Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, January 3, 2020

ہمارے تمام بچوں کو لکھنؤ سے کچھ مہینوں کے لئے بھاگنے کو کہیں ورنہ پولیس۔...........؟اتر پردیش میں مسلمانوں کے خلاف پولیس کرواٸی کی شاٸع رپورٹ ”دی ٹیلیگراف “ سے ماخوذ۔

ظہوراحمد کے چھوٹے بھائی غفور نے کہا کہ اس خاندان میں سے کسی نے بھی احتجاج میں حصہ نہیں لیا تھا لیکن پولیس اہلکاروں نےظہورکو گرفتار کر لیا۔
لکھنٶ۔اتر پردیش /صداٸے وقت /مورخہ ٣ جنوری ٢٠٢٠۔
=============================
انگریزی روزنامہ ٹیلی گراف کے مطابق لکھنؤ جیل میں بند 65 سالہ ظہوراحمد اہلیہ اخترجہاں سے صرف ایک ہی بات کہے رہے تھے۔60 سالہ اختر جہاں نے اپنے شوہر کے حوالے سے ٹیلی گراف کوبتایا کہ "ہمارے تمام بچوں کو لکھنؤ سے کچھ مہینوں کے لئے بھاگنے کو کہیں ، ورنہ پولیس انہیں گرفتار کرے گی اور انھیں پیٹ پیٹ کرجیل میں ڈالے گی۔"اختر جہاں نے مزید کہا۔ ہمارے تین بیٹے گھر سے بھاگ گئے ہیں۔ ان میں سے ایک سوزن کاری کا کام کرتاہے ، دوسرا درزی ہے اور تیسرا انڈر گریجویٹ طالب علم ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اب وہ تنیوں کہاں ہے۔
اخترجہاں نے الزام لگایا کہ پولیس نے 21 دسمبرکو مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہونے سے پہلے لاک اپ میں ظہوراحمد کی پٹائی کی۔عدالت نے 21 دسمبر کو اسے عدالتی تحویل میں بھیج دیاتھا۔"جب میں نے اپنے شوہر سے ملاقات کی تووہ ٹھیک سے چلنے سے قاصرتھے۔ لکھنؤ کے پرانےشہر میں مدھی گنج میں دودھ کی دکان کے مالک ، ظہوراحمد کو20 دسمبر کو، شہریت ترمیمی قانون اوراین آرسی کے خلاف بڑے پیمانے پراحتجاج کےدوسری دن یعنی 21 دسمبرکوگرفتارکیاگیاتھا۔ ظہوراحمد پرہنگامہ آرائی اورسرکاری ملازمین کو اپنی ذمہ داری نبھانےسے روکنےالزامات لگائےگئے ہیں۔
ظہوراحمد کے چھوٹے بھائی غفور نے کہا کہ اس خاندان میں سے کسی نے بھی احتجاج میں حصہ نہیں لیا تھا لیکن پولیس اہلکاروں نے ظہوراحمد کو گرفتار کیا تھا۔پولیس اہلکاروں نے مبینہ طورپر کہا کہ "ہر مسلمان احتجاج کررہا ہے"۔اس طرح کے تبصرے سے اس خدشے کو تقویت ملتی ہے کہ اترپردیش پولیس بے ترتیب طورپرمسلمانوں کو نشانہ بنارہی ہے اور اسی لیے ظہوراحمد اپنی اہلیہ سے اپنے بیٹوں کولکھنؤ چھوڑنے کی صلاح دینے کے لیے کہے رہے ہیں۔
ظہوراحمد کے پڑوسی نے نام نہ ظاہرکرنے کی شرط پرٹیلی گرف اخبار کو بتایا کہ 19 دسمبر کو مدھی گنج میں ایک ہجوم احتجاج کررہا تھا۔ جب پولیس نے پہلے آنسو گیس کا استعمال کیا اوربعدمیں فائرنگ کی۔ہجوم پیچھے بھاگتا ہوئے ہمارے گھر کے سامنے آکررک گیا۔ وہیں لکھنؤ جیل میں بند ظہوراحمد کے بھائی غفوراحمد نے ٹیلی گراف کو بتایاکہ "ہم نے دودھ کی دکان بند کردی تھی اور ہجوم کے پتھراؤ یا پولیس کی گولیوں سے زخمی ہونے کے خوف سے اپنے گھر کے اندر چھپ رہے تھے ،
"پولیس نے 20 دسمبر کی صبح 2:30 بجے میرے بھائی کوحراست میں لیکرگئی ہے۔ جب ظہوراحمد نے پولیس اہلکاروں کو بتایا کہ وہ کسی بھی احتجاج میں شامل نہیں ہے تواہلکاروں نے دوٹوک اندازمیں کہاکہ ہرمسلمان احتجاج کررہاہے لیکن پولیس کے سامنے احتجاج سے انکار کیاجارہاہے۔
غفورنے الزام لگایا کہ پولیس اہلکاروں نے ان سے کہا کہ گرفتارشدہ مسلمانوں کو اس وقت رہائی ملے گی جب وہ ذہینی قوت اورطاقت سے محروم ہوجائیں گے تاکہ آئندہ 50 سال تک وہ اپنا سراٹھانہ سکیں۔ ٹیلی گراف اخبار سے بات چیت کے دوران انہوں نے کہا کہ پولیس،اس مکان کی پہلی منزل پررہنے والے 5 میں 4 کرایہ داروں کو بھی"گھسیٹ کر لے گئی"۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اب وہ کہاں ہیں۔ مقامی پولیس اہلکاروں نے ہمیں بتایا کہ وہ ان چاروں کے بارے میں نہیں جانتے ہیں۔غفور نے چاروں کرایہ داروں کی شناخت محمد ذاکر ، محمد ایوب ، محمد ظہور اورروی کمار کے طورپرکی تھی ،جو یومیہ مزدوربتائے گئے ہیں۔غفور کا کہناہے کہ کہ چارکرایہ داروں کے اہل خانہ یہاں پہنچ چکے ہیں اور یہ معلوم کرنے کے لئےایک دفتر سے دوسری دفتر کے چکر لگارہے ہیں لیکن ابھی تک پتہ نہیں چلاکہ وہ کہاں ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ وہ جیل میں ہیں اور پولیس لاک اپ میں نہیں ہے۔
جیل میں  بند ظہور کو ملا عدالت میں حاضر ہونےکانوٹس
غفور نے بتایا کہ اس خاندان کو26 دسمبر کو ایک نوٹس ملا تھا جس میں لکھا گیاہے کہ ظہوراحمد نے احتجاج کے دوران املاک کو نقصان پہنچانے کے الزام میں چھ دن قبل حراست میں لیاگیاتھا اوراسے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے ایک ہفتہ کے اندرمجسٹریٹ کے سامنے پیش ہونے کو کہا گیاتھا۔ بقیہ ، اس میں کہا ، نقصانات کی تلافی کے لئے اس کی جائیدادیں قرق کی جاسکتی ہے۔
ظہور کی ضمانت حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے وکیل محمد رضوان نے کہا ، "جیل میں بند ایک شخص خود عدالت میں کیسے پیش ہوسکتا ہے؟۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کو جیل میں اس پرنوٹس دینا چاہئے تھا اور اس کی عدالت میں پیشی کا انتظام کرنا چاہئے تھا۔ وہ لوگوں کو ہراساں کرنے کے حربے اپنانے رہے ہیں۔
وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی جانب سے پرتشدد مظاہرین سے "انتقام" کی دھمکی دینے کے بعد ، پولیس نے احتجاجی مظاہروں کے دوران آتش زنی اور توڑ پھوڑکے دوران ہونے والے نقصانات کی تلافی کے لیے متعدد افراد کو نوٹسز جاری کردیاہے۔ اگرچہ وکلاء پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ایگزیکٹو عدالتی حکم کے بغیر ہرجانے کی تلافی کی جاسکتی ہے۔ لیکن ظہورکے نام سے جاری نوٹس کم ازکم اس بات کی تاٸید ہے کہ پولیس بے ترتیب طور پر نوٹس بھیج رہی ہے۔