Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, November 13, 2019

حمیت نام تھا جس کا گٸی تیمور کے گھر سے !!!



بقلم : محمد شاہد خان /صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسرائیل کی پہلی خاتون وزیر اعظم گولڈا میر سے پوچھا گیا کہ آپ کی زندگی کا سب سے خوشگوار دن اور سب سے بدترین دن کونسا تھا ؟
اس نے جواب دیا کہ میری زندگی کا سب بدترین دن وہ تھا کہ جس دن مسجد اقصی کو جلایا گیا ، اس دن میں عرب مسلمانوں کے امکانی رد عمل سے بری طرح سہمی ہوئی تھی
اور میری زندگی کا سب خوشگوار  دن اس واقعہ کے بعد والا دن تھا کیوں کہ میں نے عرب مسلمانوں میں اس واقعہ کے رد عمل میں کوئی حرکت نہیں دیکھی ۔
اس واقعہ کے بعد گولڈ میر کو یقین ہوگیا تھا فلسطینیوں اور عربوں کے ساتھ کوئی بھی ناروا سلوک روا رکھا جائے ، ان کی طرف سے کوئی رد عمل نہیں ہوگا کیونکہ وہ مردہ ہوچکے ہیں ان کی دینی حمیت دفن ہو چکی ہے ، وہ صرف اپنی مصلحتوں کے غلام ہیں انھیں اپنی کرسی سے بڑھ کر کوئی شی عزیز نہیں ۔

اس واقعہ کی روشنی میں ہم ہندستانی مسلمانوں کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا ہمارا حال بھی عرب مسلمانوں جیسا تو نہیں ہوگیا ہے ؟
سبری مالا مندر میں ہندو خواتین کے داخلے کے تعلق سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہندو جماعتوں نے احتجاج کیا یہاں تک کہ بی جے پی نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کو ماننے سے انکار کردیا ۔ موجودہ وزیر داخلہ امت شاہ نے اسوقت بیان دیا تھا کہ کورٹ نے ایسا فیصلہ کیوں دیا جسے نافذ نہیں کیا جاسکتا اور کیرلا کے وزیر اعلی کی حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی دھمکی بھی دی تھی ۔
لیکن ہمارے سر سے بڑے سے بڑا طوفان آکر گزر جاتا ہے اور ہمارے صبر کا باندھ نہیں ٹوٹتا ، یہاں تک کہ دستور کے عطا کردہ احتجاجی حق کا استعمال تک نہیں کیا جاتا ، بیس کروڑ مسلمانوں کی زندگی ایک بڑے قبرستان کا سناٹا معلوم ہوتی ہے ۔
تین طلاق بل پاس ہوگیا اور تم بے بسی سے دیکھتے رہے
بابری مسجد کی اراضی دوسروں کو دیدی گئی اور تم نے بے چوں چرا سر تسلیم خم کردیا ، بلکہ پانچ ایکڑ زمین کی خیرات لوٹنے کے لیے بے تاب ہوگئے ۔
سکھ قوم کے اتحاد سے عبرت پکڑو کہ 1984 کے سکھوں کے قتل عام کی وجہ سے کانگریس حکومت کو پوری سکھ قوم سے معافی مانگی پڑی ، گولڈن ٹمپل کی مرمت کے لیے حکومت کو معاوضہ دینا پڑا اور معمولی اقلیت ہونے کے باوجود منموہن سنگھ کو دوبار وزارت عظمی کی کرسی پر بٹھانا پڑا ۔
اور ایک تم ہو کہ حکومت کی خیرات کے لئے تمہاری لار ٹپکتی ہے ، تم ایسے مقتول ہو جو اپنے قاتل کی دوستی پر خوش ہوتے ہو ، تمہاری صفوں میں میر و جعفر کی کمی نہیں ، تم نے بزدلی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے ، تمہاری اجتماعیت کا شیرازہ بکھر چکا ہے ، تمہارے اجتماعی مصالح انفرادی مصالح کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ، تم زندہ تو ہو لیکن تم میں زندگی نہیں ، اب تم صرف ایک انبوہ ہو صرف ایک انبوہ ۔
تمہاری قوت برداشت میں اضافہ نہیں ہوا ہے بلکہ تمہاری قوت مدافعت کمزور پڑ چکی ہے جس طرح کسی مریض کا مدافعتی نظام (immune system )کمزور پڑ جانے کے بعد اس پر دوا کی بڑی سے بڑی خوراک کوئی اثر نہیں ڈالتی اسی طرح بڑے سے بڑے حادثات تمہاری قومی و ملی زندگیوں پر کوئی اثر نہیں ڈالتے اور تم اس بات پر خوش ہوتے ہو کہ تم ڈسپلن شکن نہیں بلکہ نظام کے پابند ہو ۔
تمہارا آج جتنا بھیانک ہے آنے والا کل اس بھی زیادہ بھیانک ہوگا ، جانے والے جاچکے ، جس نے غلطیاں کیں اسے کوسنا تمہارے دکھوں کا مداوا نہیں ، اور جس نے اچھا کیا اس سے مزید کی امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنے حصے کا کام کرکے جاچکے ۔
 یہ تمہارا زمانہ ہے تمہیں اپنے حصے کا بوجھ خود اٹھاناہے ، تمہارا شاندار ماضی قصیدہ خوانی کے لیے نہیں بلکہ وہ تمہارے لیے ایک آئینہ ہے کبھی اس آئینے میں جھانک کر دیکھو کہ تمہارے اسلاف کیا تھے اور اب تم کیا ہوگئے ہو ۔