Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, October 31, 2019

جہاں نما کی سیر۔۔۔۔ ۔ ۔۔قسط سوٸم (3).



از/ مولانا فضیل احمد ناصری /صداٸے وقت۔
==============================

*بیت العلوم میں ہماری عزت افزائی*
............................................
ہماری گاڑی دفترِ اہتمام والے احاطے میں رکی۔ یہ احاطہ پھول پھلواریوں اور خوش نما درختوں سے آباد ہے۔ ہم گاڑی سے اترے تو خیرمقدم پر مامور طلبہ ہماری طرف دوڑے۔ ہمیں مہمان خانہ لے جایا جا رہا تھا کہ سامنے ایک نوجوان اور وجیہ چہرہ نظر آیا۔ کشیدہ قامت۔ دوہرا بدن۔ قابلِ رشک صحت۔ اس نے بڑھ کر مصافحہ بھی کیا اور معانقہ بھی۔ یہ مولانا مفتی اجود اللہ پھول پوری تھے۔ مفتی عبداللہ پھول پوریؒ کے دوسرے نمبر کے فرزند اور شاہ عبدالغنی پھول پوریؒ کے حفدِ حفید۔ بیت العلوم کے نائب ناظمِ تعلیمات اور نائب ناظم بھی یہی ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ہمارا تعارف تو بہت تھا، مگر دید وا دید کا پہلا موقع یہیں میسر آیا۔ شکل و صورت دیکھ کر مجھے اتنا تو یقین تھا کہ مفتی صاحبؒ کے صاحب زادگان میں سے کوئی ہیں، لیکن باتشخص تعارف نہ ہونے سبب سے متعین نہ کر سکا۔ ہم مہمان خانے کی طرف بڑھے اور وہ اپنی مصروفیات میں لگ گئے۔
بیت العلوم کا ایک منظر

مہمان خانے پہونچے تو دو طلبہ رضا کار ہمارے لیے کھڑے تھے۔ خاطر داری اور سہولیات بہم پہونچانے میں کوشاں۔ پہونچتے ہی کھانے کا دور چلا۔ استقبالیہ کمیٹی کے سربراہ مولانا مفتی شاکر نثار صاحب تھے۔ یہ شیخ عبدالحق اعظمیؒ کے سب سے چھوٹے داماد ہیں۔ فاضلِ دارالعلوم بھی ہیں اور فاضلِ مدینہ یونیورسٹی بھی۔ شیخ ثانیؒ سے خاندانی مراسم کی بنا پر ہمارا باہمی تعلق بہت خوش گوار ہے۔ یہ چند برسوں سے اسی بیت العلوم کے مدرس ہیں۔ فقہ و ادب اور تدریس میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔ لمبے تڑنگے۔ گھنی داڑھی۔ با رونق چہرہ۔ ان سے میری ملاقات دیوبند میں ہو چکی تھی۔ فوراً پہچان گیا۔ گرم جوشانہ علیک سلیک ہوئی۔ پھر وہ ہماری ضیافت میں لگ گئے۔ مولانا ابن الحسن قاسمی صاحب بھی بیت العلوم کے استاذ ہیں۔ نوجوان ہیں۔ قلم سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔ زبان پر بڑی قدرت ہے۔ لکھتے ہیں اور محقق لکھتے ہیں۔ مجھ سے نادیدہ بات چیت عرصے سے تھی۔ انہیں میری آمد کا علم ہوا تو بار بار یاد کرنے لگے۔ ان کی محبت اور کشش سے میں بہت متاثر ہوا۔ وہ آئے ۔ ملاقات ہوئی۔ ہم کلامی ہوئی۔ ان کے شوقِ علم جوئی کا مجھے پہلے سے علم تھا۔ ملے تو مزاج کے سادہ اور درویش نظر آئے۔  

*دوستوں سے ملاقات*
...........................
مغرب کا وقت ہو چکا تھا۔ نماز کے بعد میں ان کے ساتھ تفریح کے لیے نکل گیا۔ مدرسے کی عمارات کا معائنہ کیا۔ مولانا ابن الحسن صاحب نے سب کا تعارف کرایا۔ جب ہم مہمان خانے کی طرف واپس ہو رہے تھے تو میں نے مولانا محبوب عالم صاحب سے ملاقات کی خواہش رکھی۔ یہ بھی اسی ادارے کے استاذِ حدیث ہیں۔ ابن الحسن صاحب نے بتایا کہ وہ دیکھیے مولانا ادھر جا رہے ہیں۔ انہیں آواز دی گئی۔ وہ آئے۔ ان سے مصافحہ معانقہ ہوا۔ لہک کر اور چہک کر ملے۔ کہنے لگے: آپ ہی سے ملنے مہمان خانے جا رہا تھا۔ پھر اپنے حجرے میں لے گئے۔ مٹھائی سے ضیافت کی۔ نقوشی اور صوتی ملاقاتیں تو ان سے بارہا ہو چکی تھیں، مگر بالمشافہ ملاقات کا یہ پہلا موقع تھا۔ امبیڈکر نگر ان کا وطن ہے۔ گورینی اور دیوبند سے فضیلت کر چکے ہیں۔ میانہ قد۔ کشادہ پیشانی۔ بھاری بھرکم تن و توش۔ بسطۃً فی العلم والجسم۔ نفیس و نستعلیق۔ محبوبانہ ادائیں۔ شگفتہ دماغ اور خندہ مزاج۔ بولیں تو لبوں سے بس پھول ہی جھڑیں۔ ایسے گھل مل گئے گویا یہ آشنائی بہت قدیم ہو۔ ان کے حجرے میں دروازے سے ذرا  اوپر یہ شعر لکھا دیکھا تو ان کی آخرت بینی کا بھی قائل ہونا پڑا: 

موت کو سمجھا ہے غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی، صبحِ دوامِ زندگی

ہم بیٹھے ہی تھے کہ اچانک ایک طالب علم نے خبر دی کہ مولانا ابو طالب رحمانی صاحب آپ کی قیام گاہ پر تشریف فرما ہیں اور یاد کر رہے ہیں۔
مولانا ابوطالب رحمانی

مولانا رحمانی کو کون نہیں جانتا۔ وہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری ہیں۔ امارتِ شرعیہ بہار کے اساسی ذمے دار ہیں۔ زبان بڑی ستھری اور خطابت بڑی جان دار ہے۔ ملک بھر میں ان کے دورے ہوتے ہیں۔ مقبول مقبول مقرر اور بالغ نظر شخصیت ہیں۔ سیاسی امور پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ وطنِ اصلی بیگو سرائے ہے، اب کلکتے میں رہتے ہیں۔ بطور مقرر یہاں تشریف لائے تھے۔ مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں۔ ان سے پہلی ملاقات دیوبند میں ہو چکی تھی۔ 

مولانا ابن الحسن صاحب اور میں جلد ہی وہاں سے نکلے اور مہمان خانے کو چل دیے۔ وہاں پہونچے تو ایک جمگھٹا تھا۔ ایک صاحب نے بڑھ کر مجھ سے مصافحہ اور معانقہ کیا۔ مولانا شاکر صاحب نے پوچھا کہ آپ انہیں پہچانتے ہیں؟ واٹس ایپ پر ان کا فوٹو متعدد بار دیکھ چکا تھا۔ میں نے چھوٹتے ہی کہا: انہیں کون نہیں جانتا! یہ تو بین الاقوامی ماموں ہیں۔ مجمع پر ایک تبسم بکھر گیا۔ بین الاقوامی ماموں یعنی مولانا اکرم خان صاحب ۔ اصلی پٹھان۔ گورے چٹے۔ موٹے تازے۔ قد و قامت مجھ سے بھی کئی انچ اونچا۔ عوج بن عنق کی یاد دلاتا ہوا۔ نقوشی اور صوتی ملاقاتیں تو تین چار برس قدیم ہیں، مگر آمنے سامنے کی زیارت کا یہ پہلا موقع تھا۔ جون پور سے وطنی تعلق رکھتے ہیں۔ حکمت سے کماتے ہیں۔ کتب فروشی بھی کرتے ہیں۔ شاہ گنج کی ایک بڑی مسجد کے امام و خطیب بھی ہیں۔ اپنے علاقے کے قاضیِ نکاح بھی ہیں۔ آواز بڑی جاذب ہے۔ نغموں کا شوق رکھتے ہیں۔ میری کئی نظموں کو انہوں نے اپنی طاقت ور آواز دی ہے۔ 
پاسبانِ علم و ادب میں میں خان صاحب بھی ہیں۔ ہیں کیا، بلکہ اس کے رکنِ رکین۔ ان کے قیام سے پاسبان میں ایک ہلچل سی رہتی ہے۔ اسی گروپ میں ان کے ایک بھانجے عزیزم مولانا اظفر اعظمی سلمہ بھی رہتے ہیں۔ انہوں نے گروپ میں دو تین بار ماموں کیا کہا، بس وہ سب کے ماموں ہو گئے۔ اب وہ اپنے نام سے کم اور ماموں کے نام سے زیادہ شہرت رکھتے ہیں۔ 

مجمع باہمی بات چیت میں مصروف ہی تھا کہ دروازے سے ایک مولانا نمودار ہوئے۔ چھریرا بدن۔ گندمی رنگ۔ متوسط قد۔ میری طرف سلام کرتے ہوئے بڑھے اور بولے: انور داؤدی۔ انہیں دیکھ کر طبیعت خوش ہو گئی۔ سرائے میر ہی کے آس پاس داؤد پور نامی ایک گاؤں ہے، اسی کی نسبت سے *داؤدی* کہلاتے ہیں۔ میں داؤد پور سے گزر رہا تھا کہ عزیزم صادق اعظمی سلمہ نے بتایا: مولانا انور داؤدی کا گاؤں یہی ہے۔ میں نے اسی وقت فون ملا کر صورتِ حال بتائی۔ وہ منبسط ہو گئے۔ اہلاً و سہلاً و مرحباً کہا اور ملاقات کا وعدہ کر کے فون رکھ دیا۔ یہ ملاقات اسی وعدے کا ایفا تھی۔

 داؤدی  صاحب بڑے لکھار آدمی ہیں۔ ہر موضوع پر قلم چلاتے ہیں۔ سبک اور رواں لکھتے ہیں۔ یک ماہی رسالہ *نئی روشنی* کے مدیر بھی ہیں۔ اللہ ان سے بہت کام لے رہا ہے۔ خدا کرے کہ یہ سلسلہ لا الیٰ نہایہ دراز ہو۔ 

[اگلی قسط میں پڑھیں: اجلاس میں شرکت اور اس پر تبصرہ]