Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, November 28, 2019

جمعہ نامہ۔۔۔۔۔۔۔وہ جسکو چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے چھین لے۔!!!!


ڈاکٹر سلیم خان/صداٸے وقت۔
=======================
ملوکیت کے زمانے میں بادشاہ کا بڑا بیٹا ولیعہد ہوتا تھا ۔  اب بڑا بیٹا کون ہوگا یہ نہ بادشاہ طے کرتا تھا اور نہ ولیعہد  لیکن یہی ہوتا تھا یہ سمجھنا تاریخ انسانی سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے ۔   ملوکیت میں بھی گوناگوں وجوہات کی بناء پر  بڑے بیٹے کو اقتدار سے محروم ہونا پڑتا ہے ۔  سعودی کے حکمراں خاندان کی مثال لیں تو   ملک عبدالعزیز آل سعود کا سب سے بڑا بیٹا سعود  بن عبدالعزیز تھا جس نے ۱۱ سال حکومت کی مگر انتقال سے پانچ سال قبل معزول کردیا گیا اور دوسرے نمبر کے بھائی شاہ فیصل نے حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی۔  ملک عبداللہ کےپہلے ولیعہد سلطان بن عبدالعزیز تھے جن کا ملک عبداللہ سے  چار سال قبل اور ان کے بعدجانشین  کے عہدے پر فائز ہونے والے نائف بن عبدالعزیز کا تین سال قبل انتقال ہوگیا ۔ اس طرح سلمان بن عبدالعزیز بادشاہ بن سکے۔  چشم فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ چوتھے بیٹے کے بعد ساتویں بیٹے نے اقتدار سنبھالنے  کے بعد اپنے جانشین مقرن بن عبدالعزیز سمیت  سارے بھائیوں کو کنارے کرکے خلاف روایت  اپنی تیسری بیوی کے سب سے بڑے بیٹے  محمد بن سلمان  کو ولیعہد بنا دیا ۔
ملوکیت کے دور میں اقتدار کی تبدیلی ایک وجہ جنگ و جدال بھی ہوا کرتی تھی۔ فرغانہ  کے  حاکم عمر شیخ مرزا کے بارہ سال کی عمر میں یتیم ہونے والے بیٹے  ظہیرالدین بابر کو اس کے چچا اور ماموں نے  اقتدار سے بے دخل کرکے جنگل میں پناہ لینے پر مجبور کردیا تھا۔ اس وقت  بابر نے  سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ایک  دن وہ ابراہیم لودھی کی ایک لاکھ کی فوج کو شکست دے کر دہلی پر تخت نشین ہوجائے گا۔  دہلی میں اپنے قدم جمانے کے بعد وہ  اپنا تخت و تاج ہمایوں کو سونپ  کر دنیا سے رخصت ہوا لیکن شیر شاہ سوری نے دس سال کے  بعد اسے شکست فاش سے دوچار کردیا ۔ ہمایوں  دہلی سے بھاگ کر لاہور اور ملتان ہوتا ہوا سندھ   کے اندر عمر کوٹ قلعہ پہنچا جہاں  جلال الدین اکبر پیدا ہوا۔  وہاں سے ایران فرار ہوتے ہوئے ہمایوں کے خواب و خیال میں  بھی یہ بات  نہیں ہوگی کہ اکبر شہنشاہ بنے گا۔ دہلی پر قابض ہوکرایک سال  میں اکبر کی بادشاہت کا راستہ ہموارکرکے ہمایوں دارِ فانی سے کوچ کرگیا۔ 
ملوکیت کے بعد جمہوریت میں بھی  عجیب و غریب الٹ پھیر کا سلسلہ جاری ہے ۔  ہندوستان کے دوسرے وزیراعظم  لال بہادر شاستری    کا ۵۸ سال کی عمر میں جب اچانک انتقال ہوا تو کانگریس میں بڑے بڑے رہنما موجود تھے  اس کے باوجود گونگی گڑیا کہلانے والی  اندرا گاندھی کا وزیر اعظم بن جانا حیرت انگیز تھا ۔  اندراجی اپنے بڑے  سنجے گاندھی کو جانشین بنایا تھا لیکن کسے پتہ تھا کہ اٹلی میں جاکر گھر بسانے کا خواب دیکھنے والا پائلٹ بیٹا  ملک کا وزیر اعظم بن جائےگا؟ ر اجیو گاندھی کی ناگہانی  موت کے بعد کانگریس کو دوبارہ کامیاب کرنے والی   سونیا گاندھی وزیراعظم کے عہدے کی اصل  حقدار تھیں لیکن کون جانتا تھا کہ انہیں   نامعلوم غیر سیاسی  منموہن سنگھ کے ہاتھ میں  اقتدار سونپنا پڑے گا ۔یہ تلخ حقیقت ہے کہ  وہ دوسری کامیابی کے بعد بھی  اپنے بیٹے راہل کو وزیراعظم نہیں بنواسکیں ۔ چرن سنگھ، چندرشیکھر، دیوے گوڑا اور اندرکمار گجرال کا وزیراعظم بننا بھی غیر متوقع تھا ۔
مہاراشٹر کے اندر ٹھاکرے خاندان انتخاب نہیں لڑتا تھا ۔ اس مرتبہ بال ٹھاکرے  کے پوتے ادیتیہ نے ارادہ کرکے سب کو حیرت میں ڈال دیا ۔ اس کے بعد یہ قیاس آرائی ہونے لگی کہ وہ نائب وزیر اعلیٰ ہوں گے پھر یہ بات آئی کہ وہ ڈھائی سال کے لیے وزیراعلیٰ ہوں گے۔ اس وقت تک ادھو کے وزیراعلیٰ بننے کا کہیں کوئی ذکر نہیں تھا  لیکن جب ان کا نام سامنے آیا تو ساتھ ہی یہ بات بھی آئی کہ اجیت پوار نائب وزیراعلیٰ ہوں گے ۔ اس کے بعد وزیراعلیٰ فڈنویس کی حلف برداری ہوگئی   اور اجیت پوار کے نائب وزیراعلیٰ بن گئے  ۔ ارشادِ ربانی ہے’’ کہو! خدایا! مُلک کے مالک! تو جسے چاہے، حکومت دے‘‘اب یہ حالت ہے کہ ادھو ٹھاکرے وزیراعلیٰ تو ہوں گے  مگر اجیت پوار نائب وزیراعلیٰ  نہیں ہوں گے ۔ دیویندر فڈنویس کے ساتھ ساتھ اجیت پوار سے  عہدے کے چھن جانا کیا اس فرمانِ خداوندی کی تفسیر نہیں ہےکہ  ’’  (کہو! خدایا! مُلک کے مالک )توجس سے چاہے، (اقتدار)چھین لے‘‘ ؟