Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, December 4, 2019

جماعت اسلامی ہند کی رفاہی خدمات کا ایک نمونہ !!!


از/ سید سعادت اللہ حسینی
امیر جماعت اسلامی ہند/صداٸے وقت۔
=============================
         کل، کوچین میں میٹنگ جلد ختم ہوگئی اور شام میں فلائٹ تک کافی وقت بچا ہوا تھا ۔ کچھ لوگ ساحل سمندر پر چلے گئے اور میں اور جعفر صاحب نے عارف علی صاحب کے ساتھ ان کی تجویز پر کیرالہ جماعت کے ایک اہم پروجیکٹ کو دیکھنے کا فیصلہ کیا۔کو چین سے ساٹھ کلومیٹر کے فاصلہ پر پہاڑیوں کے درمیان ایک دلکش وادی ہے جہاں جماعت کی تقریباً دس ایکڑ زمین ہے ۔یہاں خوبصورت عمارتوں میں کیرالہ جماعت کا ایک بڑا اہم ادارہ چل رہا ہے، جس کا نام انہوں نے وادی امن peace valley دے رکھا ہے۔ ۔ اس ادارہ میں غریب اور مجبور مریضوں کی متعدد خدمات انجام دی جاتی ہیں۔ ایک منزل معذوروں کی باز آبادکاری کے لئے مختص ہے۔ ایک منزل ذہنی اور نفسیاتی مریضوں کے لئے اور ایک عیادتی اور تکلیف کم کرنے سے متعلق خدمات palliative care and pain management کے لئے۔ ایک ڈائلاسس کے لئے۔ تمام خدمات بالکل مفت ہیں۔
        یہ ادارہ ایک منفرد تصور کے تحت کام کررہا ہے اور مریضوں کی نگہداشت اور باز آبادکاری سے متعلق بعض ایسے امور پر نہایت خوش اسلوبی سے کام کررہا ہے جن پر عام ہسپتال توجہ نہیں دے پاتے۔ان خدمات کے لئے ادارہ نے اپنا طریقہ کار تشکیل دیا ہے جس کے تحت مختلف شعبوں سے متعلق ڈاکٹرز، ماہرین نفسیات، پیرا میڈیکل اسٹاف، مریض کے اہل خاندان اور سب سے بڑھ کر مخلص اور درد مند مرد و خواتین والنٹیرز ، کی مربوط و مشترک کوششوں سے مریضوں کے پیچیدہ مسائل حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

        معذوروں کی باز آبادکاری کے مرکز میں ایسے کئی معذور ہیں جن کو ان کوششوں سے اپنے پیروں پر کھڑا کرنے اور خودکفیل بنانے کی کوشش ہورہی ہے۔ ایک غیر مسلم نوجوان الیکٹریشین کام کرتے ہوئے تیسری منزل سے گرگیا۔ریڑھ کی ہڈی میں زخم کے باعث نچلے دھڑ سےمفلوج ہوگیا۔ یہاں کئی ماہ  تک اس کی فزیو تھراپی اور نفسیاتی علاج چلا اور بالآخر اس کے اندر اتنی خود اعتمادی اور صلاحیت پیدا ہوگئی کہ وہ آلات کے سہارے اٹھنے بیٹھنے کے لائق ہوگیا۔اس کے بعد سینٹر ہی کی کوششوں سے اس کے لئے خصوصی آٹو ڈیزائن کیا گیا جس میں صرف ہاتھوں کے استعمال سے وہ ڈرائیونگ کرسکتا ہے۔ اس طرح اس کے روزگار کا بھی انتظام ہوگیا۔ آنے والے ہفتہ کو سینٹر میں اس کا آخری دن ہے اور وہ ان شاء اللہ اپنا آٹو چلاتے ہوئے گھر جائے گا اور نئی زندگی کا آغاز کرے گا۔ اس کے کمرے کی کھڑکی کے سامنے اس کا آٹو کھڑا ہوا ہے۔پرنم اور متکرے آنکھوں کے ساتھ وہ اور اس کی ماں جس طرح ملے، وہ تصویر ذہن پر نقش ہوکر رہ گئی ہے۔ایسے دسیوں مریض اور ان کی زندگیوں میں خوشگوار انقلابات کی کہانیاں اس سینٹر سے وابستہ ہیں۔
           اس مرکز میں متعدد مریض ہیں جن میں سےُبعض  کو انتہائی طویل علاج درکار  ہے اور بعض جان لیوا ور اذیت ناک بیماریوں میں زندگی کی آخری سانسیں لے رہے ہیں۔ انہیں یہاں مناسب طبی نگہداشت بھی ملتی ہے اور ان صبر آزما ایام کو ہمت و حوصلہ کے ساتھ کاٹنے اور اللہ کی مرضی پر راضی رہنے کی تربیت  بھی۔ والنٹیرز کی صحبت سے ان کی اذیت ناک زندگی میں خوشی و اطمینان کے لمحات بھی  میسر آتے ہیں۔یہ فرشتہ صفت والنٹیرز ان کے کمرے میں قدم رکھتے ہیں تو  ان کے چہروں سے اذیت و بے بسی کے تاثرات ختم ہونے لگتے ہیں اور اندگی سے بھر پور مسکراہٹیں سج جاتی ہیں۔

       نفسیاتی امراض کا سیکشن تو بہت عبرتناک ہے۔ اچھے خاندانوں کے بوڑھے اور جوان طرح طرح کی شدید نفسیاتی بیماریوں کےُشکار ہیں۔ بعض ذہنی طور پر مفلوج بھی ہوگئے ہیں۔سزو فرینیا، اے ڈی ایچ ڈی، ڈپریشن وغیرہ امراض جب شدید درجہ اختیار کرلیتے ہیں تو نہایت اذیت ناک ہوجاتے ہیں۔ صرف مریض کے لئے نہیں بلکہ اس کے خاندان والوں کے لئے بھی صورت حال بہت تکلیف دہ ہوجاتی ہے اور خاندان والے بھی بیزار ہوکر کنارہ کش ہوجاتے ہیں۔ایسے صبر آزمامریضوں کو بھی یہاں رکھ کر ان کا علاج بھی کیا جاتا ہے اور ان کو خوش اور مطمئن رکھنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔

            دو جڑواں بھائیوں سے ملاقات ہوئی۔ چوبیس سال کے بظاہر صحت مند اور خوبصورت نوجوان ،لیکن ذہنی صلاحیت چھ ماہ کے بچے کی۔ دونوں ایک چھوٹے بال سے کھیل رہے ہیں ۔ معلوم ہوا کہ یہ ایک غریب موذن کے بچے ہیں۔ غربت اور لاعلمی کی وجہ سے بچپن ہی میں اُن کی حالت دیکھ کر ماں باپ نے ایک کمرہ میں بند کردیا اور اسی حالت میں وہ اس عمر کو پہنچ گئے۔ جلد علاج ہوتا تو بہتر ہو سکتے تھے ۔اب سینٹر کے والنٹیرز  یہاں لائے ہیں اور علاج شروع ہوا ہے۔

        سینٹر میں مختلف تخصصات سے متعلق ڈاکٹرز ، ماہرین نفسیات ، نرسوں وغیرہ پر مشتمل اسٹاف موجود ہے۔ انتہائی صاف ستھرے ماحول میں پروفیشنل خدمات دی جارہی ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ متاثر کن رویہ والنٹیرز کا ہے۔ جماعت کے نوجوان اور بزرگ مرد و خواتین والنٹیرز عجیب و غریب سرشاری اور وارفتگی کے ساتھ ان اجنبیوں کی خدمت کرتے ہیں۔ بعض مریض تشدد پر بھی آمادہ ہوجاتے ہیں۔والنٹیرز کو زخمی بھی کردیتے ہیں۔ چیخ پکار اور گالی گلوچ تو عام ہے۔ اس صورت حال کو برداشت کرتے ہوئے ان اجنبیوں کی رضاکارانہ خدمات معمولی بات نہیں ہے۔ لیکن خوشحال گھرانوں کے تعلیم یافتہ مرد و خواتین خوش دلی سے یہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔انہیں حوائج سے فارغ کرانے اور دن میں دو مرتبہ نہلانے سے لے کر ، انہیں کھلانا پلانا، دوائیں دینا، کپڑے بدلانا، روزانہ ان کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرنا، اُن کے لئے گیت گانا، لطیفے سنانا، ڈرامے کرنا ، کبھی ان کو لے کر تفریح کے لئے نکلنا، یہ سب کام یہ والنٹیرز کرتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ تمام انسانوں کے لئے بے پناہ محبت اور سچی درد مندی کے بغیر ایسی صبر آزما خدمات کا تصور ممکن نہیں ہے۔ اور ایک داعی حق کو ایسی ہی انسان نوازی اور درد مندی درکار ہے۔

         عارف علی صاحب نے بتایا کہ جماعت کے کارکنوں کی جانب سے بے لوث خدمات کا یہ سلسلہ صرف اس سینٹر تک محدود نہیں ہے۔ صرف اس ضلع میں جماعت کے زیر انتظام دس مراکز بستر پر پڑے ہوئے مریضوں کے لئے کام کررہے ہیں۔ مراکز پر نگہداشت کے علاوہ مرد و خواتین والنٹیرز گھروں پر جاکر بھی ایسے مریضوں کی خدمات انجام دیتے ہیں۔عارف علی صاحب نے یہ بھی بتایا کہ اس ضلع میں ایسی کئی خواتین ہیں جو صبح بچوں کو اسکول بھیج کر دوپہر تک ، خود کو اسی کام کے لئے فارغ رکھتی ہیں۔ اور ایسی مریض خواتین کی خدمت کے علاوہ  ان کی دلجوئی اور تفریح کی کوشش کرتی ہیں۔

        ان خدمات کے ذریعہ ان مراکز نے ضلع کے مسلم و غیر مسلم عوام کا اعتماد اس حد تک حاصل کرلیا ہے کہ چرچ ، عیسائی مریضوں کو یہاں ریفر کرتے ہیں۔ ایک جج نے ایک بوڑھی عورت کے بچوں کو حکم دیا کہ وہ بوڑھی ماں کو اس سینٹر میں منتقل کریں۔ ضلع کے عام عوام بڑھ چڑھ کر تعاون کرتے ہیں۔ پہاڑوں کے درمیان  دشوار گذار راستہ پر سینٹر تک ایک نئی پختہ سڑک تعمیر ہوئی ہے۔ بتایا گیا کہ یہ سڑک پلائی ووڈ مینوفیکچررز کی مقامی اسوسی ایشن نے اپنےخرچ پر بنائی ہے۔ ایک ڈائیلاسس کے لئے پانچ سو روپے خرچ آتا ہے۔ غریب مریضوں کو مفت خدمات فراہم کرنے کے لئے سینٹر پانچ سو روپے کے کوپن عام لوگوں میں فروخت کرتا ہے اور وہ ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوجاتے ہیں۔

         سینٹر کے چیر مین جماعت سے وابستہ ایک بزرگ صنعتکار موسٰی کٹی صاحب ہیں اور دیگر منتظمین نوجوان ارکان یا فارغین ایس آئی او ہیں۔ پروجیکٹ ڈائرکٹر ایک تعلیم یافتہ نوجوان ثابت عمر ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو ایک طرح سے اس کام کے لئے وقف کررکھا ہے۔ آئندہ دس برسوں کا منصوبہ ان کے پاس ہے۔ ڈی ایڈیکشن مرکز  اور اس طرح کے کئی منصوبے انہوں نے بنا رکھے ہیں اور کیرلہ جماعت کے تعاون اور حوصلہ افزائی سے تیزی سے انہیں روبعمل لاتے جارہے ہیں۔

        مجھے شدت سے محسوس ہوا کہ اس علاقہ میں  خدمت خلق صرف ایک تنظیمی کام نہیں ہے، بلکہ کارکنوں  کے گہرے جذبہ اور سچی درد مندی کا فطری نتیجہ ہے۔ آ ج اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ مسلمان اور اسلامی تحریکوں کے کارکن انسانیت کے خیر خواہ اور رحمتہ للعالمین کے مشن کی علم برداری میں ساری انسانیت کے لئے رحمت بن کر سامنے آئیں۔ اس حوالہ سے کیرلہ کے ان نمونوں میں سیکھنے کے لئے بہت کچھ موجود ہے ۔