری سے اس کا حوالہ دیا جانا چاہئے۔اس سے ایک تو مصنف و مترجم کی ایمانداری ظاہر ہوتی ہے دوسرے قاری کو اصل ذریعہ (Source) سے واقفیت کے ساتھ ہی یہ تصدیق بھی ہو جاتی ہے کہ مذکورہ خیال یا ٹیکنیک کتنی معتبر ہیں۔
طب یونانی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ Specilizationکے اس دور میںبھی لوگ صرف صاحب قلم وصاحب کتاب ہونے کی خواہش اور Promotionکے لئے الٹے سیدھے مضامین، تحقیقی مقالات اور بے سرو پا کتابیں لکھے جا رہے ہیں۔ مجربات مطب پر کتابیں وہ لوگ لکھتے ہیں جنہوں نے کبھی مطب کیا ہی نہیں ہوتا ہے۔ علم صیدلہ پر کتابیں وہ لکھتے ہیں جن کو ڈھنگ سے جوشاندہ ابالنا بھی نہیں آتا۔آج کل لوگ پڑھتے کم اور لکھتے زیادہ ہیں۔حکیم کبیرالدین صاحب نے بھی کلیات ،معالجات، ادویہ، صیدلہ، مفردات، مرکبات، علم القبات، تشریح اور جراحت وغیرہ جیسے طب یونانی کے تمام موضوعات پر تن تنہا کتابیں لکھ ڈالیں۔اس بسیار نویسی کے باعث ہی وہ زبان و بیان اور طبی معیار کو برقرار نہ رکھ سکے۔ مطب کا عملی تجربْہ نہ ہونے کے باعث دوائوں(بالخصوص ایلوپیتھک میڈیسن) کی مقدار خوراک(تولہ ،ماشہْ وغیرہ میں لکھ کر) اور ان کا غلط طریقہ استعمال لکھ کرطلبہ کو گمراہ کیا ہے۔ ماڈرن ٹیکنیک بالخصوص عمل جراحی (Surgical Procedures) کو جس طرح بیان کیا ہے ،وہ جان لیوا ثابت ہو سکتے ہیں۔ وہ تو خدا کا شکر ہے کہ انہوں نے زیادہ دن مطب نہیں کیاورنہ ہو سکتا ہے کہ تصنیف و تالیف کے بجائے جیل میں چکی پیستے نظر آتے۔
بہر کیف ………… بحیثیت مجموعی حکیم کبیرالدین کی طبی ،تالیفی و تصنیفی خدمات لائق تحسین ہیں۔ ترجمہ کی دنیا میں آج بھی وہ اپنے ما قبل و ما بعد کے لوگوں میں نمایاں اہمیت کے حامل ہیں۔ انہوں نے عربی و فارسی کتب کے ترجمے کر کے نہ صرف طب یونانی کی نصابی ضروریات کو پورا کیا بلکہ طب یونانی سے عوام الناس کو بھی روشناس کرایا اور یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ انہوںنے تن تنہا ایک ادارے کا کام کیا ہے۔ لیکن اب ضرورت اس بات کی ہے کہ تحقیق کے نئے اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے طب یونانی کو اسی نہج پرآگے بڑھایا جائے جس نہج پر کسی زمانے میں عربوں نے کام کیا تھااور ہندوستان میں جس کی داغ بیل حکیم اجمل خاں نے ڈالی تھی۔ ’’پدرم سلطان بود‘‘ کے حصار سے باہر نکل کر حقیقت کا سامنا کیا جائے۔ اندھی عقیدت اور کوری تقلید کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سائنسی بنیادوں پر کام کر کے اپنی متاع گم شدہ کو پھر سے حاصل کیا جائے۔جدید علوم و فنو ن سے استفادہ کرتے ہوئے قدیم وجدید کو خلط ملط کرنے کے بجائے دونوں کو ہم آہنگ کیا جائے۔اس سلسلسہ میں ہمارے تعلیمی ادارے ،عمائدین طب اور ارباب حل و عقد کو مل بیٹھ کر سوچنا ہوگا اور طب یونانی کو ترجمہ و تلخیص کے بجائے سائنسی بنیادوں پرآگے بڑھانا ہو گا۔ترجمہ پھر شرح پھر تلخیص پھر شرح کا بھونڈا اور بچکانہ کھیل بہت ہو چکا۔اب زمانے کے مزاج اور وقت کی ضرورت کے مطابق نئے چیلینجز کا سامنا کرنا نا گزیر ہے۔ دنیا چاند ستاروں پر کمندیں ڈال رہی ہے اور ہمارے اطباء کرام آج تک صرف یہ ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ ہماری طب (یونانی) سب سے قدیم ہے۔ ً قدامت پسندی میں کوئی برائی نہیں ہے لیکن قدامت پرستی انتہائی مہلک چیز ہے۔ ہمیں ان دونوں کے مابین فرق کو سمجھنا ہو گا۔
مصادر ومراجع
۱۔حکیم راجندر لال ورما۔بحوالہ حکیم کبیرالدین۔ حیات اور کارنامے۔سی سی آ ر یو ایم،نئی دہلی۔جنوری ۱۹۹۵ء؁۔ ص،۳۴
۲۔ ڈاکٹر محمد جمال الدین،بحوالہ حکیم کبیرالدین۔ حیات اور کارنامے، محولہ بالا ،ص ۹۳
۳۔کلیات ادویہ۔دیباچہ،حکیم محمد کبیرالدین۔مطبوعہ دفتر المسیح،قرول باغ نئی دہلی۔ب ت۔ ص، ۲
۳۔ایضاً ص،۴
۴۔ایضاً ،ص، ۴۔۵
۵۔حکیم راجندر لال ورما۔بحوالہ حکیم کبیرالدین۔حیات اور کارنامے۔ ص ۳۷۔۳۸
۶۔حکیم راجندر لال ورما۔ محولہ بالا۔ص،۳۸
۷۔ ایضاً
۸۔ایضاً۔ ص، ۳۹۔۴۰
۹۔اطباء اور ان کی مسیحائی۔ حکیم مختار اصلاحی۔ ناشر اصلاحی یونانی طبی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ،سی۔۷،دوارکا پوری،آگرہ روڈ ،کرلا،ممبئی۔۷۔۱۹۹۷ء؁۔ ص۲۲۰
۱۰۔کلیات ادویہ، دیباچہ،محولہ بالا۔ص،۹
۱۱۔ڈاکٹر محمد جمالالدین،بحولاہ حکیم کبیرالدین۔ حیات اور کارنامے،۔ ص، ۹۲
۱۲۔ہندوستان کے مشہور اطباء۔حکییم حاٖفظ حبیب الرحمن۔ترقی اردو بیورو ،نئی دہلی، ۲۰۰۰ء؁۔ ص،۲۱۷
۱۳۔قانون ابن سینا اور اس کے شارحین و مترجمین۔ حکیم سید ظل الرحمن ،لیٹھو کلر پرنٹرس ،علی گڑھ،طبع اول، ۱۹۸۴ء؁۔ ص،۲۴۷
۱۴۔تاریخ طب ابتداء تا عہد حاضر۔حسان نگرامی،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ،نئی دہلی۔۱۹۹۹ء؁۔ ص،۴۷۳
۱۵۔ہندوستان کے مشہور اطباء۔ ص،۲۱۷
۱۶۔اطباء اور ان کی مسیحائی۔ص ،۲۲۱
۱۷۔ہندوستان کے مشہور اطباء۔ ص، ۲۲۰
۱۸۔حکیم محمد کبیرالدین۔ حیات اور کارنامے۔ص،۸۴۔۸۶
۱۹۔ایضاً۔ ص، ۲۱۷
۲۰۔حکیم محمد کبیرالدین۔ حیات اور کارنامے۔ص،۸۹
۲۱۔ تفصیل کے ملاحظہ ہو حکیم وسیم احمد اعظمی کا مضمون ’’علامہ محمد کبیرالدین۔احوال و آثار ‘‘ مطبوعہ حکیم محمد کبیرالدین۔حیات اور کارنامے۔ ص، ۱۸۔۳۲
۲۲۔ہندوستان کے مشہور اطباء۔ص ۲۱۹
۲۳۔شرح اسباب ترجمہ حکیم محمد کبیرالدین۔ادارہ کتاب الشفاء ،نئی دہلی ۲۰۰۹ء؁۔ ص،۶
۲۴۔ایضاً۔ص ۲۹۸
۲۵۔ایضاً
۲۶۔ایضاً۔ ص،۲۷۱
۲۷۔کلیات ادویہ۔دیباچہ، ص۸
۲۸۔شرح اسباب، ص۴۵۴۔۵۵
۲۹۔ایضاً، ص۴۳۵