Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, December 13, 2019

امت شاہ کا اعداد و شمار کتنا صحیح۔؟

نٸی دہلی /نماٸندہ صداٸے وقت۔
=============================
امت شاہ کے مطابق سنہ 1951 میں پاکستان میں اقلیتیں کل آبادی کا 23 فیصد تھیں، لیکن ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کے باعث اس تناسب میں کمی آئی ہے۔
تاہم ایسے معلوم ہوتا ہے کہ امت شاہ نے پاکستان اور بنگلہ دیش (جو کہ 1971 سے قبل مشرقی پاکستان ہوا کرتا تھا) کے اعداد و شمار کو غلطی سے اکٹھا کر لیا ہے۔
مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی ہندو آبادی میں زیادہ کمی بیشی نہیں ہوئی اور 1951 میں 1.5 فیصد سے آج وہ دو فیصد پر کھڑی ہے۔یعنی نصف فیصد کا اضافہ ہی ہوا ہے۔
لیکن بنگلہ دیش میں ہونے والی مردم شماری سے یہ پتا چلتا ہے کہ وہاں بسنے والی اقلیتی برادریوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔ سنہ 1951 میں بنگلہ دیش کی آبادی میں 22 سے 23 فیصد حصہ اقلیتوں کا تھا، جبکہ 2011 میں یہ کم ہو کر آٹھ فیصد رہ گئے۔
نیز بنگلہ دیش میں بسنے والی اقلیتی برادریوں کی تعداد میں تو کمی آئی ہے لیکن پاکستان میں نہیں۔
پاکستان اور بنگلہ دیش میں اور بھی کئی غیر مسلم اقلیتیں ہیں، مثلاً مسیحی، بودھ، سکھ اور پارسی وغیرہ۔ ان کے علاوہ پاکستان میں احمدی بھی بستے ہیں۔ یہ وہ فرقہ ہے جسے پاکستان کی حکومت نے 1970 کی دہائی میں غیر مسلم قرار دیا تھا۔
اندازوں کے مطابق پاکستان میں اس برادری کے تقریباً 40 لاکھ افراد بستے ہیں اور یہ ہی پاکستان میں بسنے والی سب سے بڑا اقلیتی گروہ ہے۔
دوسری جانب افغانستان میں ہندو، سکھ، بہائی اور مسیحی مل کر آبادی کا صرف 0.3 فیصد ہیں۔ سنہ 2018 میں افغانستان میں صرف 700 سکھ اور ہندو ہی بچے تھے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق اس کی وجہ ملک میں سکیورٹی کی بدستور خراب صورتِحال تھی۔نہ کہ مذہبی تشدد
انڈیا کے نئے شہریت کے قانون میں لکھا ہے: ’پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے آئین میں ریاست کے مذہب کا ذکر ہے۔ اس کی وجہ سے کئی ایسے افراد جو ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی یا مسیحی برادریوں سے تعلق رکھتے ہیں انھیں مذہب کی بنا پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
یہ بات سچ ہے کہ اسلام پاکستان کا قومی مذہب ہے اور افغانستان بھی ایک اسلامی ریاست ہے۔
لیکن بنگلہ دیش میں صورتِحال زیادہ پیچیدہ ہے۔ اگرچہ 1971 میں ریاست کی بنیاد سیکولر بنیادوں پر قائم کی گئی تاہم 1988 میں اسلام کو سرکاری مذہب قرار دے دیا گیا۔
اس حوالے سے ایک طویل قانونی جنگ 2016 میں اس وقت ختم ہوئی جب ملک کی عدالتِ عظمی نے اسلام کی سرکاری مذہب کے طور پر تاید کر دی۔
لیکن ان تمام ممالک میں اقلیتوں کو آئینی تحفظ موجود ہے اور اضافی حقوق بھی حاصل ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کی تاریخ میں کئی نامور ہندو گزرے ہیں اور دونوں ممالک میں ہندو چیف جسٹس بھی رہ چکےہیں۔
 بنگلہ دیش میں کئی برس کے دوران ہندو برادری کی آبادی میں کمی کے تناسب کی بہت سی وجوہات رہی ہیں۔
بنگلہ دیش کی حکومت نے انڈیا کے اس دعوے کو مسترد کیا کہ وہاں اقلیتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
وزیر خارجہ عبدلمونم کے مطابق ’ہمارے پاس ایسی مثالیں نہیں ہیں کہ اقلیتوں کی ایذا رسائی ہو رہی ہے۔‘
اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق انڈیا میں سنہ 2016 سے سنہ 2019 کے درمیان مہاجرین کی تعداد 17 فیصد بڑھی۔جس میں تبتی و سری لنکاٸی زیادہ ہیں۔
رواں برس اگست میں اقوام متحدہ میں رجسٹر ہونے والے سب سے زیادہ مہاجرین کا تعلق تبت اور سری لنکا سے تھا۔