Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, November 26, 2019

جماعت اسلامی ہند پورے ملک میں این آر سی کے نفاذ او مجوزہ شہریت ترمیمی بل کی مخالفت کرے گی۔

حیدرآباد-26 نومبر( پریس ریلیز)۔صداٸے وقت۔
=============================
جماعت اسلامی ہند تلنگانہ کے امیر حلقہ جناب حامد محمد خان نے مرکزی وزیر داخلہ کی جانب سے ملک بھر میں NRC کے نفاذ اور شہریت ترمیمی بل سے متعلق اعلان پر اپنی تشویش کا اظہار کر تے ہوئے کہا کہ حکومت معیشت‘ فلاح و بہبود، روزگار کی فراہمی اور ترقی جیسے کلیدی مسائل کی یکسوئی میں پوری طرح ناکام ہوچکی ہے اور اپنی اسی ناکامی کو چھپانے اور عوام کی توجہہ اہم مسائل سے ہٹانے کے لئے جان بوجھ کر متنازعہ موضوعات کو بحث کا موضوع بنا رہی ہے۔ بیرونی شہریوں ا ور غیرقانونی پناہ گزینوں کی شناخت کے لئے ملک میں پہلے سے ہی قوانین نافذ ہیں۔اس کے لیے 135 کروڑ عوام کو مشکل میں ڈالنا اور مسائل سے دوچار کرنا بہت ہی غلط ہے۔ آسام میں NRC کے پورے عمل کی ناکامی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ یہ ایک غیر ضروری عمل تھا جس میں انسانی و مالی وسائل کا بے انتہاضیاع ہوا۔ 20 لاکھ شہری آخری فہرست میں شامل نہیں ہیں۔حکومت ان لوگوں کا کیا کرے گی خود حکومت کے سامنے بھی واضح نہیں ہے۔ یہ دعویٰ بھی بارہا کیا جاتا رہاکہ آسام میں 40 لاکھ در انداز ہیں لیکن یہ دعویٰ بھی غلط ثابت ہوا۔امیر حلقہ نے کہا کہ اگر حکومت کو کسی بھی شہری پر شبہ ہو تووہ یہ ثابت کر ے کہ اُس کی شہریت قانونی نہیں ہے۔ نہ کہ ہندوستانی شہریوں سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ دستاویزی شواہد کے ساتھ اپنی شہر یت ثابت کریں۔آپ نے مزید کہا کہ عوام کو ایسے سیاسی اعلانات سے گھبرانا نہیں چاہیے لیکن یہ بات ضروری ہے کہ ہر شہری کے پاس اُن کے تمام قانونی دستاویزات موجود رہیں۔
وزیر داخلہ نے جس طرح کے ’شہریت ترمیمی بل‘ کا اعلان کیا ہے وہ دستور ہندکی روح کے یکسر خلاف اور طبقات کے درمیان امتیازی سلوک کا آئینہ دارہے۔ اس میں کہا گیا کہ بنگلہ دیش‘ پاکستان اور افغانستان سے ہندوستان آنے والے ہندو، جین، سکھ، بدھ اور عیسائیوں کو ہی شہریت دی جائے گی اور ان کے علاوہ دوسروں کو یہ سہولت نہیں دی جائے گی۔اس طرح یہ بل ایک تکثیری‘ سیکولر اور جمہوری قوم کی حیثیت سے ہندوستا ن کے اُس بنیادی نظریہ کے خلاف ہے جو ہمارے آئین میں درج ہے۔ یہ در اصل حکومت کے فرقہ وارانہ Polarization کے ایجنڈہ کا ایک حصہ ہے۔ 
ہمیں یقین ہے کہ ہندوستانی عوام اس طرح کی تفرقہ انگیز سیاست کے شکار نہیں ہوں گے۔ اگر حکومت ملک بھر میں NRC اور CABکو لاگو کرنے پر اصرار کرتی ہے تو جماعت اسکی مخالفت کرے گی۔ ہم اپوزیشن جماعتوں سے بھی یہ امید کرتے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ میں اپنا کردار ادا کریں گے اور ایسے اقدامات کی منظوری کو روکیں گے جو عوام کو بانٹنے اور انہیں خدشات میں مبتلا کرنے والے ہوں۔
جماعت اسلامی ہند تلنگانہ جے این یو طلباء پر دہلی پولیس کی لاٹھی چارج اور CRPF کی بربریت کی سخت الفاظ میں مذمت کر تی ہے۔  طلباء قانونی دائرہ میں رہتے ہوئے ہاسٹل فیس میں ایک ہزار فیصد کے غیر منصفانہ اضافہ کے خلاف پر اَمن احتجاج کر رہے تھے۔ ہمارا احساس ہے کہ طلباء کی جانب سے ہاسٹل فیس کے فیصلے کی واپسی کا مطالبہ حق بجانب ہے، JNUانتظامیہ اور وزارت انسانی وسائل کو اِسے قبول کرلینا چاہیے۔حکومت معاشرہ کے تمام طبقات کو ار زاں تعلیمی اخراجات پر عالمی معیار کی تعلیم فراہم کرنے کی پابند ہے۔حکومت اپنی ذمہ داریوں سے بچنے اور طلباء پر غیر ضروری بوجھ لادنے کی کوشش کررہی ہے۔ حکومت کے اس اقدام سے غریب اور مستحق طلباء یقینا تعلیم سے محروم ہوجائیں گے جس کا نقصان قوم کو اُٹھانا پڑسکتا ہے۔ ہم نے اس سے پہلے بھی مطالبہ کیا تھا کہ حکومت کو GDP کا 6فیصد حصہ تعلیم کے لئے مختص کرنا چاہیے۔ ہمارے نوجوان ہی ہماری طاقت ہیں اور ہمیں اُن کی تربیت اور اچھی طرح نگہداشت پر توجہہ دینی ضروری ہے۔ انتظامیہ سے ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ طلباء کے مطالبات پر ہمدردانہ غور کرے۔ پولیس اور CRPF سے مطالبہ ہے کہ وہ زبردستی اور زور آزما ئی سے باز رہے۔ طلباء کے لئے یہ مشورہ ہے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے سے گریز کریں اور پر اَمن طریقہ سے مطالبات کی یکسوئی کی کوشش کریں۔