Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, October 13, 2019

کیا ہم ایسا نہیں کر سکتے ؟؟؟

از/محمد صادق الاعظمی
مسجدیا نظام آباد اعظم گڑھ
فارغ التحصیل دارالعلوم دیوبند/صداٸے وقت۔
===========(======(==========
اہل جاپان کی دنیاوی ترقی کا قائل تو ہر کوئی ہے، ہم تو بچپن میں ہی جاپان کی اشیاء کی اہمیت سے واقف ہو گئے تھے، لیکن جاپانی طلباء و علماء "اسلامیات "میں بھی اپنا الگ مقام رکھتے ہیں اور روز بروز اس میں ترقی کے منازل طے کرتے جا رہے ہیں، ہم اس سے آگاہ ہونا اس وقت شروع ہوئے جب ہم نے مستشرقین کے بارے میں پڑھنا شروع کیا، اور پھر "مجتبٰی حسین" وغیرہ کے سفر ناموں سے بھی بہت کچھ معلومات فراہم ہوئیں۔۔۔۔معلومات کا یہ سفر جاری ہی تھا کہ "ڈاکٹر معین الدین عقیل"کی کتاب " مشرق تاباں " خوش قسمتی سے مل گئی، جو اہل جاپان کی اردو اور اسلامیات کے تعلق سے جو خدمات ہیں ان پر مشتمل ہے، اس کتاب کا آغاز ہی کیا تھا کہ جاپانیوں کے اسلامیات پر کام کرنے کے طریقے نے مجھے سوچنے اور غور کرنے پر مجبور کر دیا، چناچہ ڈاکٹر صاحب اردو اور اسلامیات کے ماہرین  کا نسل در نسل تعارف کراتے ہوئے جب چوتھی نسل پر پہنچتے ہیں ۔۔۔۔تو ان کے کام کرنے کے طریقے کو بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں ۔۔۔۔۔۔ 
" سب سے مختلف اور نہایت قابل تحسین کام جو یہاں گذشتہ دو دہائیوں کے عرصے میں دیکھنے میں آیا ہے وہ ایک مشترکہ تحقیقاتی منصوبہ بندی ہے، جس کو تشکیل دے کر یہاں  خاص منصوبوں کے تحت مشترکہ منصوبے ترتیب دینے کا ایک سلسلہ شروع ہوا ہے ،جس کے تحت کوئی ایک موضوع، کوئی ایک علاقہ، کوئی ایک نہج، یہاں طے کی جانے لگی ہے اور یہاں کے ایسے تمام ادارے اور جامعات اور ان سے منسلک اساتذہ اور ان کے طلبہ سب مل کر باہمی طور پر اتفاق رائے سے ایک پنج سالہ منصوبہ تشکیل دیتے ہیں ہیں اور اس منصوبے کو جو کسی ایک موضوع پر مشتمل ہوتا ہے جزوی طور پر تقسیم کرکے ہر ایک اپنے مزاج اور دائرہ عمل کے تحت اپنے لئے اس کا کوئی جز یا پہلو منتخب کرکے کام شروع کر دیتا ہے اور پھر ہر سال یہ سب ایک جگہ ملتے ہیں اور سال بھر کی اپنی اپنی کارروائی کارگزاری اور روداد پیش کرتے ہیں ،مسائل و امکان  پر بحث ہوتی ہے اور پھر سب مل کر اس پر رائے زنی کرتے ہیں اور پچھلے کام پر نظرثانی کی جاتی ہے، اور اس کے بعد وہ اگلے سال یا اگلے مرحلے کے لیے مستعد ہو جاتے ہیں اس طرح اب تک دو پنج سالہ منصوبے مکمل ہوچکے ہیں اور دو ایسے موضوعات پر اعلی درجے کی تحقیقات سامنے آئی ہیں کہ ان موضوعات پر ایسے ہمہ جہت ،مبسوط اور مفید کاموں کی مثال شاید اور نہ مل سکے ،
ان منصوبوں میں پہلامنصوبہ ا 1988ءمیں شروع کیا گیا تھا جو 1993ء میں مکمل ہوا ،اس کا بنیادی موضوع'بلاد اسلامیہ' کہا جا سکتا ہے،130 اسکالروں نے اس میں شامل ہوکر اسلامی ممالک کے تاریخی شہروں کا تعمیراتی ،تاریخی، تہذیبی، عمرانی، علمی و ثقافتی مطالعہ کیا اور ہر اسکالر نے کسی ایک شہر پر اپنے ان مذکورہ موضوعات کے تحت ایک تحقیقی مقالہ تحریر کیا جو ہر لحاظ سے اس شہر کے بارے میں ایک قاموسی مقالے کی حیثیت رکھتا ہے،مثلا بغداد، دمشق تہران ،مشہد،اصفہان، دہلی ،لکھنؤ،قاہرہ ،استنبول ،مکہ معظمہ،مدینہ منورہ ،گویاتمام اہم شہر اور ان کی تاریخ تعمیر اور عمرانیات کا مطالعہ اس منصوبے کے تحت مکمل ہوگیا ہے اور یوں دومختلف اور ضخیم جلدوں میں یہ مقالہ شائع کر دیئے گئے ہیں، مگر یہ سب جاپانی زبان میں ہیں،
         اس طرح جو دوسرا پانچ سالہ منصوبہ جاپانی اسکالروں نے مکمل کیا ،وہ 1997ء سے 2002 تک ان کے پیش نظر رہا،اس منصوبے کے تحت دنیا اسلام کا مطالعہ علاقائی حوالے سے کیا گیا اور اس مطالعے کے ذیل میں مختلف اسلامی ممالک کی تاریخ، معاشرت، سیاست اور شہروں اور خطوں میں رونما ہونے والی اسلامی تحریکات بھی ان میں شامل ہیں ،چنانچہ ان مطالعات کو تصوف، شریعت، اسلامی ادارے،اوقاف ،فتاویٰ، فرامین، خواتین ،تعلیمات ،معیشت وسیاست جیسے موضوعات کے تحت آٹھ موضوعاتی جلدوں میں تقسیم کیا گیا اور پھر انھیں شائع کر دیا گیا ،یہ آٹھ جلدیں  یہاں کے نامور محققین کی عالمانہ محققانہ مقالات پر مشتمل ہیں اور یہ آٹھ جلدیں دراصل اپنے اپنے موضوعات کے تحت ایک مستند اور معیاری مآخذ کی حیثیت بھی  رکھتی ہیں،
(مشرق تاباں۔۔۔ڈاکٹر معین الدین عقیل   ص 12/13)  
       جب اغیار اس قدر محنت  تحقیق وجستجو اور دلچسپی کے ساتھ اسلامیات کے تئیں اپنے آپ کو صرف کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟  ہم اس سے کہیں زیادہ حقدار ہیں کہ اس کے لئے کوشاں ہوں، ہم وسائل کی کمی کا رونا روتے ہیں، حالانکہ اگر دیکھا جائے تو یہ سوائے پلہ جھاڑنے کے کچھ نہیں، اور استعداد و صلاحیت کی کمی کا احساس ہوتا ہے،  بھائی کوئی ماں کے پیٹ سے سیکھ کر نہیں آتا، اہل جاپان پانچ سال کا منصوبہ بناتے تھے ہم 5مہینے کا بنالیتے ہیں، وہ سینکڑوں صفحات پر مشتمل اپنی تحقیقات پیش کرتے ہیں ہم اس کا آدھا ۔۔۔چوتھائی کریں گے، ابتداء میں کچھ غلطیاں ہوں گی، کچھ منصفانہ اور کچھ جارحانہ تنقیدیں ہوں گی، بس ۔۔۔۔۔۔۔پر اگر استقلال رہا تو ہمیں خود مسرت ہو گی کی ہم نے بھی کچھ کر لیا ۔۔۔۔اور موضوعات کی کمی تو ہے نہیں ۔۔۔۔کچھ بھی اور کہیں سے بھی شروعات کی جا سکتی  ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔