Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, November 10, 2019

محترم ظفر یاب جیلانی کے نام۔


ریویو پیٹیشن سے کوئی فائدہ نہیں ۔
عدیل اختر۔
صداٸے وقت /ذراٸع۔
==============================
محترمی!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میں سب سے پہلے تہہ دل سے آپ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ بابری مسجد کو بت خانہ بنائے جانے کے خلاف آپ نے  مستقل مزاجی، ہمت اور محنت کے ساتھ مسلسل جدوجہد کی۔ یہ آپ اور آپ کے چند احباب ہی تھے جنھوں نے، 1986 میں بابری مسجد کا تالا کھول کر وہاں ناجائز طریقے سے رکھے بت کی پوجا کے لئے مشرکوں کو اجازت دئے جانے کے خلاف عوامی سطح پر بیداری پیدا کی اور مکرو فریب پر چلنے والی قوم اور اس کے لیڈروں کے خلاف مسلمانوں کو کھڑے ہونے کاحوصلہ دیا۔ بابری مسجد ایکشن کمیٹی کی سرگرمی سے شروع ہونے والی بابری مسجد تحریک ہندوؤں کے ظلم کے خلاف مسلمانوں کی سب سے بڑی عوامی تحریک تھی جو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس تحریک سے بہت سے لوگوں نے سیاسی اور مادی فوائد حاصل کئے اور اپنےمفادات کو سمیٹتے ہوئے اس تحریک سے دور ہوتے چلے گئے۔ لیکن آپ ان بدنصیبوں اور مفاد پرستوں میں نہیں تھے یہ بات ثابت ہوچکی ہے اور آپ کی جہد مسلسل بابری مسجد کے تئیں آپ کے اخلاص پر گواہ ہے۔ 
راقم اس بات کا بھی قائل ہے کہ بابری مسجد تحریک کو بعد میں اپنے ہاتھ میں لینے والوں کی حکمت عملی اور طریقہ کار ایک طرف مسلمانوں کو بے حوصلہ اور بزدل بنانے کا سبب بنا اور دوسری طرف بابری مسجد کے حصول میں کارآمد اور مفید بھی ثابت نہیں ہوا، لیکن بہرحال مسلمانوں کی اجتماعی قیادت (مسلم پرسنل لاء بورڈ) نے اسے اپنے ہاتھ میں لے کر ٹھیک ہی کیا اور بابری مسجد کے قانونی قضیہ کو قانون کی عدالت میں حل کرانے کاسلسلہ مستقل طور سے جاری رکھا یہ بھی کم اہم بات نہیں ہے۔ اپنے موقف کواصولی اور منطقی طورپر ملک اور عدالت کے سامنے پیش کرنے میں بورڈ نے کوئی کمی نہیں کی اور اس اصولی موقف سے ہٹنے اور ہندوؤں کی دہشت کے سامنے اپنے حق سے دست بردار ہوجانے کی بزدلی نہیں دکھائی حالانکہ بورڈ کے اندر اور باہر منافقوں نے بورڈ کے لئے بڑے نازک حالات پیدا کئے لیکن بورڈ کی مخلص قیادت اور اس قیادت کے ساتھ چلنے والے مخلص لوگوں نے ہر موقع پر ثابت قدمی، فراست اور ہمت و حوصلہ سے کام لیا۔ اس کے لئے بورڈ کے مخلص قائدین (خاص طور سے موجودہ صدر مولانا رابع حسنی ندوی صاحب مد ظلہ ) اور ممبران لائق مبارک باد ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام لوگوں کی کاوش کو قبول فرمائے۔
 سپریم کورٹ نے جو فیصلہ سنایا ہے اس کے نتیجے میں ہم مسلمانوں کی کوئی شکست نہیں ہوئی ہے، ہم اخلاقی طور پرحق و انصاف کی اس لڑائی میں فتح یاب ہیں اور بابری مسجد پر قبضہ کرنے والی قوم جھوٹی اور اخلاقی طور سے شکست یاب ثابت ہوگئی ہے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے اپنے تبصروں او ر اپنے فیصلوں سے خود ہی یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ حق و انصاف اور دستور و قانون کے مطابق فیصلہ کرنے میں ناکام ہے۔ وہ حقائق کے مقابلے مفروضات کو اور شہادتوں کے مقابلے محض دعووں کو ترجیح دینے پر مجبور ہے۔ 

لہذا، مقابل قوم کی اخلاقی حالت اور عدالت کی ناکامی اور نا اہلی کو دیکھتے ہوئے اب ہمارے لئے یہ مناسب اور مفید نہیں ہوگا کہ اس فیصلہ پرنظر ثانی کی درخواست کی جائے۔ کیوں کہ اب یہ بات طے ہو گئی کہ عدالت اکثریت کے جذبات کی قیمت پر انصاف اور قانون کی پاس داری نہیں کرسکتی لہذا انصاف حاصل کرنے کی امید تو پوری نہیں ہوگی بلکہ اس کے برعکس یہ ہوگا کہ جھوٹ، فریب، دھونس اور دھمکیوں سے قانون و عدالت کویرغمال بنانے والی ہندوقیادت مسلمانوں کے خلاف اپنی قوم میں اور جنون پیداکرے گی اور کشیدگی کو بڑھاوادینے کی ذمہ داری مسلم قیادت پر ڈالی جائے گی۔ مسلمانوں میں جاہلوں، بزدلوں، مفاد پرستوں، منافقوں اور ذاتی انا میں قوم کو نقصان پہنچانے والے پڑھے لکھوں کی کمی نہیں ہے۔ یہ سب مل کر مسلم قیادت کو گالی دیں گے اور ہندوؤں کی ہاں میں ہاں ملائیں گے۔ 
لہذا، بابری مسجد کی پیروی کرنے والی مسلم قیادت کومسلمانوں کی کمزوری اورعدالت سے مایوسی کے اظہار کے ساتھ عدالت کے حکم پرخاموشی کا موقف اختیار کرنا چاہئے۔ ہم نہ تو بابری مسجد کو بت خانہ بنانے پر راضی ہوئے ہیں اور نہ عدالت کے فیصلہ کو صحیح مانتے ہیں، لیکن اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں کہ ہم مستقبل میں حالات بدلنے کا انتظار کریں اور اللہ سے دعا کریں کہ وہ اس مسجد کو اسی طرح بت خانے سے پاک کرنے کا انتظام کرے جس طرح کعبہ مقدس کو بتوں سے پاک کرنے کا موقع اللہ کے نبی ﷺ کو ملا تھا۔ 

فی الحال عدالت نے اپنے فیصلوں میں جو کچھ بھی لکھا ہے، اس میں حکمت عملی کے لحاظ سے ہمارے لئے کیا بہتر ہے یہ آپ جیسے لوگ بورڈ کی قیادت اور عوام کو بتائیں گے۔ فراست اورلائحہ عمل کا تقاضا یہ ہے کہ ہم کسی بھی حاصل ہونے والے فائدے سے انا یا اضطراب میں دست بردار نہ ہوں۔ عدالت نے پانچ  ایکڑ زمین مسلمانوں کو دینے کا حکم دیا ہے۔ اگر عدالت اور حکومت دنیا میں اپنی منھ دکھائی اور جھوٹی عزت بنائے رکھنے کے لئے یہ زمین ایودھیا میں (”پرائم پلیس پر“) ہمیں دے تو فی الحال ہمیں اسے اپنے قبضے میں لے لینا چاہئے۔ ہم اسے اپنے تئیں مسجد کا تبادلہ نہیں سمجھیں گے لیکن غاصبوں سے آسانی سے حاصل ہونے والی ایک زمین پر ہمیں ایودھیا میں رام مندر کے متوازی ایک عالمی سطح کا عظیم الشان اسلامی مرکز بنانے کا موقع ملے گا۔ ہمیں اس موقع کو ہاتھ سے نہیں چھوڑ نا چاہئے۔ اس دیار شرک میں ہمیں توحید کا پیغام عام کرنا ہے، ظلم و استبداد اور محرومی و کس مپرسی میں جینے والے لوگوں کو انسانی اخوت کے اسلامی نظام سے وابستہ کرنا ہے۔ انسانوں کی فلاح و بہبود ہمارے اوپر واجب ہے اور یہ ہمارے لئے اسلام کے فروغ اور امت مسلمہ کی ترقی کا ذریعہ بھی ہے۔ اس لئے ہم اس زمین پر تمام دنیا کے مسلمانوں کے تعاون سے ملک کا سب سے بڑا اسلامی دعوتی اور فلاحی مرکز قائم کرنے کا ارادہ کریں۔ اللہ تعالیٰ اس طرح ہمارے لئے آگے کی کامیابی کے راستے ہم وار کرسکتا ہے۔ دنیا چل رہی ہے اورقیامت تک چلتی رہے گی، ہمیں بھی ایک امت کی حیثیت سے اپنا سفر جاری رکھنا ہے اورآگے بڑھنے کے نئے نئے راستے بناتے رہنا ہے۔ 
والسلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
طالب خیر اور محتاج دعا
عدیل اختر
 (ایڈیٹر:اسلام پربھات، 632/9 ذاکر نگر، جامعہ نگر، نئی دہلی 25)