Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, December 5, 2019

مکہ سے سفر، ماوراء نہر۔۔۔۔۔۔۔ قسط: اول(داستان سفر ازبکستان).



بقلم :  محمد نعمان مکی/صداٸے وقت۔
==============================
کںٔی سال پہلے جب محبوب العلماء و صلحاء حضرت جی مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی حفظہ اللہ کی کتاب “لاہور سے تا خاک بخارا و سمرقند” کے کچھ صفحے پڑھنے کا موقع ملا تو دل حضرت والا کی شخصیت سے غیر معمولی طور پر متاثر ہوگیا تھا۔ الحمدللہ بعد میں مکہ مکرمہ کی برکت سے حضرت کی ملاقات اور آپ کی مجلس کی برکات نصیب ہوتی رہیں۔ اور حضرت سے بیعت کا شرف بھی حاصل ہوا۔
البتہ پچھلے سال جب حضرت کے سفر ازبکستان کی ایک ویڈیو دیکھنے کا موقع ملا تو، حضرت کے نورانی چہرے کو دیکھ کر دل نے یہ کہا کہ کاش ہمیں بھی یہ سعادت نصیب ہوتی، کہ ہم بھی حضرت کی معیت میں کبھی خاک بخارا و سمرقند دیکھ پاتے، کبھی تاشقند سے لیکر ماوراء نہر تک جاتے، پھر اس سرزمین پر بیٹھ کر حضرت جی کی اصلاحی مجالس سے فیض یاب ہو پاتے۔ شاید قبولیت کی گھڑی تھی۔ دل سے جو آہ نکلی تھی، اسنے اپنا اثر دکھایا۔ پر نہ ہونے کے باوجود پرواز کردکھایا۔ کچھ اسطرح خدا نے اپنا کرم لٹایا۔ کہ اس سال کے سفر میں اپنا بھی نام آیا۔
کچھ دوستوں کے اصرار پر اور مفسر قرآن حضرت مولانا سید محمد طلحہ صاحب نقشبندی حفظہ اللہ(بھیونڈی) کے حکم پر اس یادگار سفر کی کچھ خوبصورت باتیں تحریر کرنے کی جرأت کررہا ہوں، اس امید پر کہ، یہ آگے ازبکستان جانے والوں کے لیے، مشعل رہنماںٔی ہوگا ، اور جو نہ جاسکیں ان کے لیے سفر تصوراتی ہوگا۔

ابتدائی:
۲۰ اکتوبر ۲۰۱۹ کی صبح کسی کام سے بندہ نے جناب نصیر صاحب عرفہ ٹراولس بنگلور کو فون کیا تو پتہ چلا کہ وہ مفسر قرآن حضرت مولانا سید محمد طلحہ صاحب نقشبندی حفظہ اللہ، اور دوسرے کچھ علماء اور سالکین کے ساتھ عنقریب تاشقند ( ازبکستان کی راجدھانی) جارہے ہیں‌۔ وہاں باقی سفر حضرت جی مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی حفظہ اللہ کے ساتھ ہونا طے ہوا ہے۔ ان سب کا ویزا اور ٹکٹنگ اور ازبکستان کے اندر سفر اور ہوٹلس وغیرہ کی ساری ترتیب بن چکی ہے۔ یہ سنتے ہی بندے نے حسرت سے کہا کہ آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا۔ حاجی نصیر صاحب نے فرمایا، کہ جانے والوں کی فہرست تیار ہوچکی ہے۔ اور اب بھی بہت سارے احباب حضرت جی سے اجازت چاہ رہے ہیں۔ لیکن ان کو اجازت نہیں ملی ہے۔ مگر آپ حضرت مولانا طلحہ صاحب حفظہ اللہ سے بات کرلیں، مجھے یقین ہے کہ حضرت آپ کو ضرور اجازت مرحمت فرمادیں گے۔ بندے نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ لیکن دل ہی دل میں یہ بات بھی تھی کہ جب دوسروں کو اجازت نہیں مل رہی ہے تو احقر کی کیا اوقات ہے کہ اجازت مل جائے۔ حضرت سے بات کرتے ہوںٔے بھی جھجک سی محسوس ہورہی تھی، کہ کہیں نہ کرتے ہوںٔے حضرت کو گرانی محسوس نہ ہو۔ بندہ متذبذب تھا کہ کوشش کرے بھی یا نہ کرے، بات کرے بھی یا نا کرے۔ اسی کشمش میں بندہ سیدھا حرم شریف چلا گیا۔ طواف میں رش زیادہ تھا، نیچے مطاف میں جانے کا راستہ انہوں نے بند کیا ہوا تھا۔ پھر وہیں مسجد کے احاطہ میں نماز عشاء پڑھی، پھر کھڑے کھڑے بیت اللہ کو دیکھ کر دعاںٔیں مانگیں، اور اس سفر کی تعلق سے اللہ سے مدد اور خیر کی طرف رہنمائی کی نیت سے استحضار کے ساتھ استخارہ کی دعا کی۔ پھر تھوڑی دیر وہیں بیٹھ کر تلاوت اور کچھ دیر مراقبہ کیا اور دوبارہ استخارہ کی دعا پڑھی۔ جب جانے کے لیے وہاں سے اٹھا تو دل کو اللہ نے اس سفر کی طرف ماںٔل اور مطمئن کردیا تھا۔
اگلے دن ۲۱ اکتوبر ٢٠١٩ کو بندے نے مفسر قرآن حضرت مولانا سید طلحہ صاحب نقشبندی حفظہ اللہ کو فون کیا اور اس سفر میں شرکت کی خواہش ظاہر کی، تو حضرت نے فرمایا کہ آپ کو میں اجازت دے تو سکتا ہوں، لیکن ابھی بہت دیر ہوگئی ہے۔ سب کی ساری ترتیب بن چکی ہے۔ یہاں سے ویزا یا ٹکٹ لے کر پہنچنا کوںٔی بڑی بات نہیں ہے، لیکن وہاں جو میزبان ہیں، پتہ نہیں کہ اب ان کے پاس گنجائش ہے کہ نہیں۔ پھر حضرت نے جناب وسیم احمد صاحب ہورا کا نمبر دیا کہ ان سے رابطہ فرمائیں اور کہیں نے میں نے آپ کو اجازت دی ہے۔ بہر حال ان سے رابطہ ہوا، اور انہوں نے تاشقند میں آرگنائزر سے رابطہ کیا، تو انہوں نے بندہ کی تفصیلات معلوم کرکے پاسپورٹ کاپی مانگی، اور کچھ دیر کے بعد وہاں سے بھی اجازت موصول ہوگںٔی۔ الحمدللہ۔ ازبکستان پہنچنے کے بعد کی ساری ترتیب کا خرچ ۹۴۸ یو-یس ڈالز تھا، جو وہاں پہنچنے کے بعد ادا کرنا تھا۔ الحمدللہ۔

بندہ سیدھا مکہ مکرمہ سے نکل کر ترکی ہوتے ہوںٔے تاشقند پہنچنا چاہ رہا تھا۔ مگر فلاںٔٹ کی ٹکٹیں ضرورت سے زیادہ مہنگی چل رہی تھیں۔ عرفہ ٹراولس کے مالک حاجی نصیر صاحب نے ٹکٹ خریدنے سے منع کردیا اور سفر کی ترتیب اس طرح پیش کی کے بجائے ترکی کے انڈیا کا سفر ہوجائے، سب سے ملاقات بھی ہوجائے گی اور ان حضرات کے ساتھ ہی باقی سفر کی ترتیب بھی بن جائے۔ اللہ حاجی نصیر صاحب کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ انہوں نے بندے 
کی ساری ٹکٹوں کی ترتیب بنا کر اس ک
اس کی کاپیاں ارسال کردیں۔

بہرحال بندہ پچیس اکتوبر کو مکہ مکرمہ سے قاری محمد علی مکی صاحب کے ساتھ جدہ ایرپورٹ پہنچا، وہاں سے سپاںٔس جیٹ کے ذریعے کیالیکیٹ اتر کر، وہاں سے دوسری فلاںٔٹ لے کر بنگلور پہنچا، تو حضرت مولانا قاری ہدایت اللہ صاحب رشادی حفظہ اللہ امام مسجد قریشی سٹی مارکیٹ بنگلور، بندہ کو لینے کے لیے ایرپورٹ پہنچ گںٔے تھے۔ رات کا قیام بنگلور میں کیا۔ پھر اگلے دن شام کو میسور پہنچ کر والدہ اور بھائی بہنوں سے ملاقات کے ساتھ کچھ اور اہم ملاقاتیں کرتے ہوتے ہوںٔے، ایک دن کے بعد بنگلور بذریعے بس واپسی ہوںٔی۔

ازبکستان کے لیے 28 اکتوبر کی شام بنگلور سے سفر شروع ہونا تھا۔ حاجی نصیر صاحب نے ایرپورٹ جاتے ہوںٔے بندے کو ایک جگہ سے رسیور کرلیا۔ ان کے ساتھ کار میں حضرت مولانا بلال صاحب پالنپوری حفظہ اللہ موجود تھے، یہ حضرت جی مولانا پیر ذوالفقار احمد صاحب نقشبندی حفظہ اللہ کے خلفاء میں سے ہیں، اور کینیا میں قیام پزیر ہیں، اور ماشاء اللہ بڑے سادہ مزاج اور باصلاحیت عالم ہیں۔ ان سے تعارف اور سلام دعا ہوںٔی تو پتہ چلا کہ وہ بھی اس سفر میں ساتھ ہیں۔

بنگلور ایرپورٹ پر امیگریشن کے بعد اندر ایرپورٹ والی مسجد میں پہنچے تو الحمدللہ اور دوسرے احباب سفر سے بھی ملاقات ہوگںٔی، جن میں‌ حضرت مولانا نصیر صاحب رشادی بنگلوری حفظہ اللہ بھی تھے۔ عشاء کی نماز باجماعت ادا کی اور وہاں انڈیگو فلآںٔٹ سے دہلی پہنچے۔ دہلی ایرپورٹ پر امیگریشن کے بعد نماز فجر ادا کی۔ کچھ دیر کے بعد مفسر قرآن حضرت مولانا طلحہ صاحب نقشبندی حفظہ اللہ بھی مع احباب کے تشریف لائے۔ حضرت سے ملاقات اور سلام دعا ہوںٔی۔

ازبکستان کے لیے روانگی:
صبح سات بجے کے قریب سارے احباب ازبکستان ایرلاںٔنس کے ذریعے سے روانہ ہوںٔے۔ توقع کے برخلاف ہوائی جہاز کشادہ اور سروس بھی اچھی تھی۔ دوران پرواز کھڑکی سے باہر نظر ڈالی تو سفید بادلوں کی چادر کی اوٹ سے خوبصورت پہاڑی سلسلے گزرتے ہوںٔے نظر آرہے تھے۔ ان میں سے کچھ پہاڑ کی چوٹیاں برف کی سفید ٹوپیاں پہن کر اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت پیش کررہی تھیں۔

دوپہر بارہ بجے کے قریب ہم تاشقند ایرپورٹ پر اترے۔ موسم کافی ٹھنڈا اور خوشگوار تھا۔ امیگریشن کے وقت وہاں کے آفیسر سب کے پاسپورٹس کو لینس آنکھوں میں لگا کر چیک کرہے تھے۔ پتہ نہیں وہ کونسا کھویا ہوا نقشہ تلاش کررہے تھے۔ جب ہم لوگ امیگریشن کی لاںٔن میں کھڑے تھے تو ایک نوجوان جو ایرپورٹ کا ہی ایک اسٹاف لگتا تھا، وہ سوٹ بوٹ میں ملبوس اپنے ہاتھ میں ایک تختی لیے کھڑا تھا۔ جس میں انگریزی میں نقشبندی اجلاس کے لیے خوشامدید لکھا ہوا تھا
ایمیگریشن کے بعد وہ نوجوان بڑے احترام کے ساتھ ہمیں لیکر ایرپورٹ کے باہر کی طرف چلا، وہاں دوسرے سب مسافروں کے لگیج اسکیانگ مشین کے ذریعے چیک ہورہے تھے۔ مگر ہم میں سے کسی کو بھی چیکنگ کے لیے نہیں روکا گیا۔ سیدھا ہم سب ایرپورٹ کے باہر نکلے تو حضرت عبدلکریم صاحب حفظہ اللہ نے استقبال کیا، یہ ملیشیاء میں رہتے ہیں اور حضرت پیر صاحب حفظہ اللہ کے خلیفہ ہیں۔ انہوں نے ہی کڑی محنت اور جد و جہد سے حکومت ازبکستان سے یہ اس پروگرام کو منظور کروایا تھا۔ اور ہلال ٹراولس ازبکستان کی خدمات سے سارا پروگرام ترتیب دیا تھا۔

حضرت نے سارے احباب کا پرتپاک استقبال کیا۔ وہاں میڈیا کے کچھ لوگ کیمرے لیے کھڑے تھے، انہوں نے پورے گروپ کو بینر کے ساتھ کھڑا کرکے تصویر لی۔ پھر سب احباب کو لگژری بسوں میں بیٹھا کر وہاں ایرپورٹ سے رہاںٔش کی طرف لے جایا گیا۔ سڑکیں کشادہ، ماحول نہایت ہی خوشگوار، ہر طرف پاکی صفائی کا نظارہ تھا۔ راستے کے دونوں طرف خوشنما درخت لگے ہوںٔے تھے۔ راستوں کے کناروں پر درختوں کے پتوں کے سوا نہ کہیں کوںٔی کچرا نظر آتا تھا نہ پلاسٹک کی بوتلیں نہ کوڑا نہ کرکٹ۔ ان پتوں کو ٹھکانے لگانے کا بھی معقول انتظام نظر آرہا تھا۔ راستوں پر صرف پاک و صاف کاریں چلتی پھرتی نظر آںٔیں،‌اس پورے سفر میں نہ کوںٔی آٹو نہ رکشہ نہ ہی کوںٔی موٹرسیکل نظر آںٔی۔ نہ کسی کو ہارن بجاتے سنا، الا ماشاء اللہ۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس ملک کی کرنسی اتنی سستی ہونے کے باجود یہاں کا لیونگ اسٹانڈرڈ بہت اعلی ہے۔ ان کی کرنسی کا نام صوم ہے۔ ہندوستان کے ایک روپیے کہ بدلے تقریباً ١٣٠ ازبک صوم ملتے ہیں۔

راستے میں حضرت عبدلکریم صاحب حفظہ اللہ نے ملک کے بارے میں بتایا کہ “یہاں کی ۸۰ فیصد سے زیادہ آبادی مسلمانوں کی ہے۔ مگر ہر کسی جگہ گوشت وغیرہ کھانے میں احتیاط کی ضرورت ہے، کیونکہ حلال کہہ کر بھی بیچاجانے والا ہر گوشت حقیقت میں حلال نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ ان بیچاروں کو حلال کا صحیح مطلب بھی نہیں معلوم ہے۔”

حقیقت میں ایک لمبے عرصہ تک کمیونسٹ کے جارحانہ تسلط نے وہاں کی اکثریت سے دینی علم اور اسلامی تشخص سب چھین کر مغربی خدوخال میں ڈھال دیا ہے۔ اور ہر طرف لوگوں کی زندگی میں مغربی رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔ الحمدللہ ہمارے مشاںٔخ حضرات، ان لوگوں کی خصوصی فکر کر رہے ہیں۔ اور اللہ کا شکر ہے کہ تبدیلی آرہی ہے۔ ان شاء اللہ، اللہ سے امید ہے کہ تھوڑے عرصے میں اس مغربی رنگ پر خوبصورت اسلامی رنگ غالب ہوگا‌۔ امید اس لیے بھی قوی ہے کیونکہ یہاں کے لوگ ظاہری خوبصورتی کے ساتھ ساتھ مزاجاً بھی بہت ہی متواضع، با اخلاق اور شریف النفس ہیں۔ اور ان کے قلوب میں دین کے لیے اور دین داروں کے لیے ادب ہے۔ یہ وہ امید کی کرن ہے جو عنقریب طلوع ہونے والے سورج کا پتہ دے رہی ہے
بہرحال ہم سب کو تاشقند کے ایک خوبصورت کاٹیج نما رہائش میں اتارا گیا۔ اور سب میں ان ان کے نام والے آںٔی- ڈی کارڈس تقسیم کیے گںٔے، جن پر ہمارا نام، پاسپورٹ نمبر اور آگے چل کر جہاں ٹہرنا ہے ان ہوٹلوں کے نام اور کون کس بس میں بیٹھیں گے وغیرہ معلومات لکھی ہوںٔی تھیں۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔