Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, November 7, 2019

سیرت سید الانبیإﷺ.....ایک پیغام ۔۔۔ایک سبق۔۔۔۔۔ایک تاریخ۔


از/*عبد المنان قاسمی*/صداٸے وقت/عاصم طاہر اعظمی۔
==============================
سیرت سید الانبیاء ﷺ رہتی دنیا تک کے لیے ایک پیغام، ایک سبق، ایک تاریخ، ایک اسوہ، ایک نمونہ، ایک رہ نما اصول اور ایک لاثانی ولافانی دستورِ حیات ہے۔ہر دور میں مصنفین، مؤلفین، مرتبین، علماء، فضلاء، صلحاء، اتقیاء، اصفیاء، فقہاء اور محدثین ومفسرین نے سیرت النبی ﷺ کو مختلف نوعیتوں اور متعدد جہات سے پیش کرنے کی وسعت بھر کوششیں کیں اور لاکھوں کی تعداد میں سیرت پر کتابیں وجود میں آتی رہیں، اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے اور قیامت تک جاری وساری رہے گا۔ ان شاء اللہ تعالی! یوں تو ہر انسان آپ ﷺ کی سیرت وشخصیت سے اپنے دین ودنیا کو سنوار وسدھار سکتا ہے؛ لیکن خاص طور پر ایک مسلمان کے لیے اس سے سبق حاصل کرنا اور اس پر اپنی سیرت وشخصیت کو ڈھالنا ازحد ضروری وناگزیر ہے؛ کیوںکہ دنیوی واخروی کامیابی وکامرانی ایک مؤمن کا ہدفِ اساسی اور مقصدِ حیات ہے، جو حضرت سید الانبیاء وخاتم المرسلین ﷺ کی سیرت وکردار، رفتار وگفتار اور اطوار واقدار کو اپنائے بغیر ناممکن ہے۔ سیر ت النبی ﷺ کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اہل اسلام واہل ایمان، اتباع رسول ﷺ کو فرض سمجھیں اور اپنے آپ کو، اپنے معاشرے اور سماج کو سیرت النبیﷺ کے سانچے میں ڈھالنے کی انتھک کوشش اور سعیٔ پیہم کریں؛ کیوںکہ اگر آج ہم اپنے معاشرے کے ارد گرد نظر دوڑائیں، تو معاشرہ سنت نبوی ﷺکے اسلامی احکامات کو چھوڑ کر شرک و بدعات جیسے خرافات کی دلدل میں لپٹا ہوا نظر آئے گا۔ مسلمان سیرت النبی ﷺ کے مطابق اپنی زندگیوں کو بسر کرنے کے بجائے نہ سلجھنے والے مسائل اور لاینحل مصائب ومشکلات کی دلدلوں میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ آئیے! سیرت النبیﷺ کی روشنی میں حیاتِ انسانی کی دائمی کامیابی کا درس اور سرمدی فلاح ونجاح کا پروانہ تلاش کیا جائے، جس کے سیرت کے چند اہم ترین گوشوں کا مطالعہ ازحد لازم اور ضروری ہے، جو درج ذیل ہیں۔


*ولادت باسعادت، حلیہ مبارکہ اور عناصر ترکیبی:*
۹/یا ۱۲/ ربیع الاوّل (عام الفیل) کو آپ نے شکمِ مادر سے اِس جہانِ رنگ وبو میں تولد فرمایا۔ امام ترمذی علیہ الرحمہ نے ’’شمائل ترمذی‘‘ میں آپ ﷺ کے حلیہ مبارکہ اور عناصر ترکیبی کو اس طرح بیان کیا ہے: ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم میانہ قد، سرخی مائل، سفید گورا رنگ، سرِ اقدس پر سیاہ ہلکے گھنگھریالے ریشم کی طرح ملائم، انتہائی خوب صورت بال، جو کبھی شانہ مبارک تک دراز ہوتے، تو کبھی گردن تک اور کبھی کانوں کی لوتک رہتے تھے۔ رخِ انور اتنا حسین کہ ماہِ کامل کے مانند چمکتا تھا، سینہٴ مبارک چوڑا، چکلا، کشادہ، جسم اطہر نہ دبلا، نہ موٹا؛ انتہائی سڈول، چکنا، کہیں داغ دھبہ نہیں، دونوں شانوں کے بیچ پشت پر ’’مہرِ نبوت‘‘ کبوتر کے انڈے کے برابر سرخی مائل ابھری ہوئی، کہ دیکھنے میں بے حد بھلی لگتی تھی، پیشانی کشادہ، بلند اور چمک دار، ابروئے مبارک کمان دار غیر پیوستہ، دہن شریف کشادہ، ہونٹ یاقوتی، مسکراتے تو دندانِ مبارک موتی کے مانند چمکتے، دانتوں کے درمیان ہلکی ہلکی درازیں تھیں، بولتے تو نور نکلتا تھا، سینہ مبارکہ پر بالوں کی ہلکی لکیر ناف تک تھی، باقی پیکر بالوں سے پاک تھا۔ شیدائیانِ مصطفی وجاںنثارانِ مجتبیٰ، یارانِ باصفا، شہیدانِ صدق ووفا ’’صحابۂ کرام‘‘ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اتفاق ہے کہ آپ ﷺ جیسا خوب صورت نہیں دیکھا گیا۔ نہ آپ ﷺ سے پہلے آسمان وزمین نے کبھی ایسا حسن وجمال والا دیکھا اور نہ آپ ﷺ کے بعد کبھی میسر ہوگا۔ شاعرِ رسول اللہ ﷺ، حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے نعتیہ قصیدے میں اس طرح نقشہ کھینچتے ہیں:
*وَأَحْسَنَ مِنْکَ لَمْ تَرَ قَطُّ عَیْنِي*
*وَأَجْمَلَ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَاءُ*
*خُلِقْتَ مُبَرَّأً مِنْ کُلِّ عَیْبٍ*
*کَأَنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَاءُ*
ترجمہ: *آپ ﷺ سے حسین مرد میری آنکھوں نے کبھی نہیں دیکھااور آپ ﷺ سے زیادہ خوب صورت مرد کسی عورت نے نہیں جنا۔ آپ ﷺ ہر قسم کے ظاہری وباطنی عیب سے پاک پیدا ہوئے، گویا آپ ﷺ اپنی حسب مرضی پیداہوئے ہیں*۔

نہ کبھی آپ ﷺ چیخ کر بات کرتے تھے، نہ قہقہہ لگاتے تھے، نہ شور کرتے تھے، نہ چلاکر بولتے تھے، ہر لفظ واضح بولتے، اندازِ کلام باوقار، الفاظ میں حلاوت کہ بس سنتے رہنے کو دل مشتاق، لبوں پر ہمہ دم ہلکا سا تبسم، جس سے لب مبارک اور رخِ انور کا حسن بڑھ جاتا تھا، راہ چلتے تو رفتار ایسی ہوتی تھی، گویا کسی بلند جگہ سے اتررہے ہوں، نہ دائیں بائیں مڑمڑکر دیکھتے تھے، نہ گردن کو آسمان کی طرف اٹھاکر چلتے تھے، تواضع کی باوقار مردانہ خوددارانہ رفتار ہوتی، قدمِ مبارک کو پوری طرح رکھ کر چلتے تھے کہ نعلین شریفین کی آواز نہیں آتی تھی، ہاتھ اور قدم ریشم کی طرح ملائم وگداز تھے اور قدم پُرگوشت، ذاتی معاملہ میں کبھی غصہ نہیں ہوتے تھے، اپنا کام خود کرنے میں تکلف نہ فرماتے تھے، کوئی مصافحہ کرتا تو اس کاہاتھ نہیں چھوڑتے تھے، جب تک وہ الگ نہ کرلے، جس سے گفتگو فرماتے پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہوتے، کوئی آپ سے بات کرتا تو پوری توجہ سے سماعت فرماتے تھے، پھر بھی ایسا رعب تھا کہ صحابہ کو گفتگو کی ہمت نہ ہوتی تھی، ہر فرد یہی تصور کرتا تھا کہ مجھ کو ہی سب سے زیادہ چاہتے ہیں۔

*آپ ﷺ کے اخلاقِ کریمانہ اور اطوارِ زاہدانہ کی ایک جھلک:*
نبی کائنات ﷺ صداقت وسچائی، امانت ودیانت، سخاوت وکریمیت، عفو ودرگزر، عدل وانصاف، ایفائے عہد، شجاعت وبہادری، جواں مردی وپامردی، اخوت وبھائی چارگی، رواداری، خدمتِ خلق، عاجزی وانکساری، طہارت وپاکیزگی، نفاست ونظافت، تحمل وبردباری، شرم و حیاء، وسطیت ومیانہ روی، مساوات وبرابری، صبرواستقامت اور عزم مصمم وجواں حوصلگی جیسی صفاتِ کمالیہ کا جامع اور حسن وجمال، قرب ونوال، تعلق واتصال، خوب صورتی وخوب روئی، جاذبیت ودل کشی، رعنائی وزیبائی جیسے اوصافِ جمالیہ کے مظہرِ اتم تھے۔ نیز کردار کے دھنی، اطوار کے غنی، اقدار کے پاس دار، رفتار وگفتار کے بے تاج بادشاہ، انسانیت کے تمام مراتبِ علیا پر براجمان اور خدا کے بعد سب سے بزرگ وبرتر اور ممتاز تھے۔ آپ ﷺ اخلاق کے تمام اعلی مراتب پر فائز اور خلقِ عظیم پر جلوہ گر ہیں(إِنَّکَ لَعَلَی خُلُقٍ عَظِیْمٍ) اسی لیے آپ ﷺ کی اطاعت واتباع کو اللہ تعالی نے اپنی محبت سے تعبیر فرمایا (قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِي یُحْبِبْکُمُ اللہُ، آپ (ﷺ) فرما دیجیے! کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو، تو میری اتباع کرو، اللہ بھی تم سے محبت کرے گا)(سورۂ آل عمران:۳۱)

*دعوت و تبلیغ کا آغاز:*
حضرت خاتم الانبیاء ﷺ نے تاجِ رسالت اور خلعت نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد، ایک ایسے سماج ومعاشرہ کو ایمان و توحید اور اتحاد ویکجہتی کی دعوت دی، جو شرک و کفر اور ضلالت وجہالت کی دلدل میں گرفتار تھا، انسانیت شرافت ونجابت سے کوسوں دور اور غلاظت ورذالت کی وادیوں میں غرق تھی، درندگی اور حیوانیت کا راج تھا، ہر طاقتور، فرعون بنا ہوا تھا۔ قتل وغارت گری کی وبا ہر سُو عام تھی، نہ عزت وعصمت محفوظ، نہ عورتوں کا کوئی مقام، نہ غریبوں کے لیے کوئی پناہ، شراب پانی کی طرح پی جاتی تھی، بے حیائی اپنے عروج پر تھی، روئے زمین پر وحدانیت حق کا کوئی تصور نہ تھا؛ بدکاری وفحش انگیزی اپنے عروج پر تھی اور ظلم وجور، جبر وتشدد اور ناانصافی اپنے شباب پر تھی، ایک اللہ کی پرستش کے بجائے، معبودانِ باطلہ کے سامنے پیشانیاں جھکتی تھیں، نفرت وعداوت اور تعصب وعناد کی زہریلی فضا، انسان کو انسان سے دور کرچکی تھی، انسانیت آخری سانس لے رہی تھی، اس دور کا انسان قرآن کریم کے مطابق جہنم کے کنارے کھڑا تھا، کہ رحمتِ حق کو رحم آیا اور کوہِ صفا سے صدیوں بعد انسانیت کی بقا وارتقاء کا اعلان ہوا کہ ”یَآ أَیُّہَا النَّاسُ قُوْلُوْا: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ تُفْلِحُوْا“ اے لوگو! لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کرلو، کامیابی وکامرانی سے ہمکنار ہوجاؤگے۔
*وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی*
*عرب کی زمیں جس نے ساری ہلادی*
یہی اُس عظیم الشان انقلاب کی ابتداء تھی، جس نے دنیائے انسانیت کی تاریخ بدل دی۔ یہ محض ایک اعلان ہی نہیں؛ بل کہ توحیدکی حیاتِ نو کا پیغام تھا، جس نے مردہ دل عربوں میں زندگی کی نئی روح پھونک دی اور پھر دنیا نے وہ منظر دیکھا، جس کا تصور بھی نہ تھا۔
*جو نہ تھے خود راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے*
*کیا نظر تھی جس نے مُردوں کو مسیحا کردیا*

*صبر واستقلال اور استقامت وپامردی:*
رسول اللہﷺ  کا یہ اعلان کرنا تھا کہ پورا سماج آپ کے خلاف عَلمِ بغاوت لے کر میدان میں آیا اور طرح طرح کی الزام تراشیاں اور ہتھکنڈے اپنانا شروع کردیا۔ ایسے موقع پر آپ ﷺ صبر واستقلال اور استقامت وپامردی کے کوہِ گراں تھے۔ دشمنانِ اسلام نے قدم قدم پر آپ کو ستایا، جھٹلایا، بہتان لگایا، مجنون ودیوانہ کہا، ساحرو کاہن کا لقب دیا، راستوں میں کانٹے بچھائے، جسم اطہر پر غلاظت ڈالی، لالچ دیا، دھمکیاں دیں، اقتصادی ناکہ بندی اور سماجی مقاطعہ کیا، آپ کے شیدائیوں پر ظلم وستم اور جبر واستبداد کے پہاڑ توڑے، نئے نئے لرزہ خیز عذاب کا جہنم کھول دیا کہ کسی طرح حق کا قافلہ رک جائے، حق کی آواز دب جائے؛ مگر دورِ انقلاب شروع ہوگیا تھا، توحید کا نعرہ بلند ہوچکا تھا، اس کو غالب آنا تھا۔ ’’یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِؤُوْا نُوْرَ اللہِ بِأَفْوَاہِہِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہِ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُوْنَ(سورۂ صف:۸)’’کفار چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور (ایمان واسلام) کو اپنی پھونکوں سے بجھادیں اور اللہ پورا کرنے والا ہے اپنے نور کو اگرچہ کفار اس کو ناپسند کریں‘‘۔ خودرسول اللہ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’ابتلا وآزمائش میں جتنا مجھ کو ڈالاگیا، کسی اور کو نہیں ڈالاگیا‘‘۔

*ہجرتِ مبارکہ:*
جب مکہ معظمہ کی سرزمین آپﷺ اور آپ کے جاںنثار صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر بالکل تنگ کردی گئی؛ تب بحکم الٰہی آپ ﷺ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی اور صحابۂ کرامؓ نے اللہ کے لیے اپنے گھر بار، آل و اولاد، زمین وجائداد؛ سب کو چھوڑ کر حبشہ ومدینہ کا رخ کیا۔ پہلی ہجرت، صحابہؓ کے ایک گروہ نے حبشہ کی طرف کی تھی، پھر جب آپ ﷺ مدینہ منورہ تشریف لے گئے، تو مدینہ منورہ اسلام کا مرکز بن گیا۔

*غزوات و سرایا:*
آپ ﷺ کے مدینہ منورہ ہجرت فرماجانے کے بعد ایک طرف آپ ﷺ کو دعوت وتبلیغ اسلام کی تحریک میں کشادہ میدان اور مخلص ومعاون افراد ملے، جس کے باعث قبائل عرب میں تیزی سے اسلام پھیلنے لگا؛ تو دوسری جانب مشرکین مکہ کی عداوت ودشمنی اور یہودمدینہ کے تعصب ونفرت سے مقابلہ بھی تھا۔ مکہ مکرمہ میں مسلمان کمزور، نہتے اور بے قوت و طاقت تھے؛ اس لیے ان کو صبر و استقامت کی تاکید وتلقین تھی؛ لیکن مدینہ منورہ میں مسلمانوں کو وسعت و قوت حاصل ہوئی اور اجتماعیت و مرکزیت نصیب ہوئی، تواللہ تعالیٰ نے دشمنوں سے لڑنے اور ان کو منھ توڑ جواب دینے کی اجازت عطا فرمائی اور غزوات وسرایا کا سلسلہ شروع ہوا، اور اسلام کا پرچم چہار دانگ عالم میں پھیلتا ہی چلاگیا۔

*چند مشہور غزوات:*
(۱)غزوۂ بدر ۲ہجری میں پیش آیا، جس میں مسلمانوں کی تعداد ۳۱۳؍ اور مشرکین مکہ کی ایک ہزار تھی۔
(۲)غزوہٴ اُحد: ۳ھ، شوال میں یہ غزوہ ہوا، مسلمان سات سو اور کفار تین ہزار تھے۔
(۳)غزوۂ ذات الرقاع ۴ھ میں پیش آیا، اسی میں آپ نے صلاۃ الخوف ادا فرمائی۔
(۴)غزوہٴ احزاب (خندق) ۵ھ میں ہوا، مشرکین مکہ نے قبائل عرب کا متحد محاذ بناکر حملہ کیا تھا۔ آنحضور ﷺ نے حضرت سلمان فارسیؓکے مشورہ سے مدینہ منورہ کے اردگرد چھ کلو میٹر لمبی خندق کھدوائی تھی؛ اسی لیے اس کو ’’غزوہٴ خندق‘‘ بھی کہتے ہیں۔
(۵)غزوہٴ بنی المصطلق ۶ھ میں ہوا۔
(۶)صلحِ حدیبیہ ۶ھ میں ہوئی، جب کہ رسول اللہ ﷺ نے عمرہ کا ارادہ فرمایاتھا اور چودہ سو صحابۂ کرام کے ساتھ روانہ ہوئے تھے کہ مشرکین مکہ نے حدیبیہ کے مقام پر روک دیا اور وہیں صلح ہوئی کہ آئندہ سال عمرہ کرسکتے ہیں۔
(۷)غزوہٴ خیبر ۷ھ میں پیش آیا، یہ یہودیوں سے آخری غزوہ تھا، اس سے قبل غزوہٴ بنونضیر اور غزوہٴ بنوقریظہ میں یہودیوں کو سنگین جرائم کی وجہ سے جلاوطن اور قتل کیاگیا تھا۔
(۹)غزوہٴ تبوک ۹ھ میں پیش آیا، ہرقل سے مقابلہ تھا، دور کا سفر تھا، شام جانا تھا، شدید گرمی کا زمانہ تھا؛ اس لیے خلاف عادت آپ ﷺ نے اس غزوہ کا اعلان فرمایا، چندہ کی اپیل کی، صحابہؓنے دل کھول کر چندہ دیا اور تیس ہزار کا عظیم الشان لشکر لے کر آپ ﷺ تبوک روانہ ہوئے؛ مگر ہرقل بھاگ گیا اور آپ ﷺ مع صحابہ واپس بخیریت مدینہ تشریف لائے۔
یہ چند اہم غزوات تھے، ان کے علاوہ بہت سے سرایا صحابۂ کرام کی سرکردگی میں مختلف مواقع پر روانہ فرمائے۔

*خلاصۂ کلام:*
سیرت النبیﷺ کا مطالعہ جس بھی زاویہ اور گوشے سے کیا جائے، انسانیت کی رہنمائی کرتی نظر آئے گی؛ کیوںکہ آپ ﷺ کو اللہ رب العزت نے رہتی دنیا تک کی انسانیت کے لیے رہنمائے کامل اور آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کو اسوۂ حسنہ بناکر ختمِ نبوت ورسالت کا مہر ثبت فرمادیا ہے۔ اسی لیے رہتی دنیا تک کی انسانیت کی ابدی وسرمدی حیاتِ نو کا دستور اور لازوال قانون اگر کہیں مل سکتا ہے، تو وہ سیرت طیبہ ہی ہے، اور یہ دعوی اس وجہ سے بھی درست ہے؛ کیوںکہ سیرت طیبہ ’’قرآن مجید‘‘ کی عملی تفسیر ہے، اور کون نہیں جانتا کہ قرآن کریم انسانیت کی ہدایت کے لیے آخری سامان اور توشۂ دین ودنیا ہے؛ آپﷺ کی سیرت طیبہ، حیات انسانی کے ہر ہرگوشہ کا کامل احاطہ کرتی ہے۔سیرت النبیﷺ مشکلات میں صبر وشکر، استقلال واستقامت کی تلقین کرتی ہے۔ قوت واسباب کا فقدان ہو، اور دشمن سرچڑھ کر بولنے لگے، تو ہجرت کا پیغام دیتی ہے۔ فراخی وخوش حالی میں دشمنوں سے دفاعی لشکر سازی کا درس دیتی ہے۔ خوش اخلاقی، اعلی ظرفی اور بلند حوصلگی کی تعلیم دیتی ہے۔ اخوت وبھائی چارگی اور اتحاد واتفاق کی فضا ہموار کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ ہر کام میں اعتدال اور میانہ روی کا سبق دیتی ہے۔ انسانیت کی بھلائی اور خیرخواہی کو ازحد ناگزیر گردانتی ہے۔
اللہ تبارک وتعالی ہمیں سیرت خاتم الانبیاء ﷺ کو اپنی زندگیوں میں عملی طور پر اپنانے اور اس سے درس وعبرت حاصل کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین!
abdulmannan8755@gmail.com