Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, December 30, 2019

یہ لنکا ڈھانے والے۔!!!

از/حمزہ فضل اصلاحی۔ممبٸی۔/صداٸے وقت۔
========================
بہت سے لوگ فخر سے کہتے ہیں کہ فلاں پولیس والے سے میری پہچان ہے۔ فلاں ڈی ایم میرے رشتہ دار کے ہاں آتا جاتا ہے۔ فلاں پولیس آفیسر میرے والد صاحب کا دوست ہے۔ کچھ لوگ اسے معیار تکر یم سمجھتےہیں،سماج میں ’صاحب‘سے دوستی کا حوالہ دے کر رعب جما تے ہیں۔ ان میں سے کچھ کمزوروں اور دبے کچلے طبقات کو ستاتے بھی ہیں۔  ٹھیلے والے کو آنکھیں دکھا کر دو چار کیلے،امرود اور سیب وغیرہ ڈکار جاتےہیں۔ چھپر کے ’ٹی اسٹال‘ والے سے مفت کی چائے پی لیتےہیں۔ ہاں پہلے ’صاحب سے دوستی‘ تذکر ہ زبانی ہوتا تھا۔ یعنی یہ صرف کہا سنا جاتا تھا۔ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا تھا۔ اب دور بدلا، ترقی ہوئی، ٹیکنالوجی نے صاحب سے دوستی کا ثبوت رکھنے بلکہ اسے یہاں وہاں ڈالنے اور پھیلانے کا موقع دیا۔ ان دنوں کچھ مسلم نوجوان صاحب سے ملتے ہی ایک سیلفی لے لیتے ہیں اوراسے سب کے ہاں بھیج کر اور دکھا کر صاحب کے دوست کی حیثیت سے مشہور بھی ہوجاتے ہیں۔ یوں بیٹھے بٹھائے صاحب سے دوستی کا تمغہ مل جاتا ہے۔
حمزہ فضل اصلاحی

اس میں کچھ صحافی یا صحافی نما بھی شامل ہیں جنہیں صاحب کی گاڑی میں بیٹھنے کی سعادت بھی ملتی ہے، ان کے ساتھ چائے وائے بھی پی لیتے ہیں۔اب ظاہر ہے کہ اس ’مبار ک موقع‘ کی تصویر یا سیلفی تو لازم ہے،اسی لئے ایک دن کی ملاقات کی دس دس بیس بیس تصویر یں نکالی جاتی ہیں اور انہیں وقفے وقفے سے پوسٹ کیا جاتا ہے، تاکہ دھا ک بٹھانے اور رعب جمانے میں کوئی کسر نہ رہ جائے۔ ایسے لوگ دربار میں حاضرہوتےہی سیلفی لینے کا جگاڑ کرتے ہیں۔
یہ ثبوت دیکھ کر اکثریت انہیں پولیس کا دوست ہی کہتی اور سمجھتی ہے۔ ان سے مرعوب بھی ہوتی ہے۔ کچھ بھائی اس طرح کی تصاویرکو اپنے ذہن میں محفوظ کرلیتے ہیں۔’کام پڑنے‘ پر ان سے ملتے ہیں اور ’دوست‘سے ’کام نکلوانے‘کی درخواست کرتے ہیں، عاجزی بھی کرتےہیں۔
کچھ سمجھداربلکہ ضرورت سے زیادہ سمجھدار ان تصویروں کو دیکھ کر جل بھن جاتے ہیں اور انہیں وہ تک کہہ دیتے ہیں جسے مہذب گالی بھی سمجھا جاتا ہے۔عام زبان میں انہیں خبری، عامیانہ زبان میں پولیس کا دلّہ اور کچھ پڑھے لکھے انہیں مخبر کہتے ہیں۔یہ سب ہوتا تھا، ہورہا ہے، ہوتا رہے گا مگر میں یہ سب لکھنے پر کیوں مجبور ہوا ؟ کیا میں بھی ان کی صاحب سے دوستی دیکھ کرجل رہا ہوں ؟دراصل گزشتہ دنوں اتر پرد یش کےمسلم اکثریتی محلوں میں پولیس نے وہ وہ ستم ڈھائے جسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ میرے جیساکمزور دل آدمی اس کی اسٹوریز پڑھ کر دہل گیا۔جس نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوگا، اس کا کیا حال  ہوگا ؟ اس پر کیا بیتی ہو گی ہے ؟ ذرا سوچئے۔’آگ کا دریا‘ جیسا عالمی شہریت یافتہ ناول تخلیق کرنے والی قرۃ العین حیدراور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پہلے رجسٹرار، بعض کے نزدیک اردو کے پہلے افسانہ نگار سجاد حیدر یلدرم کے آبائی گاؤں’نہٹور‘ میں سلیمان اور انس کو کس طرح موت کے گھاٹ اتارا گیا اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ کیا ہوا ؟ اس کی دل دہلا دینے والی تفصیل آپ ’انقلاب‘ ہی کی گزشتہ اشاعت میں پڑھ چکےہیں۔ ( ۲۶؍ دسمبر ۲۰۱۹ء، جلدنمبرـ:۸۲، شمارہ نمبر:۳۵۱،صفحہ نمبر :۱۰) آپ نے کئی ویڈیوز دیکھے ہوں گے۔ دوسرے ذرائع سے بھی پولیس کے مظالم کی داستانیں آپ تک پہنچی ہوں گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا سب دیکھنے کے بعد بھی آپ ’پولیس سے دوستی‘پر اترائیں گے۔ اعلیٰ افسران کو عید کے موقع پر اپنے گھر بلائیں گے۔ شادیوں میں انہیں بلا کر اپنی شان بڑھائیں گے، اپنے سینے پر واہ واہی تمغے سجائیں گے۔ لعنت ہے ایسی دوستی پر، پولیس سے دوستی کرنے والوں کا بائیکاٹ کیجئے، ان گھر کے بھیدیوں ہی نے لنکا ڈھا ئی ہے۔

 -حمزہ فضل اصلاحی